ہاکی اولمپیئن اصلاح الدین صدیقی اور قصہ دو کروڑ کا
زاہد مقصود صاحب کا شمار سپورٹس جرنلزم کے بانیان میں ہوتا ہے اور حلقہ صحافت میں ان کو از حد عزت و احترام کا درجہ حاصل ہے، پچھلے دنوں انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک واقعہ لکھا جو مجھے انتہائی دلچسپ اور فکر انگیز لگا میں نے زاہد مقصود صاحب سے اجازت چاہی کہ میں اسے اپنی ویب سائٹ کی زینت بنا سکتا ہوں تو توقعات کے عین مطابق انہوں نے اجازت دے دی جس پر میں ان کا تہہ دل سے مشکور ہیں
یہ ماضی کا قصہ ہے جب ہاکی کا طوطی بولتا تھا ۔ہم ریڈیو پر کمنٹری سنتے اور خود کو گیند کے ساتھ ساتھ دوڑتا ہوا محسوس کرتے ۔ اچھی موو پرتالیاں بجاتے ، نعرے لگاتے اور گول پر اُچھل اُچھل جاتے ۔ اصلاح الدین انتہائی تیز رفتار اور مخالف ٹیم کی صفیں چیر دینے والے فارورڈ تھے ۔ وہ ٹیم کی جیت کے لئے کھیلتے ، ملک کی عزت کے لئے کھیلتے اور ہاکی کے وقار کے لئے جان لڑا دیتے ۔ وہ پنلٹی کارنر پر ناقابل یقین رفتار سے ڈیش کر کے پُش پر ہٹ لگانے سے پہلے ہی گیند نکال کر لے جاتے ۔ ان کی اس تیز رفتار ی پر یقین نہ آتا ۔ پاکستان نے ان کی قیادت میں انیس سو اٹھہتر میں ورلڈ کپ جیتا ، اسی سال لاہور میں پہلی چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی ، بنکاک میں ایشیئن گیمز میں گولڈ میڈل اٹھایا وہ کئی بار ٹیم مینجر رہے ۔ کھیلوں کی صحافت میں آنے کے بعد ہاکی کے بہت سے کھلاڑیوں اور اولمپیئنز کی قربت کا موقع ملا ، ان کے انٹرویوز کئے ، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور انہیں سمجھنے ، پر کھنے اور پڑھنے کا موقع ملا ۔ گزشتہ اکیس بائیس برسوں میں “میرے کھیل “کو کچھ اس طرح بے رحمی سے برباد کیا گیا کہ اس میں اٹھنے کی سکت بھی نہ رہی ۔آفیشلز امیر اور کھلاڑی غریب سے غریب تر ہوتے گئے ،ہاکی پر قلم اٹھانے بلکہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنے کی وجہ اصلاح الدین کو سندھ حکومت کی طرف سے دیے جانے والے دو کروڑ روپے بن گئے ۔۔
اصلاح الدین صدیقی نے سندھ حکومت کی طرف سے نوٹس ملنے کے بعد دو کروڑ روپے منافع سمیت واپس کرنےکا اعلان کر دیا جو اب دو کروڑ چھہتر لاکھ کے قریب بنتے ہیں ۔ یہ رقم صوبائی حکومت نے جنوری دو ہزار چودہ میں کراچی میں اصلاح الدین اور ڈاکٹر محمد علی شاہ ہاکی اکیڈمی کے لئے دی تھی ،اولمپیئن نے گرانٹ کو کھیل کی ترقی پر خرچ کرنے کے بجائے بنک میں فکس کرا دیا تھا، اولمپیئن اصلاح الدین ، اکیڈمی کے صدر ڈاکٹر جنید علی شاہ، سیکریٹری اختر الاسلام ، خازن اولمپئن ایاز محمود کو محکمہ کھیل سندھ کی جانب سے حسابات کی رپورٹ جمع کرانے کے نوٹس جاری کیے گئے تھے، اصلاح الدین نے جواب جمع کرایا اور لکھا کہ یہ رقم خرچ ہی نہیں کی گئی تو حساب کتاب کیا دوں۔ سیکریٹری محکمہ کھیل کے جاری خط کے مطابق اصلاح الدین فنڈز استعمال کرنے کی بجائے جمع شدہ دو کروڑ روپے پرملنے والا سود وصول کر رہے ہیں۔ سابق کپتان کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ رقم بنک میں رکھ کر خیانت کی اور نہ کوئی جرم کیا ہے ۔۔بنک میں اصل رقم کے ساتھ منافع بھی جمع ہوتا رہا جو جوں کا توں موجود ہے ۔متعلقہ حکام کو ہر سال باقاعدگی سے آگاہ بھی کیا جاتا رہا ہے ۔
اصلاح الدین نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے ہاکی کی خدمت کے لئے سندھ حکومت سے بڑی رقم منظور کرائی اور وصول بھی کر لی لیکن ہاکی مرتی رہی ، ہاکی کا شوق آخری سانسیں لیتا رہا ، افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پچھلے پانچ چھ سال میں کراچی جیسا پاکستان کا سب سے بڑا شہر انٹرنیشنل سطح پر صرف ایک آدھ کھلاڑی ہی دے پایا ۔ لیکن اس ڈر سے کہ کہیں ہیر پھیر نہ ہو جائے اور جو پیسہ کھلاڑیوں پر خرچ ہونا ہے وہ کسی کی جیب میں نہ چلا جائے ۔ اسے کتنے ہی سال بنک میں دفن کر دیا گیا ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ حکومت سے گرانٹ لینا ، سپانسر شپ تلاش کرنا اور پھر اس کے بہتر استعمال کی منصوبہ بندی ہی ہاکی کے تن مردہ میں جان ڈالنے کی کوشش ہو سکتی تھی ۔
محمد علی شاہ کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے جنید علی شاہ کی اس کھیل میں سیاسی وابستگی تبدیل ہو گئی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔اصلاح الدین صدیقی کے ساتھ بہت کچھ ہو چکا ہے ،ا یک تقریب میں انہیں دھکے دیے گئے ، ان پر بد دیانتی کے الزامات لگائے گئے ، کہا گیا کہ وہ بنک سے اس رقم پر ملنے والا منافع ذاتی استعمال میں لاتے رہے۔ “ماہرین “ٹی وی چینلز پر بھی دور کی کوڑی لاتے ہیں ، پورے ملک میں ہاکی پہلے ہی سیاست کی وجہ سے “دل کے ہزار ٹکڑوں “کی طرح بٹ چکی ہے ۔پاکستان اولمپکس میں حصہ لینے کی دوڑ سے ہی باہر ہو چکا ہے لیکن پاکستان ہاکی فیڈریشن بنیاد مضبوط کرنے کی بجائے کلب اور ڈسٹرکٹ کی سطح کی سیاست میں اپنی توانائیاں ضائع کر رہی ہے ، کراچی کی سیاست زوروں پر ہے ۔ جس نئے کھلاڑی کو شہناز شیخ کے ان فٹ ہونے پر اولمپکس کی پلینگ ٹیم میں اصلاح الدین کی سفارش یا رائے پر شامل کیا گیا ، آج وہی حنیف خان ان کا سب سے بڑا تنقید نگار ہے ۔ یہ درست ہے کہ اصلاح الدین نے فنڈز ملنے کے باوجود اسے استعمال نہ کر کے ہاکی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا لیکن کیا اتنے بڑے کھلاڑی کے خلاف مہم چلانے والے ہاکی اکیڈمی پر قبضے کی اپنی مہم میں کامیاب ہو جائیں گے ؟ہمیں فنڈز میں خورد برد کے ڈر سے سانپ بن کر پہرہ دینے والے “ایماندار” کی ضرورت ہے یا فنڈز کے صحیح استعمال کو یقینی بنانے والے ایڈمنسٹریٹرز درکار ہیں ۔سابق کپتان کی گفتگو میں وزن تو ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ان سے استعمال نہ کئے جانے والے فنڈز کا حساب مانگا جا رہا ہے دوسری طرف پی ایچ ایف کو دیے جانے والے اربوں اور کے ایچ اے کو دیے جانے والے کروڑوں کا حساب کون لے گا ؟
کچھ بھی ہو ۔ اصلاح الدین نے اپنے دامن پر دھبہ لگا لیا ۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے “ماں نے کھسم کیا تو بُرا کیا ، کر کے چھوڑا تو اور بُرا کیا ” ۔ مجھے یہ منظور نہیں کہ پاکستان اور ہاکی کے وقار میں اضافہ کرنے والے عظیم کھلاڑی کے ساتھ ایسا “حُسن سلوک “کیا جائے ۔ کیوں نہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والے حکومتی اہل کاروں اور اولمپیئنز کے خلاف کارروائی کی جائے جو چھ سال تک خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے اور کسی نے فنڈز بنک میں فکس کرانے کے خلاف آواز تک بلند نہ کی ۔ کیوں نہ ان ہاکی اکیڈمیز کے خلاف کاروائی کی جائے جو کھلاڑی کا بیرون ملک معاہدہ کراتے ہیں، وہاں جان کھلاڑی مارتا ہے لیکن وہ اس سے آدھی رقم بٹورتے رہتے ہیں ؟میرے جیسے ہاکی سے پیار کرنے والے اچھے دنوں کو ترس گئے لیکن ہاکی بستر مرگ سے نہ اٹھ سکی ۔فیض احمد فیض نے کہا تھا :
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
اپنی رائے کا اظہار کریں