ڈرو اس وقت سے
ڈر
’زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں‘‘
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھو جانے کا
ڈر اور خوف سے میرا تعلق بہت پرانا ہے ، اور میں ان کم عقل اور کم فہم لوگوں میں سر فہرست ہوں جنہیں تعلق نبھانے کی لت پڑ گئی ہوتی ہے
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
اور
اسکی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
اور مجھے تواس ڈر کا بذات، خود اسی قبیلے سے تعلق لگتا ہے جو قبر کی دیواروں تک دوسروں کا ساتھ نبھاتے ہیں
عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
او میری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
ہم سے ڈر عملاً اس وقت متعارف کروایا جاتا ہے جب ہم اس لفظ اور اسکے معانی سے بلکل بھی آشنا نہیں ہوتے
لہذا مجھے جب اس کا ادراک ہوا تو لگا کہ اس بار تو ٹکر کے لوگ ملے ہیں ۔ یعنی بات دو آتشہ ہو گئ یعنی
نشہ اور بڑھے گا جب شرابیں شرابوں میں ملیں گی ۔
ہماری نازک مزاجی اور سہل پسندی کو ڈر نے آہنی ہاتھوں لیا اور یہ آنکھ مچولی کا کھیل ابھی تک اپنی تمام تر صلاحیتیوں اور نت نئی ایجادات اور اختراعات کے ساتھ بھرپور طور پر جاری و ساری ہے
۔
زرا سی لغزش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
ہم نے سوچا کہ چلو کچھ تو کمال ہم بھی کرتے جائیں چلو ایسے ہی سہی ۔
ہمارے عہد طفلی میں جب چاند پہ پریاں رہتی تھیں اور کوئی بڑھیا وہاں چرخا لیے بیٹھی ہوتی تھی تو وہی چاند کبھی ماموں بن جاتا تھا اور ہمیں تو ہر چاند نے ماموں بنا یا ہے ، ہم نے تو جسے بھی چاند کہا یا چندا کہا اس نے تو ہمیں تارے ہی دکھاۓ وہ تو بھلا ہو کہ تارے زمین پر فلم بن گئی اور ہمارا بھرم رہ گیا ورنہ ہم تو سارے کے سارے زمین پر ہوتے یا پھر زمین کے نیچے ۔
بات ڈر کی ہو رہی تھی اور ان چاند چہروں تک پہنچی جن سے مجھے اب بھی ڈر لگتا ہے
عہد طفلی میں جب رات کو جلدی سونا اک لازمی اور مشکل ترین سوال ہوتا تھا اور ہم ادھر ادھر کی ٹامک ٹوئیاں مارتے تھے تو اس وقت کا خوفناک ترین اور ڈرانے کا ایک بہترین ہتھیار”بلی” جو کے کسی بڑے سے بڑے ٹھاکر ،یا گھبر سنگھ اور ڈان سے کم نہیں ہوتا تھا اس کا نام سنتے ہی ہماری سیٹی گم ہو جاتی تھی اور ہم چاروناچار نیند کی وادی میں دھکیل دیے جاتے تھے اور نندیا پور کی پریوں سے اٹھکیلیاں کرتے اگر اس مٹر گشت کے دوران کہیں آنکھ کھل بھی جاتی تو دبکے بستر پر لیٹے رہتے کہ کہیں وہ “بلی” گھبر سنگھ ہمیں پکڑ ہی نہ لے جائے ۔ پھر وقت گزرتا گیا ، بلی کی حقیقت تو ختم ہو گئی مگر ڈر اور خوف نئے ڈھنگ اور نت نئے معانی اور مطالب کے گہرے اور پکے نقوش ہمارے کچے ذہن ہر چھوڑ گئے ۔ “سو جاؤ ورنہ بلی آجاۓ گی” اور اب اے سی لگا کر سو نہ جانا ورنہ بل آ جائے گا شاید اسی خوف کا اک حصہ ہے جسے حاکم شہر نے با طور احسن پروان چڑھایا اور کبھی بلی اور اب بجلی کا بل دونوں میرے لیے اک ڈراؤنا خواب بن چکے۔ میرے جیسے مڈل کلاسیوں کے ڈر چھوٹی چھوٹی چیزوں کی وجہ سے ہوتے ہیں اور خواب بڑے بڑے خیالات کے مرہون منت ہوتے ہیں
ایک دن جب امی جان کھانے کے چھوٹے چھوٹے نوالے ہمارے منہ میں ڈال رہی تھیں اور بڑی بڑی باتیں ہمیں بہت آسان طریقے سے سمجھا رہی تھیں تو میں نے اپنے ڈر کا اظہار ان سے کیا وہ ڈر جو اب بلی سے اپنے درجات بلند کرتا کرتا اندھیرے سے ڈر میں منتقل ہو گیا تھا ، میری امی جان ایک بہت ہی صابر ،شاکر اور بہادر خاتون تھیں ۔( اللہ ان کے جنت میں درجات بلند فرمائے۔ آمین) کہنے لگیں اوے، میرا بیٹا ہو کے بھی اندھیرے سے ڈرتا ہے ۔ اٹھ تجھے بسم اللہ سکھاتی ہوں ان دنوں میرا سر شاید ان کے گھٹنوں سے بھی نیچے ہوتا تھا ، ویسے آپ کا قد کتنا بھی بڑا ہو جائے آپ کا سر آپ کے والدین کے ٹخنوں سے اوپر نہیں ہونا چاہئے ۔
امی جان اٹھیں اور میں آنکھیں موندے اپنا سر ان سے جوڑے ایک اندھیرے کمرے میں ان کے پیچھے پیچھے چلتا گیا ۔ اور اگر کبھی آنکھ کھولتا تو نظریں ان کے پاؤں کا طواف کر کے واپس آ جاتیں ۔ انہوں نے اندھیرے کمرے میں مجھے اپنے پیچھے پیچھے رکھا اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، پڑھاتی رہیں مجھے بسم اللہ کے معنی اسی دن سمجھ آ گئے تھے اور مجھے بلی کی آواز اور اندھیرے کے طلسمات سے کچھ یوں نکالا
کہ دیکھ ببلو (میرا نک نیم) میں تو ہر وقت تیرے ساتھ نہیں ہوسکتی تو میری جگہ اللہ کو ساتھ رکھا کر۔ ۔ جب کبھی تم اس قسم کی ڈراور خوف میں ہو تو اللہ کو آگے کر کے اسکے پیچھے پیچھے آسی طرح چلتے رہنا جیسے میرے پیچھے چل رہا ہے کوئی بھی کام ہو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا اللہ کو آگے کرنا اور اس سے منت کرتے رہنا کہ مجھ سے نہیں ہوتا آپ کروا دیں ، مجھے ڈر لگتا ہے آپ میرے ساتھ چلیں اللہ کے بغیر ہم کوئی میدان نہیں جیت سکتے، اور اگر تو اللہ کو ساتھ لے کر چلے گا تو پھر ڈر تو کیا ڈر کا باپ بھی تجھ سے ڈرنے لگے گا بس یہ درخواست کرتے رہنا میں کمزور اور عاجز ہوں میری اتنی ہمت کہاں کہ ڈر سے لڑ سکوں، یا اللہ اگر آپ میرے ساتھ ہیں تو پھر میں زمانے کے ہر خوف ھر خوف کی علامت سےنہ صرف لڑ سکتا ہوں بلکہ جیت بھی سکتا ہوں ۔ میں نے اس دن دنیاوی طور پر نا خواندہ خاتون سے وہ حکمت پائی جو میں کہیں بھی نہیں سیکھ سکا جو شاید اس وقت تو میری سمجھ میں کم آئی مگر آہستہ آہستہ جب گرہیں کھلنا شروع ہوئیں تو اللہ کو اپنے ساتھ پانے کے احساس نے میرے بہت سارے خوف ختم کر دیئے
خدا ایسے احساس کا نام ہے کہ
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
مگر جب بھی میں اس اصول کو جانے یا انجانے میں بھول جاتا ہوں اور امی جان کی پڑھائی ہوئی اس بسم اللہ کو آگے پیچھے کرتا ہوں توخوف مجھے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور جب اللہ کو آگے رکھ کر پیچھے پیچھے چلتا ہوں تو امن و سکون کی سکینہ اترتی محسوس ہوتی ہے
الَّذِیْۤ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ ۙ۬— وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ ۟۠
جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور ڈر (اور خوف) میں امن (وامان) دیا۔
یا اللہ ہم اپنے خوف کے بت توڑنا چاہتے ہیں ان بتوں نے ہمیں توڑ کے رکھ دیا ہے ، ہم خوف میں اتنا دھنس چکے ہیں کہ ہم اب اپنے آپ سے بھی ڈرتے ہیں ۔
یا اللہ ، مجھے تو آپ کا تعارف بھی آپ سے ڈرنے کے ساتھ کروایا گیا تھا غلط ہو گیا تو اللہ مارے گا، یوں کسی نے نہیں سمجھایا کہ غلطی ہو گئی تو اللہ ناراض ہو جائیں گے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اسکی سزا دیں یہ کسی نے نہیں سمجھایا کہ غلطی تو میری سرشت میں ہے اگر غلطی پہ نادم ہو جاوں تو وہ اللہ بہت زیادہ پیار کرنے والاہے ، اور معاف کر دے گا۔ ، حالانکہ آپ کی ناراضگی سے ڈرنا چاہیے،مگر یہ بھی تو ھے کہ آپ تو محبت ہی محبت ہو، پیار ہی پیار ہو ، اس قدر شفیق ،مہربان ،رحیم وکریم سے ڈرنے سے زیادہ تو اس سے پیار کرنا چاہیے ، اس کی حکم عدولی سے بچنا چاہیے ، کوئی ایسی بات نہ سر زد ہو جائے جس سے سوھنا ناراض ہو جائے ، مجھے آپ سے ڈرایا گیا ۔ میرے معاشرے میں وہ کتاب جس میں آپ نے وہ تمام پاس ورڈز اور اصول کھول کھول کر بیان کیۓ ہیں اس کی بغیر سمجھے بنا غور و فکر تلاوت اور شبینے کی محفلوں پہ زیادہ زور ڈالا گیا۔ آپکے بہت ہی لاڈلے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معاف کرنے کی سنت کہ آپ تو اپنے بدترین دشمنوں تک کو معاف کر دیتے تھے اور ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ان کے ماننے والے اپنے کلمہ گو بہن،بھائیوں کو معاف نہیں کرتے اور معمولی معمولی دنیاوی فائدے حاصل کرنے کے لئے بہت بڑے اخروی نقصانات کو کوئی بڑی بات ہی نہیں سمجھتے ۔
یا اللہ آپ نے تو ارشاد فرما دیا کہ
الھاکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر
اور میں نے اس کا اثر ہی نہیں لیا
اللہ کریم آپ کے نبی نے
تو فرمایا تھا کہ ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں، مگر میرے اللہ ستم تو یہ ہے کہ ملاوٹ کرنے والے بہت سے ہم میں سے ہی ہیں۔ یا اللہ ہم تو بہنوں کے گھر کا پانی پینا حرام اور جائیداد میں ان کا حصہ کھانا حلال سمجھتے ہیں ، ہمیں آپکی اس حکم عدولی سے کون ڈراے گا، ہم صرف سود اور حرام اس وقت دیکھتے ہیں جب ہمیں پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں پیسے سمیٹے وقت اللہ نجانے کہاں چلا جاتا ہے ، یا اللہ ہمیں لیں دین سمیت اپنے ہر معاملے میں آپ کو اپنے ساتھ رکھنے اور اللہ کے احکامات ماننے والا بنا دے ، یا اللہ ہم آپ کو تو مانتے ہیں مگر آپکی نہیں مانتے ، یا اللہ ہم کتنے عجیب ہیں کہ دنیا سے چھپا چھپا کر اور تجھے دکھا دکھا کر گناہ کرتے ہیں اور تیری رحمت ھے کہ تو ہمیں پھر بھی کچھ نہیں کہتا کہ شاید ھم نادم ہو جائیں اور تیری طرف پلٹ آئیں شاید وہ ڈیل جو میرے اور آپ کے درمیان ہوئی تھی اور آپ نے اس کا مسودہ اپنے آخری نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہم تک بھیجا تا کہ سند رہے اسے سمجھ لیں جسکی ہم نے عبارت کو ثواب سمجھ کر پڑھا آپ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا سمجھا رہے ہیں یہ اہم بات پیچھے ھی رہ گئ اور اس کو محض پڑھنے کے فضائل زیادہ بیان کئے گئے اور اس کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے مقام کو کم اجا گر کیا گیا
یا اللہ ، جو کتاب خالصتاً آپ نے میرے لیے اتاری،جس کو سمجھ سمجھ کر پڑھنا اور عمل کرنا چاہیے ، اور یہی اس کا مقصود تھا اس کو زبانی یاد کرنے کے فضائل زیادہ بیان کئے گئے ۔ اس کو یاد کرنے کے بہت درجات ہیں مگر اس کو سمجھنے اور عمل کرنے کے درجات شاید بہت زیادہ ہیں ۔میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کہ کھانے کے برتن کو انگلیوں سے صاف کرو، اسمیں بہت شفاء ہے یہ بات زیادہ توجہ کا مرکز بن گئی جب کہ کم کھانے کی سنت کا بیان بہت کم ھوا جب کہ اسی نبی نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنا کھانا دوسروں کو دیا ھمارے لئے کھانا زیادہ اہمیت پکڑ گیا اور کھلانا کم درجے کی کام رھا ، تقسیم کرنے کے عمل ایثار اور قربانی کو کم پروان چڑھایا گیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کم کھایا اور ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کو زیادہ کھلایا، مجھے تو وہ شخص اس سنت پر عمل کرتا زیادہ دکھائی دیا جس کے پاس دو جوتوں کے جوڑے تھے اور وہ اس سوچ میں غرق تھا کہ اللہ نے مجھے دو جوڑے کیوں دیے ہیں وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یقیناً دنیا میں کوئی شخص ایسا ہے جس کے پاس جوتے نہیں ہیں اور یہ جوتے اسے ڈھونڈ کر مجھے اس تک پہنچانے ہیں ورنہ
ڈرو اس دن سے
جب تخت گرائے جائیں گے
جب تاج اچھالے جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
………………………………
یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس دن ایک ایک بات کا حساب ہوگا
اس دن سارے دنوں کا حساب ہوگا
کیونکہ
وہ حساب کے دن کا مالک ہے اور اس دن سب کو ان کے اعمال کی جزا وسزا دی جائے گی اور اس کی ناراضگی کا ڈر جو زندگیوں میں رکھا گیا ھوگا سب سے بڑا اطمینان بن جاۓ گا اوران لوگوں کو پکار پکار کر ان کا اجر دیا جاے گا جو حق کو حق اور باطل کو باطل کہتے رہے اور اس پر ڈٹے رہے
اپنی رائے کا اظہار کریں