سوجی آنکھوں کے سچے موتی
صبح حسبِ معمول آنکھ کھلی تو بائیں آنکھ قدرے سوجی ہوئی محسوس ہوئی اور کچھ چبھن بھی پائی گئ اور دائیں آنکھ سے کچھ دھندلا سا دکھائی دینے لگا ، دل میں سوچا، لوگ دماغ سے سوچتے ہیں مگر ہم دل میں سوچتے ہیں کہ دن میں تو لوگ ہماری آنکھوں میں آسانی سے دھول جھونک جاتے ہیں،یہ رات کو کسی کو کیا پڑی کہ اپنی نیند خراب کر کے ھماری آنکھوں کا سوچے۔ ویسے اگر کوئی شخص آپکی آنکھوں میں دھول جھونکے اور بشرطیکہ کہ آپ بےوقوف نہ ہوں تو آپ کو پہلے سے زیادہ اچھا اور صاف دکھائی دیتا ہے ۔ اپنے پرائے کی سمجھ آنے لگ جاتی ہے ، کھرا، کھوٹا پتا چلنے لگتا ہے ،۔ جلدی سے اٹھ کر ائینہ دیکھا اور دل ہی دل میں دعا کی کہ یا اللہ آج صبح صبح اپنا ہی منہ دیکھ لیا ہے خیر کرنا ۔ کرنا خدا کا کہ آنکھیں اتنی سوجی ہوئی تھیں کہ اپنا منہ تو کجا ائینہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا ۔ اور ہم اپنی ہی نظر خود کو لگنے سے بال بال بچے ۔ معمولی سا دکھائی دینے پر آنکھ اور اسکے پاس پاس سرخی نظر آئی ۔ ، آنکھ میں سرخی کے اضافے نے چہرے کی رنگت پیلی کر دی ۔ سوچنے لگا کہ شاید رات کو سوتے میں کسی مچھر وغیرہ نے میری آنکھ میں اپنی آنکھیں ڈال کر بات کرنا چاہی ہو گی ۔ دوسری آنکھ بھی ہمسائیگی کے حقوق پورے کرتے دکھائی دینے لگی ۔ مجھے اپنے ایک ڈاکٹر صاحب یاد آ گئے جنہیں میں پچھلے دنوں اپنی نظر چیک کروا کر آیا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ وہ روزانہ پچاس کے لگ بھگ مریضوں کو دیکھ لیتے ہیں ۔ ان کی اس ہمت پر ان کو داد بھی دی کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو روزانہ پچاس کے قریب لوگ آنکھیں دکھا دکھا کر چلے جاتے ہیں اور آپ پھر بھی ان سے خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں اور الٹا انہیں دوا بھی اور دعا بھی نسخے پر لکھ کر دیتے ہیں۔میری بات سن کر اُنہوں نے مسکراہٹ کا تحفہ مجھے دیا اور ہم چلے آئے ۔ انہی ڈاکٹر صاحب کو فون کیا اور اپنی صورت حال گوش گزار کی۔ تو وہ گویا کئے کہ صاحب آنکھ کے اندر جھانکنے سے کچھ معلوم ہو گا ۔ تو دل کو کھٹکا لگا کہ کہیں یہ آنکھ سے دل میں نہ اتر جائیں بلکل ویسے جیسے درد کا داغ آنکھ سے دل میں اتر جاتا ہے مگر بے فکری بھی تھی بقول فیض احمد فیض صاحب کہ
ہر داغ ہے اس دل میں
بجز داغ ندامت
اگر انہیں اندر کی بات پتا چل گئی تو بہت سبکی ہوگی ۔ اپنی پوری سی شکل پہ اچھےسا چشمہ سجایا تاکہ دوسرے لوگ اس آشوبِ چشم کا شکار نہ ہوں ۔ انہوں نے کچھ عدسوں والی مشین سے روشنی کی اک اندرون بین شعاع سے اندر کے خرابوں سے وفا کے موتی تلاش کرنے کی بے کار سی کوشش کی۔ پھر مجھے تسلی دی اور کہا ۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ ایک وائرل بیماری ہے۔ اور آج کل یہ بہت پھیل رہی ہے ۔ کچھ ادویات دیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین بھی کی ۔ ادویات کے بارے میں میرے اسرار پر انہوں بتایا کہ ایک lubricant ہے اور دوسری میں بہت ہلکا سا steroid اور antibiotic ہے۔آپ بہت جلد اچھے ہو جائیں گے ۔کہنے لگے کہ میں نے بہت ہی اعلیٰ معیار کا lubricant تجویز کیا ہے۔ اس کے استعمال سے آنکھ کی جلن سے آفاقہ ہو گا ۔میں نے عرض کی ۔ کہ حضور ، کیا یہ آنسو سے بھی زیادہ اچھا lubricant ہے۔ کہنے لگے نہیں ۔آنکھ کے لیے سب سے اچھا lubricant ایک اشک کا قطرہ ہے ۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی اور اس پاۓ کا lubricant ہے ہی نہیں ۔ انکھ کو جتنا اچھا آنسو دھوتے ہیں اس سے بہتر دنیا کی مہنگی سے مہنگی دوا نہیں دھو سکتی ۔
میں نے بڑے سمٹے سمٹے سے کہا کہ بندہ پرور ۔ آنسو تو پھر بہت قیمتی شے ہوئےنا؟ ۔ یہ تو اندر سے بھی انسان کو دھو دیتے ہیں ، اس کی ساری کثافتیں ،ساری میل، اگر ندامت کے ہوں تو گناہ بھی دھو دیتے ہیں ۔ اگر احساس گناہ اور شرمساری میں رب کے حضور پیش کیے جائیں تو گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا جاتا ہے
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
ڈاکٹر صاحب کہنے لگے ۔
بھائی صاحب آپ شکل سے تو اتنے سمجھ دار نہیں لگتے جتنی سمجھداری کی باتیں آپ کر رہےہیں ۔ میں نے کہا کہ سر شکل اور عمل سے تو آپ بھی ڈاکٹر نہیں لگتے کہ کسی مریض سے اتنی آرام اور دل چسپی سے باتیں کریں، آپکے کمرے میں تو صرف ہم ہی ہیں پاکستانی ڈاکٹروں کے کمروں میں تو مریض جانوروں کے ریوڈ کی طرح کھسے ہوتے ہیں اور پھر چل سو چل ۔۔ جیسے کرکٹ میچ میں رنز chase کرنے کی پریکٹس ہو رہی ہو۔
میں نے عرض کی کہ
سر یہ آنسو اتنے قیمتی ہوتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ شاید انہوں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک آنسو اتنا قیمتی اور اتنا خالص ہوتا کہ اگر اس آنسو کو چار لٹر عام پانی میں ملا دیا جائے تو وہ سارا پانی
Distilled water
بن جاتا ہے ۔ میں نے عرض کی کہ اگر ایک آنسو انسان کی تقدیر بدل سکتا ہے تو یہ پانی کا قطرہ پانی کی تقدیر کیوں نہیں بدل سکتا، بلکل ایسا ہو سکتا ہے۔، پورا جسم جھنجھوڑ کر ایک قطرہ آنسو کشید ہوتا ہے ۔ خالص تو ہو گا ۔ اور اللہ کو خالص چیزیں ہی تو پسند ہیں ۔ اللہ کی راہ میں لڑنے والے شہید کے لہو کا پہلا قطرہ ،اور اسکے حضورِ ندامت میں بہنے والے آنسو کا پہلا قطرہ ۔۔ میرے اللہ کو اتنی خالص چیزیں پسند ہیں ۔ اور پھر یہی خالص قطرے ان کو اللہ کا خاض بندہ بنا دیتے ہیں ۔ اور پھر وہ انہیں وہاں سے رزق دیتا ہے جس کا ادراک کسی شخص کے بس میں ہی نہیں ۔ خالص اور سچے سودے ۔ اسی لیے تو اللہ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ جو ملاوٹ کرے گا وہ ہم میں سے نہیں ۔
بھائی صاحب ۔ سچے سودے بازی لے جائیں گے ۔ کھوٹ ، ملاوٹ سب ادھر ہی رہ جانا ہے جھوٹ نفرت،حسد۔۔ ،منافقت یہ سب نیکیوں کو کھا جائیں گے ۔اللہ سائیں سچ کے ساتھ ہیں ۔ سچ کو لہو لہان تو کروا دیتے ہے مگر سچ کابول ہمیشہ بالا رکھتے ہیں ۔ اور جن کو اپنی راہ میں لہو لہان کرواتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالٰی خود فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیا ہے۔
میں خدا کے حضور دعا کرنے لگا ۔ یا اللہ جو تیری راہ میں خون میں لت پت ہوئے میں تو شاید وہ نہ بن سکوں۔ مجھے ندامت کے آنسو ہی اپنے حضور پیش کرنے کی توفیق دے دیں ۔شاید یہ کھوٹا سکہ وہاں چل جائے
میری آنکھوں سے دنیا کا مہنگا ترین اور بہترین lubricant اپنے حضور رات کی تنہائیوں میں اللہ صرف اور صرف اپنے لیۓ ، شدید ندامت کے ساتھ ، بہانے کی توفیق دے ۔ کیونکہ اس کا اصل قدر دان اور اس کی اصل کو جاننے والا اللہ آپ کے علاؤہ کوئی ہے ہی نہیں ۔
ہماری خاک سے کوئی تو کام لینا تھا
نگاہ یار تیرے اختیار میں ہم تھے
اپنی رائے کا اظہار کریں