اتالیقی دور کے جھرونکوں سے
ایک دم سے پردہ ذہن میں ایک فلم کی طرح گھومنے لگے جب ایک شخص نے نہایت ادب واحترام سے سر جھکایا اور پدرانہ عقیدت سے ہاتھ چومے اور پھر مجھے کچھ یاد دلا کر ماضی میں لے گیا زیادہ دور نہیں عہد جوانی کی طرف۔ جب میں واقعی میں تھا اب میں کوئی اور ہوں اور کوئی اور میں ۔ اس وقت زمانے کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔
جس عقیدت واحترام سے وہ صاحب مجھ سے مل رہے تھے میں دل ہی دل میں پسیج رہا تھا کہ یا تو یہ صاحب مجھے جانتے نہیں ہیں یا پھر کسی غلط فہمی کا شکار ہیں یہ محبت ،عزت اور احترام تو کسی اور کے لئے ہے جو اس وقت مجھے مل رہا ہے ۔ لیکن جب انہوں نے میرا نام لیا تو میں ایک دم سے حیران ہوا ۔اور پھر میرے نام کے ساتھ سر بھی لگایا تو جان میں جان آئی کہ ہو نہ ہو ان سے بھی زمانہ طالب علمی میں مجھ سے پڑھنے کے غلطی ہوئی ہے ۔اور اب وہ ایک،40 35 سال کا ایک خوبرو جون تھا ۔ میں ان دنوں اپنے سب مرد طالب علموں کو نوجوان کے لفظ سے مخاطب کرتا تھا ۔ سر میں آپ کا نوجوان ” عدنان”( یہاں میں نے اس کا اصل نام مصلحتاً نہیں لکھا) سر میں نے آپ کو بہت ڈھونڈا آپ نہیں ملے ، ہم سب لوگ کچھ عرصہ کے لیے امریکہ چلے گئے تھے اور وہی پہ سکونت اختیار کر لی تھی ۔میرے والدین پاکستان آتے رہتے ہیں اور آپ سے ملنے کو بہت دل کر رہا تھا ، مجھے اس بات پر پھر غلط فہمی کا اندیشہ ہوا ، کہ کچھ لوگ تو مجھے دیکھ کر بھی خوشی نہیں اور یہ خوشی خوشی ملنا چاہتے ہیں ۔ میں نے پھر تصدیق چاہی کہ آپ نے مجھے پہچان لیا ہے ؟ جب اس نے کہا جی سر ، بلکل پہچان لیا ہے ، تو میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کہ ابھی تک میں اپنے آپ کو جان نہیں سکا اور اس جوان نے پہچان بھی لیا۔ دل ہی دل میں دعا کی کہ اللہ جی یہ پہچاننے والی بات روز مرہ والی ہو اگر اصل ہوئی تو وہ عقیدت جو یہ مجھے دے رہے تھے تو وہ احترام مجھے ان کو دینا پڑےگا ۔ شکر ہے کہ بات روز مرہ اور محاورات تک ہی رہی ورنہ لینے کے دینے پڑ جاتےوہ جوان مجھے یادوں کی ٹائم مشین میں بیٹھا کر ماضی میں1996 میں لے گیا جو جو اس نے یاد دلایا عین ممکن تھا کہ وہ مجھے زمین سے آسمان تک کا لمبا سفر چند سیکنڈ میں طے کروا دیتا اور ہم اس محدود دنیا سے نکل کر لا محدود ہو جاتے اور میں نے اس کی بات سن کر اتنا اونچا قہقہ اس لیے لگایا کہ کہ اچھے اور نیک لوگوں کے چہروں پہ دنیا سے جاتے وقت ایک سکون اور متانت ہوتی ہے کیونکہ ہم اپنے کھرے کھوٹے سے واقف تھے تو سوچا کہ جیتے جی ہی وہ تاثر اپنے چہرے پہ لے آئیں ورنہ نیک لوگوں کی فہرست میں تو ہمارا شمار دور دور تک نہیں ہوتا ۔ جب اس نوجوان نے یہ بات یاد دلوائی کہ سر اس دن آپ نے مجھ سے کالج کے گراؤنڈ کے فراگ جمپنگ کرتے ہوئے پانچ چکر لگانے کو کہا تھا اور اس روز بہت گرمی بھی تھی ۔ اور وہ میں نے لگاۓ بھی تھے ۔ اور کلاس روم سے باہر نکل کر آپ سب سے نظریں چرا کر اپنے پانی کی بوتل مجھے دیتے تھے کہ اس میں سے پانی پی لوں آپ ان دنوں گھر سے اپنے لیے بہت میٹھا مینگو ملک شیک بنوا کر لاتے تھے ۔ آپ نے کچھ گھونٹ پینے کو کہا تھا اور میں سارا پی گیا تھا ۔ پھر ہم دونوں کے بلند ترین قہقہے فضا میں بلند ہوۓ اس کی ہنسی کا انداز بڑھتا جا رہا تھا اور میرا دل بیٹھا جا رہا تھا ۔ حیرت انگیز لہجے میں اس بتایا کہ وہ ایک آرمی آفیسر ہے وہ اب کرنل محمد عدنان یے ۔ جب اس نے آرمی اور کرنل کا ذکر کیا میرے تو جیسے پاؤں سے زمین نکل گئی ۔ دور ایک ویگو ڈالا اور دو عدد فوجی جوان بھی اصلحہ تانے کھڑے تھے انہیں دیکھتے ہی آج کے دور کے مطابق میرے تو اوسان خطا ہوگئے تھے ۔میں نے کہایہ بہت پرانی بات ہے اور مجھے بھی یاد ہے مگر اتنا کچھ نہیں یاد جتنا کچھ آپ کو یاد ہے۔۔ جب اس نے کہا کہ سر یہ 1996 کی بات ہے جب میں 11th grade کا طلب علم تھا ۔28 سال پرانی پٹائی اسے اچھی طرح یاد تھی اور اس دن اس کی دھلائی ہوئی بھی بہت اچھی طرح تھی جب اس نے 28 سال کا کہا تو میں نے دل ہی دل میں کہا کہ میں اتنا پرانا ہوں اور اب تو آہستہ آہستہ پھٹا پرانا ہوتا جا رہا ہوں میں نے سوچا کہ اب کیا کیا جائے میں بھی مسٹر چپس کی طرح یادوں کے اس سمندر میں غوطہ زن ہوا اور یادوں کی لہریں مجھے بہا کر شہر کے ایک اعلیٰ معیار ایک اعلیٰ درجے کے کالج میں لے گئی جہاں معززین شہر اور اعلیٰ افسران کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ میں ان دنوں جرمن کی ایک انٹرنیشنل کمپنی سے استعفی دے کر اپنے شہر آیا تھا, کمپنی کے توسط سے کچھ ممالک کی آوارگی ، اور five star hotels کی آسائشوں سے کچھ زیادہ ہی متاثر تھا ۔ ان دنوں مجھ پہ عجب عجب سے جنوں طاری تھے ۔ شاید یہ بات کسی شاعر نے ہمارے جیسے کسی آشفتہ سر کے لیے ہی کہی ہو گی کہ
“ایک انگلی پہ نچاتے تھے زمانے بھر کو ۔
ہم کسی دور میں فنکار ہوا کرتے تھے ” شہر کے لوگوں کو درست سمت میں لانا تو شاید بائیں ہاتھ کا کھیل لگتا تھا ،
“یا سانس کا لینا بھی گزر جان ہے جی سے
یا معرکہ عشق بھی اک کھیل تھا دل کو،”
تعلیم ایک زیور ہے یہ پڑہ رکھا تھا مگر کچھ ہی دیر کے تجربے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ تعلیم زیور ہے مگر صرف تعلیمی ادارے بنانے والوں کے لیے ،یا تعلیمی بازار بنانے والوں کے لیے ، علم اور اصل معلم تو ناپید ہی ہو گۓ ہیں ۔اب تاجروں نے تعلیمی ادارے بنا لیے ہیں جہاں تعلیمی اداروں کی پرکھ کا معیار آمدن میں بڑھتے ہوئے صفروں کی تعداد کرتی ہے ۔ تعلیمی مالکوں کی پیسے کی ہوس میں بگڑتی ذہنی حالت ، بچوں کی ذہنی نشوونما کیسے کرے گی ۔مختلف رنگوں میں بٹا ہوا فرسودہ تعلیمی نظام ایک آزاد اور خود مختار ریاست کو وجود میں لانے والی نئی نسل کس طرح بناۓ گا ،نمبروں کے حصول کی خاطر سر پٹ بھاگنے اور پوزیشن لینے کی اک فضول سی دوڑ میں عمل کا حصول تو کہیں دیوانے کا خواب بن گیا ہے ۔کتنے زیادہ تعلیمی ادارے اب اس ملک میں موجود ہیں تعلیمی معیار اور اخلاقی اقدار کا زوال کتنا ہے.؟ Where is the Life we have lost in living
Where is the wisdom we have lost in knowledge?
Where is the knowledge we have lost in information ؟بہرحال ہم آخر کار چاہتے نچاہتے اس پیغمبری پیشہ میں چلے آئے اور معاشرے کی تعلیم و تربیت کا بھاری بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پہ لیے ایک دن ایک کلاس میں اپنے لیکچر کے دوران ڈائس پر کتاب رکھ کر پڑھاتے پڑھاتے کلاس کی آخری نشستوں پر براجمان شہر یاروں کے ہونہار سپوت کسی مشکل کا شکار اس وقت پاۓ گۓ جب میں نے کتاب ہاتھ میں اٹھا کر کلاس میں گھوم پھر کر پڑھانا شروع کیا ۔ اس کالج میں اک مخلوط تعلیمی نظام تھا ۔ لڑکیوں کو اگے اور لڑکوں کو پچھلی نشستوں پر بٹھایا جاتا تھا ۔گرمی کے دن تھے ان دنوں تعلیمی ادارے آئر کنڈیشنر کے استعمال کے متحمل نہیں ہوۓ تھے ، بلیک بورڈ اور چاک کے استعمال کا زمانہ تھا بچوں کی پردہ داری کے لیے کہ پچھلی نشستوں والے لڑکے جو کھسر پھسر کر رہےتھےکہ اس کی آواز کسی کو محسوس نہ ہو میں نے پنکھوں کے گھومنے کی رفتار کو تیز کیا اور با آواز بلند سبق پڑھانے لگا اور کلاس کی طرف دوبارہ متوجہ ہوا ہی تھا کہ تیز ہوا کے زیر اثر ایک کاغذ کا تہہ در تہہ تراشا سیدھا میرے پاؤں پڑ گیا۔ میں نے سبق جاری رکھتے ہوئے وہ کاغذ کا ٹکڑا اٹھایا ہی تھا کہ کھسر پھسر والی نشستوں پر سناٹا گونجنے لگا۔
اور کپکپاہٹ کی شہنائیاں بجنے لگیں ۔ وہ کاغذ کا تراشا نہیں تھا بلکہ وہ عدنان صاحب کی طرف سے جو کہ کلاس کی آخری نشست پر تشریف رکھتے تھے کلاس کی آگے بیٹھی ہوئی لڑکیوں میں سے ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی سمیرا ( اصل نام نہیں لکھا)کے نام ایک شدید قسم کا محبت نامہ تھا ۔ اس نے سارے خط میں دل کے پھپھولے کھول کھول کر فرہنگی زبان میں بیان کیۓ تھے ۔وہ خط آخری نشست سے ہر لڑکے کی ملی کاوش سے منزل مقصود پر پہنچنا تھا کہ ابھی جام ساقی کے ہاتھ آیا ہی تھا کہ چھلک گیا دل تو چاہا کہ میں قاصد کے فرائض انجام دے دوں مگر میں ایک استاد بھی تھا۔ خط کو جیب میں رکھا۔ مکتوب الیہ کو اٹھنے کو کہا اور نہایت ہی رعب دار آواز میں چیخا کہ میں پڑھا رہا ہوں اور تم باتیں کر رہے ہو ۔اٹھو اور سامنے والے گراؤنڈ کے پانچ چکر لگاؤ ۔ اس نے کلاس سے باہر جا کر نہایت گر گڑا کر منت سماجت کی مگر میری سزا وہی رہی۔ تین چکر لگانے کے بعد اس کا سانس پھول گیا ۔ اس نے پھر منت سماجت کی ، سر خدا کا واسطہ ہے ، غلطی ہو گئ ہے ،ایک بار ، بس ایک بار معاف کردیں ، آئندہ میرے باپ کے بھی توبہ جو اس قسم کی حرکت کی۔ پوری کلاس حیران تھی کہ تھوڑا سا شور کرنے پر آج سر اتنی زیادہ سزا کیوں دے رہے ہیں ۔ کسی نے کہا کہ ہمیں شور نہیں کرنا چاہیے سر کو دوران سبق کسی قسم کا شور پسند نہیں ۔ اور ادھر عدنان صاحب کے اندر جو شور ہو رہا تھا ۔ اللہ کی پناہ ۔ ایک دو اسکے یار,غار جو اس واردات میں اس کے آلہ کار بننے تھے کسی گہری سوچ میں تھے کہ یہ عشق تو سر بازار رسوا کرتا ہے ، پتھر کھاتا ہے ، سولی چڑھتا ہے ، گالیاں کھلاتا ہے ، اسے تو صرف گراؤنڈ کے چکر ہی لگانے پڑے ہیں ۔
اتنی دیر میں میری کلاس کا وقت ختم ہوا ۔ عدنان صاحب دونوں ہاتھ کانوں کو لگاتے ہوئے ، اپنی ہر انداز میں معزرت پیش کرتے ہوئے کہا کہ سر اس معاملے کو سر پرنسپل تک نہ لے جایئے گا سر پرنسپل اور بابا بہت اچھے دوست ہیں اگر یہ بات بابا کے علم میں آگئ تو بہت بڑا گہرام کھڑا ہو جاۓگا اور نجانے کیا کیا اس نے کہا ۔اس کو اپنی نہیں اس لڑکی کی زیادہ فکر تھی ۔ اب مجھ پہ محبت کے تقاضے نبھانے کی زمہ داری آ گئ تھی ۔ اور پردہ داری کے اصول بھی ہم سے کچھ تقاضے کر رہے تھے مجھے اعزاز احمد آزر یاد آ رہے تھے
۔ اور درختِ جاں پہ عذاب رُت تھی،نہ برگ جاگے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جتنے پنچھی، ادھر کو آئے ملول آئے
وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہیں،اٹھا کے جھولی میں اپنے رکھ لیں
ہمارے حصے میں عذر آئے،جواز آئے، اصول آئے
اور پھر محسن نقوی صاحب کان میں سرگوشی کرنے گئے کہ
یہ ہم سے کس نے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
محبت کرنے والوں کے دکھ بھی نیارے ہی ہوتے ہیں، بقول انشاء
جی وہ جی میں کوئی بات جو لاتے ہیں عزیزو
یہ سب نہ کرینگے چلو اچھا ، نہ کرینگے
تنہائی میں لے جائیں گے سمجھائیں گے دل کو
یہ مان بھی جائے گا یہ دعویٰ نہ کرینگے
اتنا ہے کہ چھوڑیں گے یہ دیوانوں کی صورت
ہم کل سے سرِ راہ بھی بیٹھا نہ کریں گے
ہو جائینگے جاکر کہیں پردیس میں نوکر
یاں سال میں اک بار بھی آیا نہ کرینگے
اس شہر میں آئندہ نہ دیکھیں گے وہ ہم کو
کیا کیا نہ کِیا عشق میں کیا کیا نہ کرینگے
میں نے اسکے کانپتے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور تسلی دی اور محبت کے دکھ سمیٹنے لگا
میں نے اسے سمجھایا کہ کہ تمہیں پتا ہے کہ تمہیں سزا کیوں مل رہی ہے تو اس نے اپنی وہی بات کچھ بدل کر دھرائی ۔
میں نے کہا نوجوان نہیں نہیں ۔
تم نے خط لکھا ۔وہ نہایت ہی لجاجت میں بولا جی سر۔
میں نے کہا ۔ تم نے سارا خط انگریزی میں لکھا اور انگریزی غلط لکھی اور انگریزی تمہیں میں پڑھتا ہوں ۔ ابھی تو صرف انگریزی غلط لکھنے کی سزا یے کیوں لکھا وغیرہ وغیرہ یہ تمہارا ذاتی معاملہ ہے اور میں کسی کے ذاتی معاملات میں دخل دینا اچھا نہیں سمجھتا۔جاو اور ابھی لائبریری جاؤ ، ڈکشنری دیکھو اور اچھا سا خط لکھو ۔ میں چیک کروں گا اور کوئی غلطی ہوئی تو پھر سزا ۔ وہ خط دوبارہ لکھ کر لایا اس میں پہلے سے بھی زیادہ غلطیاں تھیں ، سب غلطیاں درست کیں اور اسے بہت بہتر بنایا ۔ دونوں آپس میں کزن تھے دونوں کے باپ بڑے بڑے افسران تھے ۔خط واپس اس کے ہاتھ میں تھما دیا اب واقعی یہ ایک محبت بھرا خط تھا ۔جس میں محبت کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا ۔ بھلا محبت لفظوں کی محتاج تھوڑی ہوتی ہے ۔ میں نے اسے گھر بلا کر کچھ باتیں کی۔اور کچھ سمجھانے کی کوشش کی اور مجھے یہ بھی پتا تھا کہ محبت کسی کی نہیں سنتی
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمِ گسار ہوتا
وہ چونک اٹھا ، سر اپکو ابھی تک یاد ہے ۔ آپکی یاداشت بہت اچھی ہے ۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے محبت یاد رہتی ہے وہ اپنی ہو یا کسی کی۔ اور جہاں تک یاداشت کی بات ہے میں تو اکثر اپنی دوا کھانا بھول جاتا ہوں
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
ہماری دعا کچھ یوں قبول ہوئی کہ حافظہ چھن گیا مگر یاد ماضی جوں کی توں ہے
پھر کچھ دنوں بعد میں نے وہ کالج چھوڑ دیا تھا۔
اس نے بتایا کہ میرے کالج چھوڑنے کے بعد ان کے والدین کی بھی اس شہر سے بدلی ہو گئی تھی ۔۔
میں نے اشارے کناۓ میں میں اس لڑکی کا پوچھا جو اس کی کزن بھی تھی اور دونوں خاندانوں میں کسی بات پر ناچاقی چل رہی تھی اس نے کہا سر وہ، وہ سر میرے ساتھ tragedy ہو گئی تھی میں دل ہی دل میں رنجیدہ ہونے لگا ۔ مگر اس نے میرے چہرے کے تاثر سے اندازہ لگایا ۔۔ نہیں نہیں سر وہ والی ٹریجیڈی نہیں بلکہ Oscar Wilde والی ٹریجیڈی جو آپ نے ایک لیکچر کے دوران بورڈ پر لکھی تھی ۔ میں نے کہا وہ کونسی اس نے وہ زور سے دہرائی
There are only two tragedies in life: one is not getting what one wants, and the other is getting it.پھر ہم دونوں نے ایک خوشی سے بھر پور قہقہ لگایا ۔ اور میں اسے زیادہ خوش تھا کہ یہ کہانی اس طور سے اپنے مراحل طے کرتی ہوئی یہاں تک پہنچی کہ دونوں اپنے تین بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگے اور میں ایک بہت پرانی نظم زیرلب لب، گنگناتا ہوا چلا آیا اور بیچ میں زور زور قہقے بھی لگائے ۔یادیں انسان کو تازہ دم کر دیتی ہے
اے محبت تیری قسمت کہ تجھے مفت ملے
ہم سے دانا جو کمالات کیا کرتے تھے
خشک مٹی کو عمارات کیا کرتے تھے
اے محبت یہ تیرا بخت کہ بن مول ملے
ہم سے انمول جو ہیروں میں تلا کرتے تھے
ہم سے منہ زور جو بھونچال اٹھا رکھتے تھے
اے میری بھاگ بھری ہم تیرے مجرم ٹھہرے
ہم جو لوگوں سے سوالات کیا کرتے تھے
ہم بگڑتے تو سو کام بنا کرتے تھے
تیری تحویل میں آنے سے ذرا پہلے تک
ہم بھی اس شہر میں عزت سے رہا کرتے تھے
اور اب تیری سخاوت کے گھنے سائے میں
خلقت شہر کو ہم زندہ تماشہ ٹھہرے
جتنے بہتان تھے مقسوم ہمارا ٹھہرے
اے محبت ذرا انداز بدل لے اپنا
تجھکو آئندہ بھی عشاق کا خوں پینا ہے
ہم تو مر جائیں گے تجھکو تو مگر جینا ہے
اپنی رائے کا اظہار کریں