واہ کینٹ والی سیدہ رفعت سلطانہ کی کہانی: ایک روپے والی مائی
سیدہ رفعت سلطانہ کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جو نہ صرف انسانیت کی خوبصورتی کو اجاگر کرتی ہے بلکہ ہمیں محبت، betrayal اور انسانی جذبے کی گہرائیوں میں بھی لے جاتی ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھیں جنہوں نے اپنی زندگی میں انتہائی اونچائیوں کو دیکھا اور پھر دکھی دل کے ساتھ انتہائی پستی میں بھی گرتے دیکھا۔ ان کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسانی جذبات کس طرح زندگی کی راہوں پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
ابتدائی زندگی
ڈاکٹر سیدہ رفعت سلطانہ کا تعلق ایک پڑھے لکھے، کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔ ان کی تعلیم کا آغاز پاکستان میں ہوا، لیکن ان کی اعلیٰ تعلیم کا سفر انہیں لندن اور جرمنی لے گیا، جہاں انہوں نے ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایک باہمت اور محنتی خاتون تھیں جو اپنے میدان میں کامیابی کی راہ پر گامزن تھیں۔ انہوں نے اپنے علم اور مہارت کو پاکستان واپس آ کر اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے استعمال کیا۔
محبت اور دھوکہ
زندگی کی راہوں میں، سیدہ رفعت نے محبت کا تجربہ کیا اور ایک ڈاکٹر سے شادی کر لی۔ ابتدائی دن خوشیوں سے بھرے تھے، مگر جلد ہی ان کے شوہر نے اپنی حقیقت دکھانا شروع کر دی۔ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسری بیوی کے ساتھ یورپ چلے گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب رفعت کی زندگی میں طوفان آ گیا۔ ان کے شوہر نے نہ صرف انہیں دھوکہ دیا بلکہ ان کی ساری جائیداد بھی اپنے نام کر لی۔ یہ ایک ایسے انسان کی بے وفائی تھی جو کبھی ان کے قریب بھی تھا۔
ذہنی توازن کھو دینا
یہ دھوکہ سیدہ رفعت کے لیے برداشت کرنا بہت مشکل تھا۔ وہ ذہنی طور پر کمزور ہو گئیں اور ان کی حالت غیر ہو گئی۔ وہ واہ کینٹ کی گلیوں میں بھٹکتی رہیں، ان کے دل میں محبت کی کمی کے سوا کوئی چیز نہیں تھی۔ انہیں نہ صرف محبت سے محروم کیا گیا بلکہ ان کے ساتھ کی جانے والی بے وفائی نے انہیں مکمل طور پر توڑ دیا۔ ان کا شوہر اپنی نئی زندگی میں خوش رہا جبکہ وہ اپنے المیوں کے ساتھ اکیلی رہ گئیں۔
طلاق کا خط
ایک دن انہیں اپنے شوہر کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں طلاق کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس خط میں یہ الفاظ تھے: “میں تمہیں اتنا کنگال کر آیا ہوں کہ اب تم ایک روپے کو بھی ترسو گی۔” یہ الفاظ سیدہ رفعت کے دل میں ایک تلوار کی طرح پیوست ہو گئے اور وہ مکمل طور پر ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔
بھیک مانگنے کی زندگی
سیدہ رفعت سلطانہ کی زندگی کا ایک بڑا حصہ بھیک مانگتے گزرا۔ تقریباً 20 سال تک انہیں گلیوں میں لوگوں سے ایک روپیہ مانگتے دیکھا گیا۔ ان کی ایک ہی صدائیں ہوتی تھیں: “ایک روپیہ دے دیں” یا “پلیز گیو می ون روپی”۔ اگر کوئی ان کے ہاتھ میں پانچ روپے دیتا، تو وہ فوراً چار روپے واپس کر دیتیں اور کہتیں: “بس، ایک روپیہ ہی چاہیے۔” یہ ان کی زندگی کا ایک عجیب و غریب پہلو تھا جو ان کی عزت نفس کی عکاسی کرتا تھا۔
انتقال اور شہر کی خاموشی
2016 میں، جب سیدہ رفعت سلطانہ کا انتقال ہوا، تو شہر میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی۔ سکولز کو چھٹی دے دی گئی، دکانیں بند کر دی گئیں، اور شہر بھر میں سوگ کی فضا قائم ہو گئی۔ ان کی موت نے ایک ایسا اثر چھوڑا کہ لوگوں نے ان کی خدمات اور قربانیوں کو یاد کیا۔ پروٹوکول اس قدر عظیم تھا کہ وہ پی او ایف ہوٹل میں بھی چائے پینے جاتی تھیں اور کوئی بھی ان سے پیسے نہیں لیتا تھا۔
محبت اور انسانیت کا درس
سیدہ رفعت سلطانہ کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کی راہیں کبھی آسان نہیں ہوتیں، لیکن انسانیت اور محبت کے جذبے کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ ان کی زندگی ایک مثال ہے کہ کس طرح ایک انسان اپنی ذاتی زندگی کے مشکلات کے باوجود دوسروں کے لیے ایک درس چھوڑ سکتا ہے۔ ان کی یادیں، ان کی صدائیں، اور ان کا پیغام ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔
سیدہ رفعت سلطانہ کی کہانی ایک ایسی داستان ہے جو محبت، دھوکہ، اور انسانیت کی حقیقتوں کو سامنے لاتی ہے۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھیں جنہوں نے اپنی زندگی کی مشکلات کے باوجود دوسروں کی خدمت کی، اور ان کی کہانی ہمیں ہمیشہ یاد دلائے گی کہ ہم سب کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ ان کی زندگی ایک یادگار ہے، اور ہمیں ان کی کہانی سے سبق سیکھنا چاہیے کہ محبت کی قدر کریں اور دوسروں کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔
اپنی رائے کا اظہار کریں