پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غمِ
میں اپنی ناقص رائے اور کم
علمی کا بہت زیادہ معترف ہوں کبھی کبھی اگر ہم سے بھی کوئی دانائی کی بات ہو جائے تو بڑی اچنبے کی بات لگتی ہے
یعنی
کھتے مہر علی کتھے تیری ثناء
ہمیں تو شاید دانائی اور حکمت جیسے ثقیل الفاظ کے ہیجے بھی صیحح سے نہ آتے ہوں کبھی کبھار چھوٹا منہ اور بڑی بات والا محاورہ ہم پہ بہ عین صادق آتا ہے
بحر حال ، میرے ایک طالب علم نے میرے لیکچر کے دوران اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کی غرض سے “دکھ” کی انگریزی پوچھ لی۔ اور اس کی اس بات پر مجھے بہت دکھ ہوا ۔ ہم نے انگریزی بتانے کے بعد اسے دکھ سمجھانا بھی شروع کردیا کیونکہ اس نے پوچھا تھا کہ سر پہ دکھ ہوتا کیوں ہے؟
اور پھر
یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں یاد کیا کیا یاد آیا
میں نے عرض کی کہ دکھ انسان کا بہت خیر خواہ ہوتا ہے ، یہ آ کر جانے کا نام ہی نہیں لیتا ، یہ انسان کو وہ سب کچھ سمجھانے اور بتانے پہ بضد ہوتا ہے جو کسی کتاب میں درج ہی نہیں ، کسی مکتب کا مضمون ہی نہیں ، کسی کلاس کا سلیبس ہی نہیں ، کسی معلم نے پڑھایا ہی نہیں اس نے وہ کہیں پڑھا ہی نہیں ، اس کا نام ضرور سن رکھا ہوگا ۔ اور آدمی کو اسکی اس وقت سمجھ آتی ہے جب اسے لگ سمجھ جاتی ہے۔کیونکہ میں بھی زندگی کے ان نالائق ترین شاگردوں میں سے ہوں جنہیں زندگی کو ایک بات کئ بار سمجھائی پڑتی ہے
زندگی ہم تیرے کند ذہن سے شاگرد جنہیں؛
کچھ سوالات سمجھنے میں بڑی دیر لگی!
کون دشمن ہے؟ کسے دوست سمجھنا ہے یہاں؟
ہم کو حالات سمجھنے میں بڑی دیر لگی!
دکھ ایک عالمگیر اہمیت کا حامل ہے ، اور کوئی ذی روح اس سے مستثنیٰ نہیں ۔
ہاں میں عرض کر رہا تھا کہ دکھ انسان کا سب سے بڑا استاد ہے۔ یہ چاہتا کہ انسان بہت کچھ سیکھے ، اپنی سوچ اور معیار زندگی کو بلند کرے اور پھر خود بلند ہو جائے ،دکھ کی گہرائی انسانی سوچ کو جلا بخشتی ہے
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
میں اک بار ایک گھوڑا دوڑ کے فاتح سے ملا جسے لوگوں نے بہت زیادہ مبارک باد دیں ، کندھوں پر اٹھا لیا ، اور وہ سب کچھ کیا جو ہم جیتنے والے کے ساتھ کرتے ہیں کیا میں نے نہایت ہی پیار سے کہا کہ آپ تو گھوڑا دوڑ میں گھوڑا سواری کر رہے تھے جیتا تو آپ کا گھوڑا ہے اور داد وتحسین آپ سمیٹ رہے ہیں ۔ آپ اس کے مالک ہونے کی وجہ سے نوازے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نہیں میں اس کا سوار ہوں اور دوڑ کے دوران میرے ہاتھ میں آیک لوہے کی چیز تھی جب یہ تھوڑا سا اپنی دوڑ میں کمی لاتا تو میں بار بار اس گھوڑے کو چبھا دیتا جس کے درد سے یہ سر پٹ دوڑتا اور شاہد وہ درد ہی اس کے جتنے کا باعث بنا ہے۔ میں خوش ہوں کہ اس گھوڑے نے میرے دیۓ ہوۓ درد کو درد نہیں سمجھا بلکہ میری حکمت کو سمجھا ورنہ وہ اس تکلیف سے رک بھی سکتا تھا ، باغی بھی ہو سکتا تھا ، مجھے گرا بھی سکتا تھا ۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ شاید ہمارا ملک بھی ہم سے زندگی کے بہت سے میدان فتح کروانا چاہتا ہے اور اسی لیے وہ دکھ، درر اور غم ہماری زندگی میں متعارف کرواتا ہے
آگر وہ دکھ سے ہارے نہ تو پھر کوئی اسے ہرا نہیں سکتا
اس سے سیکھنے والا بھی ، جیت جاتا ہے ، اسے مالک کی دین سمجھ کر سہہ لینے اور صبر کرنے والے بھی جیت جاتے ہیں ، کسی کے درد کو محسوس کرنے والے اور اس پر تسلی دینے اور ساتھ کھڑے ہوئے والے بھی جیت جاتے ہیں ، دکھ ہارنے نہیں دیتا ،
ﺟﮯ ﺳﻮﮨﻨﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﮐﮫ ﻭﭺ ﺭﺍﺿﯽ
ﺗﮯ ﻣﯿﮟ ﺳُﮑﮫ ﻧﻮﮞ ﭼﻮﻟﮩﮯ ﮈﺍﻧﻮﺍﮞ
ﯾﺎﺭ ﻓﺮﯾﺪ ﮐﺪﯼ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺳﻮﮨﻨﺎ
ﺍﻭﻧﮩﻮﮞ ﺭﻭ ﺭﻭ ﺣﺎﻝ ﺳﻨﺎﻭﺍﮞ…
ہمارے اردگرد دکھ درر کی کہانیاں ہیں آئیے ان کا ہاتھ تھامیں ، درد بانٹیں ، دکھ سنیں ، مرہم رکھیں ، یہ ہمیں بھی زندگی کی دوڑ میں جیت جانے کا موقع دینا چاہتا ہے
کسی گرتے کو بچا کر، کسی گرے کو اٹھا کر ، کس آنسو کو پونچھ کر ،
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو ایسا کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جاۓ
باغ میں جانے کے بھی آداب ہؤا کرتے ہیں
کسی تتلی کو نہ پھولوں سے اڑایا جائے
شاید دکھ واقعی انسان کا خیر خواہ ہوتا ہے بس اس دعا کے ساتھ
غم آون تے نیئ پرواہ
غمِ خؤار نہ وچھڑے
دکھ تو ہر شخص کو ہے۔ مجھے بھی ہے ۔ کسی کو ہونے کا دکھ ، کسی کو نہ ہونے کا دکھ ، کسی کو کھونے کا دکھ ، کسی کو ملنے کا دکھ ، کسی کو اپنا دکھ ، کسی کو کسی کا دکھ ،
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
دکھ کا نہ ہونا بہت بڑا دکھ ہے۔
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ درد انسان کا وہ حصہ ہے جہاں سے حقیقت کی روشنی اس تک پہنچتی ہے ۔ زندگی میں ملنے والے دکھ مالک کی دین سمجھ لیۓ جائیں تو سکھ لگتے ہیں ، ورنہ یہ وہ دیمک بنتے ہیں جو انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتے ہیں
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غمِ
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
دکھ کو بانٹا نہ جاۓ تو غم بن جاتا ہے
اور جب زمیں زاد اپنے ہم نفسوں کی غم خواری نہیں کرتے تو پھر اصل غمخوار اپنے بندوں کو اپنے قریب کرتاہے اور انہیں
«لا حول ولا قوة إلا بالله اور
لا الہ الاللہ انت سبحانک انی کنت من الظالمین
کی تسبیحات کرواتا ہے اور ان سے وعدہ کرتا کہ عنقریب تمہیں اتنا نوازا جائے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے یہ سب
سکھا کر اپنے گلے لگتا ہے
کہ تیرا اصل ، مونس و غم خوارِ تو میں ہی ہوں، آ اپنی غلطی پہ نادم ہو اور گلے لگ جا ۔
رب سوھنا جے توں مل جاویں تینوں حال سُناواں دِل دا
تینوں گل نال لا کے اینج روواں جیویں یار نوں یار کوئی مل دا
ان کے سب غم سکھ میں بدل دیتا ہے
اور پھر ان کونہ کوئی غمِ ہو گا نہ حزن
ان کو مطمئن کر دیا جائے گا ۔
جو دکھ مالک سے ملا دے نعمت، جو مالک سے ہٹا دے وہ سزا ۔۔
دکھ بانٹنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ آئیے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت زندہ کریں
دکھ ختم ہو جاتا ہے ، مگر دکھ میں ساتھ کھڑے ہونے والا ، کبھی ختم نہیں ہوتا
سلیم کوثر صاحب نے کیا خوبصورت کہا ہے کہ
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں ،جو تجھے لکھ کر بھیجیں
یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو
زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں
آئینہ بھی تو نہیں ھے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ھے مگر کیسے بتائیں تجھ کو
یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز
کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ھے
جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ھوا
جب بھی چلتی ھے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ھے
اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ھے
جسم میں رینگتی رہتی ھے مسافت کی تھکن
پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ھوئے حالات کا بوجھ
اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے
جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ھے
کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ھے مگر
جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہیں
ڈھونڈنا ھے نیا پیرائے اظہار ہمیں
استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں
دل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے
سانس لینے سے فسوں قریاں جاں ٹوٹتی ھے
اک تغیر پس ہر شے ھے مگر ظلم کی ڈور
ابھی معلوم نہیں ھے کہ کہاں ٹوٹتی ھے
تو سمجھتا ھے کہ خوشبو سے معطر ھے حیات
تو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا
تجھ پہ گزرا ہی نہیں رقص جنوں کا عالم
ایسا عالم جہاں صدیوں کے تحیر کا نشہ
ہر بچھڑی ہوئی ساعت سے گلے ملتا ھے
اس تماشے کا بظاہر تو نہیں کوئی سبب
صرف محسوس کرو گے تو پتا چلتا ھے
ایک دھن ھے جو سنائی نہیں دیتی پھر بھی
لے بہ لے بڑھتا چلا جاتا ھے ہنگامِ ستم
کو بہ کو پھیلتا جاتا ھےغبار ِمن وتو
روح سے خالی ہوئے جاتے ہیں جسموں کے حرم
وقت بے رحم ھے,ہم رقص برہنہ ہیں سبھی
اب تو پابند سلاسل نہیں کوئی پھر بھی
دشت مژ گاں میں بھٹکتا ھوا تاروں کا ہجوم
صفحہ لب پہ سسسکتی ھوئی آواز کی لو
دیکھ تو کیسے رہائی کی خبر کرتی ھے
روزن وقت سے آغاز سفر کرتی ھے
بے خبر رہنا کسی بات سے اچھا ہی نہیں
تو کبھی وقت کی دہلیز پہ ٹہرا ہی نہیں
تو نے دیکھے ہی نہیں حلق امروز کے رنگ
گرمی وعدہ فردا سے پگھلتے ہوئے لوگ
اپنے ہی خواب کی تعبیر مے جلتے ہوئےلوگ
بھوک اور پیاس کی اجڑی ہوئی فصلوں کی طرح
پرعزم ھتیلی کی لکیروں سے ابھرتے ہوے لوگ
امن کے نام پر بارود بھری دنیا میں
خاصہ خشک کی مانند بکھرتے ہوئے لوگ
روز جیتے ہوئےاور روز ہی مرتے ہوئے لوگ
زندگی فلم نہیں ھے کہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ھے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
کوئی محفوظ نہیں اہل تحفظ سے یہاں
رات بھاری ھے کہیں اور کہیں دن بھاری
ساری دنیا کوئی میدان سا لگتی ھے ہمیں
جس میں اک معرکہ سود و زیاں جاری ھے
پاؤں رکھے ہوے بارود پر سب لوگ جہاں
اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پروانہ شب
آستینوں میں چھپائے ہوئے مہتاب کوئی
اپنی گردن میں لیے اپنے گریبان کا طوق
نیند میں چلتے ہوئے دیکھتے ہیں خواب کوئی
اور یہ سوچتے رہتے ہیں کہ دیواروں سے
شب کے آثار ڈھلے,صبح کا سورج ابھرا
دور افق پار پہاڑوں پہ چمکتی ہوئی برف
نئے سورج کی تمازت سے پگھل جائے گی
اور کسی وقفہ امکان سحر میں اب کہ
روشنی سارے اندھیروں کو نگل جائے گی
دیکھئے کیسے پہنچتی ھے ٹھکانے پہ کہیں
دور اک فاختہ اڑتی ھے نشانے پہ کہیں
آ کے یہ منظر خون بستہ دکھائیں تجھ کو
تو نے پوچھا ھے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
کوئی گاہک ہی نہیں جوہر آئندہ کا
چشم کھولے ہوئے بیٹھی ھے دکان گریہ
اور اسی منظر خون بستہ کے گوشے میں کہیں
سر پہ ڈالے ہوے اک لمحہ موجود کی دھول
تیرے عشاق بہت خاک بسر پھرتے ہیں
وقت کب کھینچ لے مقتل میں گواہی کے لیے
دست خالی میں لیے کاسہ سر پھرتے ہیں
پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
دکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں
دکھ تو محسوس ھوا کرتا ھے
چاھے تیرا ھو یا میرا دکھ ھو
آدمی وہ ھے جسے جیتے جی
صرف اپنا نہیں سب کا دکھ ھو
چاک ھو جائے جو اک بار ہوس کے ہاتھوں
جامہ عشق دوبارہ تو نہیں سلتا ھے
آسمان میری زمینوں پر جھکا ھے لیکن
تیرا اور میرا ستارہ ہی نہیں ملتا ھے
اپنی رائے کا اظہار کریں