قومی کھیل ہاکی — دعا اور دوا بے اثر
تابی لیکس کی ٹیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قومی کھیل ہاکی کی خبروں اور انٹرویوز کو عوام میں نہ صرف مقبول بنایا بلکہ جہاں شائقین صرف کرکٹ کی خبروں کو پڑھتے یا دیکھتے ہیں وہاں ہاکی خبروں کو بھی لگ بھگ کرکٹ کے برابر لا کھڑا کیا ہے اور متعدد شائقین ہاکی نے اس سلسلے میں ہمیں قابل ستائش الفاظ میں یاد کیا ہے مگر،،،،،،
ورلڈہاکی لیگ میں قومی ٹیم کی کارکردگی نے ہمیں یہ احساس دلا دیا ہے کہ ہم بین الاقوامی سٹینڈرڈ سے کتنے دور جا چکے ہیں،،،،مجھے کینیڈا سے بڑے مارجن سے شکست تو ہضم ہوسکتی ہے مگر بھارت سے ایک کے مقابلے میں سات گول کی شکست ہضم نہیں ہورہی کیونکہ اگر ہماری قومی ٹیم اتنی ہی بری ہے تو کوارٹر فائنل میں ورلڈ نمبر ایک ٹیم سے اچھا مقابلہ دیکھنے کو نہ ملتا،،،،کوارٹر فائنل میں ارجنٹائن نے تین اور پاکستان نے ایک گول کیا،،،، اگرچہ پاکستان ابھی بھِی ورلڈکپ تک رسائی کی دوڑ میں شامل ہے مگر کاکرکردگی پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں
پاکستان ہاکی فیڈریشن کی موجودہ ٹیم کو ابھی فعال ہوئے تقریبا ایک سال ہوگیا ہے اور وہ گزشتہ دس سال سے لگائے گہرے زخموں کو بھرنے میں مصروف ہے،،، مجھے ذاتی طور پر محسوس ہورہا ہے کہ ٹیم کھیلانے کی منصوبہ بندی میں کمزوری اور روایتی انداز اپنایا جا رہا ہے کیونکہ پی ایچ ایف تو نئی ہے مگر ہیڈکوچ گزشتہ دس سال سے قومی و جونیئر ٹیموں کے ہیڈ کوچ رہے ہیں مگر اتنے لمبے عرصے میں وہ قومی ٹیم کو کوئی عالمی اعزاز دلوانا تو درکنار وکٹری سٹینڈ تک لانے میں ناکام رہے ہیں،،،،مجھے باخبر صحافی ہونے کے باوجود کبھی سمجھ نہیں آئی کہ خواجہ جنید کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ تمام عہدے بدل گئے مگر ان کو کسی ہلانے کا سوچا تک نہیں
ماڈرن ایج ہاکی میں تکنیک اب شاید اتنی کارگر نہیں رہی جتنی فٹنس اور چستی کی اہمیت ہے،،، ورلڈ ہاکی لیگ کے میچز دیکھ کر احساس ہوا کہ ہماری ہاکی کا معیار اپنی جگہ پر جامد ہے نہ کچھ بہتری آئی اور نہ ہی تنزلی،،،،، یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا خواجہ جنید سے بہتر کوچز پاکستان میں موجود نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اگر ہے تو اس کے سامنے لاکر کام کیوں نہیں لیا جارہا؟ گزشتہ دس سال میں عالمی ٹیموں کے ذریعے کوچنگ کورسز کا اہتمام کیوں نہیں گئے حالانکہ حکومت کی جانب سے مالی معاونت تسلسل سے ہوتی رہی اور ہوتی رہے گی،،،، شہباز سینیئر، نوید عالم اور صدر پی ایچ ایف کے علاوہ وہی چہرے نظر آتے ہیں کہ جو گزشتہ دس سال میں ہاکی کی تباہی ٹرین آصف باجوہ اینڈ کمپنی میں بیٹھے ہوئے تھے
میرا ذاتی طور پر خیال ہے کہ اگر ہاکی اس دور میں بھی ابھر نہ سکی تو پھر ہمیں یہ مان لینا ہوگا کہ پاکستان عالمی کی بجائے ایشیا کی حد تک کھیلے تو بہتر ہے،،، اور کوئی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ معیار کے ساتھ ایشیا میں بھی جیتنا آسان ہوگا تو یہ دیوانے کا خواب ہوگا،،،،، شہباز سینیئر اور ان کی ٹیم جو اقدامات اٹھا رہی ہے اس کے فوری نتائج ملنا مشکل ہیں کیونکہ جیسے پہلے کہا کہ دس سال کے گہرے زخم بھرنے کے لیے کم از کم پانچ سال کا عرصہ درکار ہوگا،،،، نوجوان کھلاڑیوں کو روزگار کے مہیا کیے جارہے ہیں،،، سکول کی سطح پر ہاکی کو اجاگر کرنے کی کوشش بھی جاری ہے مگر ان اقدامات کو جب تک حکومتی احکامات کی سرپرستی حاصل نہیں ہوگی خاطر خواہ نتائج ملنا محال ہے،،، جب تک سکول سطح پر ہاکی کھیلنا اور اس کے پچاس نمبر نہیں رکھے جائیں گے،،،ہاکی مقبول ہونے کے امکانات کم ہونگے
پاکستان سپر لیگ نے پاکستان کرکٹ کی ڈوبتی نبض کو دوبارہ سے چلا دیا ہے اور پاکستان چیمپیئنز ٹرافی لے اڑا ہے حالانکہ میگا ایونٹ سے پہلے پاکستان کو ہر کوئی اوسط درجے کی ٹیم شمار کررہا تھا،،، پاکستان ہاکی فیڈریشن نے بھی پاکستان ہاکی لیگ کروانے کا اعلان کر رکھا ہے اور اب اس کو جلد از جلد عملی شکل دینا ہوگی،،کیونکہ ورلڈہاکی لیگ کے نتائج دیکھ کر ماسوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا،،،، دل دکھتا ہے جب پاکستان ان ممالک سے ہارتا ہے کہ جنکو ہاکی پکڑنی پاکستان نے سکھائی ،،،، ہاکی کو کسی اور نے نہیں خود اولمپیئنمز لوٹا اور دن رات لوٹا اور دیدہ دلیری سے لوٹا،،، جو کل لوکل سروس پر لاہور آئے تھے آج وہ لینڈ کروزر پر پھر رہے ہیں تو اس میں ہاکی کا خون اور قتل عام شامل ہے،،،،
ہاکی کا گراف جہاں آن پہنچا ہے وہاں سے اوپر لانے میں ہم سب کو مل کر کوشش کرنا ہوگی،،،اپنے بچوں کو ہاکی کھیلانے پر اکسانا ہوگا،،، نسل نو کو ہاکی میں پاکستان کا ماضی کا قد بتانا ہوگا،،، محمکہ تعلیم کو انقلابی اکامات و اقدامات اٹھانا ہونگے،،، پاکستان ہاکی فیڈریشن کو بھی ٹیم منیجمنٹ کی کارکردگی پر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنانا ہوگی اور ہیڈ کوچ سے پوچھنا ہوگا کہ وہ طویل مدت سے ہاکی سنبھالے تو ہوئے ہیں مگر ہاکی گئی کہاں؟ اگر پاکستان ہاکی کو بہتر بنانے میں پاکستانی کوچز ناکام ہوگئے ہیں تو غیر ملکی کوچ کی خدمات حاصل کرنا ہوگی،،، نیشنل کرکٹ اکیڈیمی لاہور جیسا ادارہ تعمیر کرنا ہوگا کہ جہاں ہونہار کھلاڑیوں کو بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق تیار کیا جا سکے
چلتے چلتے اتنا ہی کہوں گا کہ بہت دکھتا ہے یہ دل قومی کھیل کی تنزلی دیکھ کر،،،،، مگر پھر کہتا ہوں کہ اگر شہباز سینیئر اور ان کی ٹیم بھی ناکام ہوگئی تو ہاکی میدانوں کی بجائے نصابوں میں ملا کرے گی
اپنی رائے کا اظہار کریں