More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس
Latest news
⁩ٹکرز - سمیر احمد آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے ٹورنامنٹ ڈائریکٹر مقرر لاہور ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر سمیر احمد سید آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے ٹورنامنٹ ڈائریکٹر مقرر۔ سمیراحمد ایک غیر معمولی منظم پروفیشنل ہیں جن میں انتظامی مہارت کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے لیے غیر متزلزل جذبہ بھی موجود ہے۔ پی سی بی چیئرمین محسن نقوی۔ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 پاکستان کی عالمی معیار کی کرکٹ کی میزبانی کی صلاحیت کو ظاہر کرے گی۔ محسن نقوی۔ دنیا بھر سے کھلاڑیوں اور شائقین کے لیے یہ ایک خوبصورت تجربہ ہوگا کہ وہ کھیل کے لیے اس ملک کے جذبے اور مشہور مہمان نوازی کو دیکھ سکیں گے۔ محسن نقوی ۔ میں اس ٹورنامنٹ کے لئے یہ اہم ذمہ داری سنبھالنے کے لئے ُپرجوش ہوں اور اسے اعزاز سمجھتا ہوں ۔ سمیر احمد سید۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے پچھلے ایڈیشنز میں جو معیار مقرر کیے گئے تھے ان معیار کو مزید بہتر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ سمیر احمد سید۔ زمبابوے قومی کرکٹ سکوارڈ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز کے لیے بلاوائیو پہنچ گیا پاکستان اور زمبابوے کے درمیان تین تین میچز پر مشتمل ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز کھیلی جائیں گی پاکستان کرکٹ ٹیم کل آرام کرے گی پاکستان اور زمبابوے کے درمیان پہلا ون ڈے میچ 24 نومبر کو ہوگا ٹکرز قائداعظم ٹرافی ۔ --------------------------------------------------------------- لاہور ۔ قائداعظم ٹرافی میں امام الحق ۔ بسم اللہ خان اور اویس ظفر کی سنچریاں ۔ امام الحق نے اس ٹورنامنٹ میں تیسری سنچری اسکور کی ہے۔ لاہور بلوز کے محمد عباس کی عمدہ کارکردگی کا سلسلہ جاری ، فاٹا کے خلاف 39 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں۔ لاڑکانہ کے مشتاق کلہوڑو کی لاہور وائٹس کے خلاف 103 رنز کے عوض 6 وکٹیں۔ بہاولپور کے عمران رندھاوا کی کراچی وائٹس کے خلاف 28 رنز دے کر 6 وکٹیں۔ فاٹا کے آفاق آفریدی کی لاہور بلوز کے خلاف 56 رنز دے کر6 وکٹیں پاکستان انڈر 19 نے افغانستان انڈر 19 کو تیرہ رنز سے شکست دے دی دبئی، 20 نومبر 2024: پاکستان انڈر 19 نے افغانستان کی انڈر 19 ٹیم کو دلچسپ مقابلے کے بعد 13 رنز سے شکست دے دی۔ پاکستان کی ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا ۔ پاکستان کی ٹیم نے 244 رنز بنائے ، اوپنرز نے شاندار کھیل پیش کیا ، شاہ زیب نے 78 اور عثمان خان نے 77 رنز کی اننگز کھیلی۔ افغانستان کی ٹیم مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی اور پوری ٹیم 46.4 اوورز میں 231 رنز بنا سکی ۔ پاکستان کی طرف سے علی رضا نے چار وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کا آئی سی سی اکیڈمی میں ٹریننگ سیشن۔ کھلاڑیوں نے کوچز کی نگرانی میں تین گھنٹے بیٹنگ، بولنگ اور فلیڈنگ سیشنز میں حصہ لیا۔ پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کل مقامی وقت کے مطابق صبح 11 بجے سے دوپہر دو بجے تک ٹریننگ سیشن میں حصہ لے گی۔ پاکستان انڈر 19 ٹیم تین ملکی ٹورنامنٹ میں اپنا تیسرا میچ افغانستان کے خلاف 20 نومبر کو کھیلے گی۔ پاکستان ٹیم نے ٹورنامنٹ میں میزبان یو اے ای کو دس وکٹوں سے شکست دیدی جبکہ اسے افغانستان سے اپنے دوسرے میچ میں شکست ہوئی تھی۔ اہم ترین قذافی سٹیڈیم اپ گریڈیشن پراجیکٹ پر کام تیز مجموعی طور پر 60 فیصد منصوبہ مکمل۔ فلورز کا کام آخری مرحلے میں نئی نشتوں کے سٹرکچر کی تعمیر بھی شروع چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کا قذافی سٹیڈیم کا تفصیلی دورہ چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے پراجیکٹ پر پیش رفت کا جائزہ لیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے مین بلڈنگ۔ انکلوژرز میں جاری تعمیراتی کاموں کا معائنہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے نئی لائٹس کی تنصیب کے کام کا معائنہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے فلورز پر جاری تعمیراتی کاموں کا مشاہدہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے تیار کردہ کمروں کا معائنہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی کا منصوبے کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار تعمیراتی کاموں میں اعلی معیار کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ محسن نقوی چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ سے قبل پراجیکٹ کو ہر قیمت پر مکمل کیا جائے گا۔ محسن نقوی پوری ٹیم محنت سے کام کر رہی ہے۔ پراجیکٹ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ محسن نقوی منصوبے پر پیش رفت کی خود نگرانی کر رہا ہوں۔ محسن نقوی چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے منصوبے کی بروقت تکمیل کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایات دیں ایف ڈبلیو او کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے منصوبے پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دی ایڈوائزر عامر میر۔ بلال افضل۔ چیف آپریٹنگ آفیسر سید سمیر احمد۔ ڈائریکٹرز انفراسٹرکچر۔ ڈومیسٹک کرکٹ۔ نیسپاک۔ ایف ڈبلیو او کے حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ٹکرز قائداعظم ٹرافی ۔ ---------------- لاہور ۔ قائداعظم ٹرافی میں کراچی بلوز نے ڈیرہ مراد جمالی کو اننگز اور 56 رنز سے ہرادیا۔ کراچی بلوز کے محمد حمزہ کی میچ میں 10 وکٹیں۔ اسلام آباد نے حیدرآباد کو اننگز اور 2 رنز سے شکست دے دی۔ محمد موسی کی میچ میں12 وکٹیں لاہور بلوز کے محمد سلیم اور عمر صدیق کی سیالکوٹ کے خلاف ڈبل سنچری پارٹنرشپ۔ ٹکرز ۔پاکستان شاہینز بمقابلہ سری لنکا اے ---------------------------- راولپنڈی ۔ پاکستان شاہینز کے خلاف سری لنکا اے پہلے چار روزہ میچ کی پہلی اننگز میں 115 رنز پر آؤٹ ۔ کاشف علی اور خرم شہزاد کی عمدہ بولنگ ۔کاشف علی نے 31 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔ خرم شہزاد نے 32 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ پاکستان شاہینز کے پہلی اننگز میں 2 وکٹوں پر 66 رنز۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ آسٹریلیا قومی سکواڈ ٹی ٹونٹی سیریز کا پہلا میچ کھیلنے کے لیے برسبین پہنچ گیا ٹی ٹونٹی سکواڈ میں شامل دیگر کھلاڑی بھی پاکستان سے برسبین پہنچ چکے ہیں پاکستان کرکٹ ٹیم کل آرام کرے گی۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان پہلا ٹی ٹونٹی میچ 14 نومبر کو ہوگا لاہور۔ عمیر بٹ بلجیئم کرکٹ فیڈریشن کے چئیرمین منتخب عمیر بٹ مسلسل تیسری بار بلجیئم کرکٹ فیڈریشن کے چئیرمین منتخب ہونے چئیرمین پی سی بی محسن نقوی کی بلجیئم کرکٹ فیڈریشن کا مسلسل تیسری بار چئیرمین منتخب ہونے پر عمیر بٹ کو مبارک باد چئیرمین پی سی بی محسن نقوی کا بلجیئم کرکٹ فیڈریشن کے نومنتخب چیئرمین عمیر بٹ کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار عمیر بٹ کا تسلسل کے ساتھ تیسری بار چئیرمین منتخب ہونا ایک اعزاز ہے۔ محسن نقوی عمیر بٹ اپنی محنت اور پروفیشنل اپروچ کی بدولت بلجیئم کرکٹ فیڈریشن کے چئیرمین منتخب ہوئے۔ محسن نقوی امید ہے کہ عمیر بٹ بلجیئم میں کرکٹ کے فروغ کیلئے اپنا موثر کردار جاری رکھیں گے۔ محسن نقوی

ہاکی – بتا کیا چال ہے تیرا؟

ہاکی – بتا کیا چال ہے تیرا؟
آفتاب تابی
آفتاب تابی

پیارے بچوں کیا آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان کا قومی کھیل کون سا ہے؟
کرکٹ کیونکہ ایک دن خاتوں اینکر کہہ رہی تھیں کہ وزیر اعظم پاکستان خدارا اسے بچا لیں کرکٹ پاکستان کا قومی کھیل ہے، اس لیے کرکٹ پاکستان کا قومی کھیل ہے

ہائے ہائے میرے عزیز یہیں سے تو پاکستان کے کھیلوں کی تباہی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جب سپورٹس میڈیا میں کھیل نا آشنا لوگوں کی  بھر مار نے ڈوبتی نیہ میں پتھر رکھنے والا کام کیا، میں نے ہاکی پر لکھنے کی کوشش کبھی اس لیے نہیں کہ ہمارے کچھ سینیئر بلکہ بزرگ صحافیوں کو یہ فوبیا ہوچکا ہے کہ وہ پیچھے ہٹ گئے تو  قومی کھیل جی ہاں پیارے بچوں ہاکی ہمارا قومی ہے کی رہی سہی شان بھی جاتی رہے گی، کنویں کےمینڈک  یہ لکھاری بے دکان  – پاکستان ہاکی فیڈریشن میں ہر آنے والے نئَے عہدیدار کو ایسے بوتل میں اتارتے ہیں کہ وہ اپنے سوا کچھ اور نظر آنے ہی نہیں دیتے اور خود کو ہاکی کا نور خان متصور کیے ایک ہی دائرے میں جھومے رہتے ہیں، جی جی بالکل اسی طرح جس کرکٹ میں سبحان احمد اینڈ کمپنی کا فن چلتا ہے

تو پیارے بچوں کیونکہ میں آج کل خاصے دنوں سے نشتر پارک یعنی کھیل کے کنویں سے خاصا دور رہوں اور روایتی صحافت کے حامل افراد سے کنارہ کش سا ہوں اس لیے سوچا آپ کو پاکستان ہاکی کے بارے چکھ بتایا جائے

ننھے بچوں میں آج کی تحریر کو اسی دور پر مرکوز رکھوں گا کہ جس کا میں چشم دید گواہ رہا، اس سے پہلے تو پاکستان ہاکی کی کسی ٹورنامنٹ میں شرکت گولڈ میڈیل یقینی کے طور پر پہلے ہی ذہن نشین کر لی جاتی تھی، ہاں یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان میں چاندی کے تمغے کا آنا بری کارکردگی کا حامل سمجھا جاتا تھا

میری ہوش میں پاکستان نے 1982 کے بعد 1994 میں ورلڈکپ جیتا جب اس کے کپتان شہباز سینیئر  تھے جی جی جو آجکل سیکریٹری پی ایچ ایف بھی ہیں، اس سے پہلے کی صورت حال سمجھانے کے لیے یہ چارٹ دیکھیں تاکہ آپ کو سمجھانے میں آسانی ہو کہ ہمارے قومی کھیل کا معیار واقعی کبھی قومی کھیل والا ہوتا تھا

hockey

اس چارٹ کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ کے امریکہ اولمپکس کی فتح کے بعد 1992 میں پاکستان نے تیسری پوزشین حاصل کی جو یہ نشاندہی کرتی ہے کہ اس وقت کی ٹیم یعنی شہباز سینیئر الیون نے ٹھان لی کہ اس ڈوبتی نیہ کو اب سہارا نہ دیا گیا تو نتائج بھیانک ہونگے اور پھر وہی ہوا اس باضمیر ٹیم نے جان ماری اور 1994 کا ورلڈکپ پاکستان کے نام کر دیا، با لکل سہی یہ وہ سال ہے جب پاکستان ہاکی کے علاوہ سنوکر، سکواش اور پاکستان کا مقبول ترین کھیل کرکٹ میں ہم فاتح عالم بنے جو بزات خود ایک ورلڈ ریکارڈ بنا، پیارے بچو آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس وقت دنیا میں آٹھ کھیلوں کے ورلڈکپ ہیں جنمیں سے چار 1994 میں ہمارے پاس تھے

pizap-com14942833472571

ہونہارو،،،،، یہ وہ چہرہ کہ جس نے اس دور کے تمام اہم کھیلوں اور پی آئی اے کے امور سنبھالے اور پاکستان کسی بھی شعبے میں دو نمبر پر آنا اپنی ہتک سمجھتا تھا، یہی نور خان ہیں کہ جب پی آئی اے کو دنیا کی ایک  نمبر ایئرلائن سمجھا جاتا تھا، آج بھی پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ان کے اعزاز میں تقریبات اور ٹورنامنٹس کا انعقاد تو کرتی ہے مگر ان کے رہنما اصولوں کو ان کے چھوڑے تمام ادارے بھول چکے، اب تو لوٹ کا ایک بازار گرم سجا ہے مصر کے بازار کی طرح

میرے مشاہدے کے مطابق ہاکی کی تباہی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا  جب کرکٹ کی طرح اس کھیل کے ہیروز نے بھی اپنے اعزازات کے بدلے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی کمان بھی آہستہ آہستہ اپنے کنٹرول میں لینا شروع کردی اور خود کو نور خان سے بڑا منیجر سمجھنے لگے اور ان کو یہ وہم پاکستان کے مفاد پرست میڈیا نے ڈالا کہ جہاں آج کل کم از کم پندرہ سال سے حکمرانی ہے اور وہ ہمیں وہ نہیں دکھاتے کہ جو ان کا فرض ہے بلکہ وہ دکھاتے ہیں کہ جس کا ان پر قرض ہے یعنی کچھ دو اور سب کیے دھرے پر آنکھیں بند رکھو، بلکہ اس پر ایک ٹوٹا پھوٹا ذاتی شعر بھی کہا کرتا ہوں کہ
صحافت صحیفے سے نکلی ہے – ——-مگر ہم سمجھ بیٹھے وظیفے سے نکلی ہے

میں نے لاہور میں کھیلوں کی صحافت 1909 میں نیوز ون ٹی وی سے شروع کی تو ہاکی پر چار چہروں کی حکمرانی دیکھی، جی ہاں اختر رسول، قاسم ضیاء، آصف باجوہ اور رانا مجاہد، مجھے ہر روز یہ محسوس ہوتا رہا کہ پاکستان کی ہاکی درست سمت میں جا رہی ہے اور اب کے سال پاکستان اپنا ہدف اولمپکس اور ورلڈکپ میں جگی بنالے گا، جی ہاں پیارے بچو اور پرنٹ شدہ چارٹ دیکھو تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ جن ممالک کو ہم نے ہاکی پکڑنی سکھائی اب  انہی ممالک سے جیتنا دیوانے کا خواب محسوس ہوتا ہے، نتائج کچھ اور ہونا اور صبح اخبار اور شام ٹی وی پر یکسر مختلف خبر دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے اور جب دیگ میں سر ڈالا تو پتہ چلا کہ دال ہی جل چکی ہے اور انتہائی حدت کی وحہ سے دیگ میں بھی سوراخ ہوچکا ہے کہ جو آہستہ آہستہ دیگ کے نیچے جلی آگ کے لیے بھی ایندھن کا سبب بن رہی ہے، ان دنوں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے خلاف نعرہ تکبیر محض ایک چہرے کے ذمے تھا اور وہ ہیں اولمپیئن نوید عالم کہ جو رو رو کر ہاکی کا تباہی کا رونا روتے تھے، مگر صبح یا تو وہ خبر ٹی وی پہ آتی ہی نہیں تھی یا اخبار کی ایک نکڑ میں چھوٹی سی جگہ پر لگی ہوتی تھی، ہاں پی ایچ ایف جن میڈیا افراد کو نوازشوں سے محروم کیے ہوتی تھی وہ ایک دن بڑی خبر کے طور پر دیتے اور پھر وہی باجوہ صاحب واہ یا پھر کیا بات ہے چوہدری صاحب اینڈ رانا صاحب،،،،،،آپ لوگ تو چھا گئے اور پھر میں نے ان کو دسویں پوزیشن لے کر بھی کرسیوں پر فرعونی انداز میں جھومتے دیکھا ہے،،، اور غلام ذہن صحافیوں کو گالیاں پڑتی بھی دیکھیں ہیں، ریاست کا چھوتھا ستون یعنی صحافت کے نمائندوں کو کندھے دباتے اور اچھی خبر پر باقاعدہ کندے پر شاباش بھی لیتے دیکھا ہے
گورا کہتا ہے کہ

if you cant beat them then join them

یعنی ان سے جیت نہیں سکتے تو ان کا حصہ بن جاو، لہذا نیوز ون اور ڈان ٹی وی کی جانب سے اس نظام کا حصہ رہا مگر مناسب وقت پر مناسب نشاندہی بھی کرتا رہا اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ نو سالوں سے کسی بھی کھیل کے ادارے اور اہل افراد کے قریب بیٹھنے سے محروم رہا، مگر اپنی ذمہ داری سے دوری کبھی نہ دیکھی نہ آئندہ دیکھنے کا ارادہ ہے، ہاں سابق اولمپیئن توقیر ڈار سے قابل فخر دوستی ہے کہ جو چاہے بھیک مانگنی پڑے ہاکی کی اپنے حصے کی خدمت میں مصروف عمل رہتے ہیں اور ہاکی ٹیم میں اکثر وہی اچھا ہوتا جسکا تعلق ڈار اکیڈیمی سے ہوتا ہے

موجودہ پی ایچ ایف کے عہدیداران کا دعوی ہے کہ سابق دور یعنی اختر رسول اینڈ کمپنی کو حکومت کی جانب سے 110 ارب روپے جی ہاں 110 ارب روپے ملے، مگر سیاہ شکست پر سب ایک دوسرے کو اس دور میں بر طرف کرتے رہے اور پھر معاہدے کے تحت منظر میں آتے رہے، کون سے ماں باپ ہیں کہ جو اپنی اولاد بیچ کر اپنا مستقبل بہتر بناتے ہے؟

مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ دس سال جو میں نے دیکھے ہیں وہ ایسے ہی ہیں، ہاکی کا سارا نظام صرف اور صرف سابق ہاکی اولمپیئنز نے چلایا اور کسی ٹیکنو کریٹ کو نزدیک لگنے بھی نہ دیا اور ہاکی کو اپنی اولاد کہنے والوں کو ہر دن اپنے ہی ہاتھوں سے لوٹتے اکثر دیکھا اور اولاد کے مستقبل کی تباہی کا سارا سودا میڈیا سے کیا، جنہوں نے کبھی لاہور اور اپنے گاوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا تھا ان کو وہ وہ ممالک ایک دفعہ کی بجائے کئی کئی بار دکھا کر اور ہاتھ گرم کرکے لوٹ مار کا بازار انتہائی دلیری سے لوٹتے رہے، ایسے لوٹتے رہے کہ جیسے یہ اربوں روپے ان کو وراثت میں ملے ہیں، ہاکی اور کھلاڑی ان کی رعایا ہیں

if you cant beat them then join them

والا فارمولا شہباز سینیئر نے بھی اپنایا، سابق پی ایچ ایف کی پی سی بی والی یہ چال رہی ہے کہ بدترین شکست پر ایسے چہرے اپنے نظام لاو کہ بھولی قوم بول اٹھے کہ اب ہمارا یہ کھیل نوے دنوں میں ہی ٹھیک ہوجائے گا، مگر جوں جوں 2018 کے الیکشن آتے جا رہے ہیں، حکومت وقت کو کچھ وقت ملنا شروع ہوگیا ہے کہ کھیلوں کی تباہی روک کر بہتری کا سامان کیا جائے، مسلسل شرمناک شکستوں پر حکومت نے کروٹ لی اور فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی  کے ذریعے تحقیقات کروائی گئیں اور قاسم ضیاء اور ان کی کابینہ کو گھر بھیج دیا گیا اور ہاکی کی کمان سابق برگیڈیئر خالد کھوکھر اور شہباز سینیئر کو سونپ دی گئی

اب ہاکی کا تیر کمان اور ہائی کمان شہباز سینیئر کے ہاتھوں میں ہے کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر اب بھی اگر ہاکی میں کھویا ہوا مقام واپس نہ ملا تو ہاکی کا ذکر نصابوں اور تحریروں میں پڑھا جا سکے گا

آو پیارے بچو، شہباز سینیئر کو کچھ پیغامات دیتے ہیں، جی جی جوانوں کہ اسی شہباز سینیئر سے کہ 1994 میں آخری بار بطور کھلاڑی ورلڈکپ پاکستان لائے،

تو جناب شہباز سینیئر صاحب سب سے پہلے تو ہم آپ کے پلان کے معترف ہیں کہ جس طرح آپ پی ایچ ایف کا حصہ بنے اور اب لگ بھگ ایک سال سے ہاکی آپ کے کنٹرول میں ہے، آپ کو اپنے ناقدین کو بتانا تو ہے کہ اس ایک سال میں آپ نے ہاکی بہتری کا جو پلان بنایا اس پر کتنے فیصد کام شروع چکا ہے؟ ابھی تک قومی و جونیئر ٹیموں نے بیرون ملک جا کر وہاں کی قومی و مقامی ٹیموں سے مقابلے کیے،،،ان کے نتائج سے آپ مطمئن ہیں؟ اور کیا اس طرز کے دوروں سے ہاکی کا گراف اوپر جائے گا؟ شہر شہر، سکول سکول، غرض گراس روٹ لیول پر آپ نے ہاکی پہنچانے کا جس سلسلے کا اعلان کر رکھا ہے اس میں کتنے فیصد منصوبہ جات شروع ہوچکے ہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ کیا کیا کرکے قومی کھیل کو آئندہ دو سالوں میں ایشین چیمپیئن اور پانچ سالوں میں دنیا کی چار بہترین ٹیموں میں لانا ہے،،،،،،یہ تو میں بھی مانتا ہوں کہ گراس روٹ لیول پر انقلابی کام شروع کرکے ہی دو سال میں ایشین چیمپئن، پانچ سال میں چار بہترین ٹیموں میں تو آیا جاسکتا ہے مگر دس سال مسلسل کام کے بعد ہی وکٹری سٹینڈ پر براجمان ہوا جا سکتا ہے، آسٹریلیا، ہالینڈ، نیوزی لینڈ، بلجیئم، انگلینڈ جیسی ٹیموں کو پچھاڑنے کا سلسلہ شروع تب ہی ممکن ہوگا کہ جب ماڈرن ایج ہاکی کی ایک ایک مانگ کی شروعات ٹھیک ہائی سکول سے شروع کریں گے اور  کم از کم پچاس لیول تھری اینڈ فور کوچز تیار کیے بنا ہاکی میں جیت ایک دعوی یا نعرہ تو سکتا ہے، حقیقت نہیں ، سکول کی سطح پر ہر کھلاڑی کے لیے ہاکی کھیلنا لازم قرار دیا جانا چاہیے اور اس کے پچاس یا سو نمبر رکھے جانے چاہییں، اور فاتح ٹیم ٹیمیں براہ راست پی ایچ ایف  منسلک ہونی چاہییں اور ان تمام کھلاڑیوں کی ہر طرح کی معاونت پی ایچ ایف کے ذمے قرار دی جانی چاہیے
شہباز سینیئر صاحب اس دور کے لیجنڈ ہیں کہ جب ہاکی کی فتوحات پرخصوصی سکے اور ڈاک  ٹکٹیں  چھپا کرتی تھیں مگر اسکے بعد ڈاک ٹکٹوں کی بجائے پی ایچ ایف اور ان کے اہل خانہ کے بیرونی ممالک کی سیروں کی ٹکٹوں پر ہی خرچ ہوئے

مجھے پوری امید ہے کہ حکومتی تبدیلی سے بھی آپ کے اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا اور آپ کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع دیا جائے گا مگر ان پانچ سالوں کے بعد قوم آپ سے تقاضا کرے گی جس طرح بارہ سال بعد آپ ورلڈکپ پاکستان لائے تھے اسی طرح آپ کے عہد میں پچیس سال بعد کم از کم قوم کے ذہنوں میں یہ یقین پیدا ہوجائے گا کہ اب پاکستان ورلڈکپ اور اولمپکس فاتح کی ریس میں مناسب مقام ہے

 ایسے افراد کو آگے لائیں گے جو قومی کھیل کی بہتری کو کوشاں رہتے ہیں، کوچنگ کے معیار کو ورلڈکلاس بنائیں گے ، کھلاڑیوں کی بارات جمع کرنے کی بجائے اہل ترین کم از کم پچاس کھلاڑیوں کو قومی دھارے میں شریک کرکے ان پر سب کچھ جھونک دیں

امید ہے کہ سیکریٹری پی ایچ ایف اپنے صلاح گیروں کی لسٹ پر نظر دوڑائیں گے کیونکہ ان کے گرد ذیادہ تر صلاح گیر وہ ہیں جو راہ گیر ہیں اور اس طرح کے صلاح گیر تو حکومتوں کی تباہی کا باعث بن جایا کرتے ہیں آپ تو ایک چھوٹا سے کھیل کا ادارچلا رہے ہیں

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں