اور قومی کھیل ہاکی سے قومی پرچم بھی چھین لیا گیا
زمانہ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے دور سے ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں بھی کھیلوں کے عالمی مقابلے منعقد ہوئے جیسے اولمکپس، کامن ویلتھ گیمز، ایشین گیمز ہاکی ہی ہماری پہچان بنی اور ہم گواہ ہے کہ افتتاحی تقریب میں پاکستانی دستے کی قیادت قومی کھیل کے کپتان نے ہی کی اور مارچ پاسٹ میں قومی پرچم تھامنے کا اعزاز اپنی زندگی کا یادگار لمحہ بنا لیا
قومی کھیل نے بے شک دنیائے ہاکی پر جو دھاک بٹھائے رکھی اس کی نظیر کسی اور کھیل میں نہیں ملتی ،،، پھر جیسے جیسے اس کھیل کے ہیروز نے اپنا حق سمجھ لیا کہ ان سے بہتر ہاکی کوئی نہیں چلا سکتا اور پھر کیا ہوا انہوں نے اپنی ذات کو ہی ہاکی سمجھ لیا اور اپنی اتنی خدمت کی کہ آج وہ تو کڑوڑ پتی ہیں مگر پاکی کے دفتر میں جانے پر اب دودھ پتی بھی نہیں ملتی ،،، وہ تو اللہ بھلا کرے نوید عالم کا کہ جو اپنی گرہ سے آئے گئے کی خاطر تواضع کرتے ہیں،،، مجھے یاد ہے کہ جس روز آصف باجوہ نے استغفی دیا تو اختر رسول نے تین دفعہ اکڑ کہا کہ میں ہاکی کا وارث ہوں اور مجھے وراثت میں ملی ہے،،، مگر افسوس اس کھیل کے وارث ہی اس کے زوال کے باعث بن گئے اور آج ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں سے واپسی کے لیے شاید ہمارے پاس کرایہ بھی نہیں ہے،،،، سارے اولمپیئنز کو قومی کھیل کا درد تب ہی اٹھتا ہے جب وہ اپی نوکری سے ریٹائر ہوجائیں یا وہ ڈیپوٹیشن سے واپس آئے ہو یا پھر وہ پی ایچ ایف سے نکال دیے جائیں،،، افسوس نہ تو کسی نے اپنے بچوں کو ہاکی کی جانب آنے دیا اور نہ ہی کسی نے ماڈرن ایج ہاکی کے تقاضوں کی اہمیت کو جانتے ہوئے ہاکی میں کوچنگ کورسز کیے اور جس نے کیے اس نے پاکستان کی بجائے کسی اور ملک میں قیام کو ہی بہتر جانا،، اگر کوئی خدمت کا جزبہ لیکر آیا تو اس کو گالیوں میں پی ایچ ڈی کوچز نے چلتا کیا،،،،،،
خیر پھر 2010 ،یں ہم نے دیکھا کہ مرحوم ڈاکٹر محمد علی شاہ جو اس وقت کھیلوں کے وزیر سندھ تھے کامن ویلتھ گیمز میں نے شجاع الدین ملک کو دھکے دے کر کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی دستے کی قیادت کرکے ایسی مثال قائم کی کہ جس کی نظیر دنیائے کھیل میں کھوجنے سے بھی نہیں ملے گی،،،
تازہ ترین اطلاعات ہیں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے اس ٹیم کو قومی تھمانے سے انکار کردیا کہ جس ٹیم کی وجہ سے ان کے حامیوں نے متعدد تفریحی دورے کیے ،،،، جی ہاں 4 اپریل سے 15 اپریل تک آسٹریلیا میں کامن ویلتھ منعقد ہونے جارہی ہیں اور اسمیں پاکستانی دستہ 56 کھلاڑیوں اور آفیشیلز پر مشتمل ہوگا اور پاکستان ہاکی سمیت دس کھیلوں میں حصہ لے گا مگر آپ کو سن کر شاید افسوس ہوکہ اس دستے کی قیادت قومی کھیل کا کپتان نہیں کرے گا بلکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے حامی گروپوں کے دوستوں کے مشورے کے بعد یہ اعزاز ویٹ لفٹر عثمان راٹھور کے حصے میں آیا ہے جنہوں نے ایشین گیمز میں پاکستانی کے لیے سلور میڈل حاصل کیا تھا،،،
حیرت ہے کہ سلور میڈل اور وہ بھی ایشین گیمز میں ،،، کتنا بڑا اعزاز ہے یہ ؟ کیا پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ہاکی کے اعزازات سے نا آشنا ہے ؟ اگر کارکردگی ہی اعزاز کا پیمانہ ہے تو پاکستان اولمپک ایسوسی کے بڑوں کی کارکردگی ماسوائے مخالف دھڑوں کی بیخ کنی کے اور کیا ہے ؟ کھیلوں کے بیڑے کو بحیرہ عرب کی نظر کرنے میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ،، پاکستان سپورٹس بورڈ اور ان کے حلیفوں کے نام تاریخ میں بدبو دار الفاظ کے نام کے ساتھ لکھا جائے گا،،،، اور ان کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والے صحافیوں کے چہرے شاید خود ان کی اولاد نا پسند کرے
تمام تر استحصالیوں کے باوجود پاکستان کا بچہ بچہ سبز ہلالی پرچم کے تقدس سے آشنا ہے اور اس کی بے حرمتی جس نے بھی کرنے کی کوشش کی تاریخ گواہ ہے پاکستانیوں نے اس کا جینا دوبھر کردیا،،، پاکستان ہاکی آج کل پھر سے اپنی شان حاصل کرنے کو تگ و دو کر رہی ہے اور میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اگر شہباز سینیئر بھی یہ کارنامہ سرانجام نہ دے سکے تو ہاکی کا تزکرہ نصابوں میں ہی ملا کرے گا ،،، ہاکی ایک ایک کرکے تمام اعزازات تو کھو چکی مگر اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں قومی کھیل کے استحقاق کو مجروح کرکے اپنی سیاسی عداوتیں کی حوس کو پورا کیا جائے ،،، اگر کامن ویلتھ گیمز میں قومی پرچم ہاکی کپتان کے ہاتھ میں تھمایا جاتا تو دعوی کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ فروغ ہاکی کا اہم باعث ثابت ہوسکتا تھا،،،، وہ ایسے کہ سپورٹس مین قومی پرچم کے تھامنے جیسے اعزاز کو سینے میں دفن کر لیا کرتا اور دوسرے کھلاڑیوں میں یہ جزبہ پیدا ہوتا ہے کہ میں ایک دن پرچم ضرور تھاموں گا اور اپنے قومی کھیل کو بام عروج تک لے جاوں گا ،،،، مگر افسوس کہ میرے گلشن میں اس باد سموم کا راج ہے جو جزبوں پر زہر آلودگی تو کر سکتی ہے ،، جو کونپلوں کو کھلنے سے پہلے ہی سوکھا سکتی ہے،،، ہنستوں کو رلا سکتی ہے،،،،، اور جو ہو ہی باد سموم اس سے خیر کی امید کیا
حالات یہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب اولمپکس سمیت دیگر عالمی مقابلوں میں پاکستانی دستہ کم سے کم ہوتا چلا جائے گا اور ایک دن صرف پی او اے کے راج دلارے ہی اعزازی طور پر میگا ایونٹس میں جلوہ افروز ہوا کریں گے
اپنی رائے کا اظہار کریں