More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس
Latest news
نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان۔۔ تربیتی و فٹنس کیمپ کے لئے کھلاڑیوں کا انتخاب چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کی پی سی بی حکام سے تفصیلی مشاورت پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہیڈ آفس میں کیمپ کے لئے کھلاڑیوں کے ناموں پر غور کیا گیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی کی میرٹ اور کارکردگی پر کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے کی ہدایت پی ایس ایل 9 میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے والے کھلاڑیوں کو کیمپ میں شامل کیا جائے۔ محسن نقوی کیمپ کے لئے کھلاڑیوں کا انتخاب میں میری سفارش بھی نہ مانی جائے ۔ محسن نقوی میرٹ اور کارکردگی پر منتخب کھلاڑی اچھا رزلٹ دینے کی صلاحیت رکھتےہیں۔محسن نقوی اجلاس میں کارکردگی کی بنیاد پر کیمپ کے لئے کھلاڑیوں کے انتخاب کا جائزہ لیا گیا چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے پی ایس ایل 9 میں اچھی کارکردگی دکھانے والے بلے بازوں اور باؤلرز کے بارے رپورٹ پیش کی سابق ٹیسٹ کپتان سعید احمد انتقال کر گئے۔ پی سی بی چیرمین محسن نقوی کا اظہار تعزیت۔ لاہور، 20 مارچ،2024: پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق ٹیسٹ کپتان سعید احمد کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا ہے۔ سعید احمد 86 سال کی عمر میں بدھ کے روز انتقال کرگئے۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پاکستان کے 27 ویں کرکٹر تھے۔ انہوں نے 41 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے پانچ سنچریوں اور سولہ نصف سنچریوں کی مدد سے 2,991 رنز بنائے۔ انہوں نے آف اسپن بولنگ سے 22 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ سعید احمد نے 1958 میں برج ٹاؤن میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور73-1972 میں میلبرن میں اپنا آخری ٹیسٹ کھیلا۔ وہ پاکستان کے چھٹے ٹیسٹ کپتان تھے ۔ انہوں نے 69-1968 میں انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے تین ٹیسٹ میچوں میں پاکستان ٹیم کی قیادت کی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار انٹر کالجیٹ رمضان ٹی ٹونٹی کپ کا میلہ سجے گا چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے انٹر کالجیٹ رمضان ٹی ٹونٹی کپ کے انعقاد کی منظوری دے دی ٹورنامنٹ تین شہروں لاہور۔کراچی اور اسلام آباد میں 22 مارچ سے 8 اپریل تک ہوگا۔ انٹر کالجیٹ رمضان ٹی ٹوئنٹی کپ میں 30 کالجز حصہ لیں گے لاہور میں ٹورنامنٹ کا آغاز 22 مارچ سے ہوگا جبکہ اسلام آباد اور کراچی میں میچز 23 مارچ سے شروع ہوں گے انٹر کالجیٹ رمضان ٹی ٹونٹی کپ سے نچلی سطح پر ٹیلنٹ سامنے آئے گا۔ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کرکٹ کے فروغ کیلئے اس طرح کے ٹورنامنٹ کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ محسن نقوی مہارت اور جذبے کا عملی مظاہرےکے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے سے ہی حقیقی ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ محسن نقوی ٹورنامنٹ کا انعقاد چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کے وژن کے مطابق کر رہے ہیں، ڈائریکٹر ڈومیسٹک پی سی بی عبداللہ خرم نیازی چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کا بڑا فیصلہ قذافی سٹیڈیم لاہور۔ نیشنل سٹیڈیم کراچی اور راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم اپ گریڈ ہوں گے چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے سٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن کا پلان طلب کرلیا چیمپئنز ٹرافی سے پہلے تینوں سٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن مکمل کی جائے گی۔ محسن نقوی چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے 3 روز میں قذافی سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن کا حتمی ڈیزائن پلان طلب کرلیا دوسرے مرحلے میں نیشنل کرکٹ سٹیڈیم کراچی اور راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن کا ڈیزائن پلان تیار کر کے کام کا آغاز کیا جائے گا۔ محسن نقوی سٹیڈیمز میں شائقین کرکٹ کے سہولتوں کو بہتر بنایا جائے گا۔ محسن نقوی ضرورت کے مطابق سٹیڈیم میں نشتوں کا اضافہ کیا جائے گا۔ محسن نقوی قذافی سٹیڈیم کے باکسز میں سہولتوں کو بہتر بنایا جائے گا۔ محسن نقوی اپ گریڈیشن کے کام کو معیار اور رفتار کے ساتھ مکمل کرایا جائے گا۔محسن نقوی چئیرمین پی سی بی کی زیر صدارت اجلاس اجلاس میں نیسپاک کے حکام نے سٹیڈیمز کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے بریفنگ دی ڈائریکٹر انفراسٹرکچر پی سی بی ۔ نیسپاک کے حکام اور متعلقہ حکام کی اجلاس میں شرکت چیئرمین پی سی بی محسن نقوی سے مقامی ہوٹل میں ایچ بی ایل پی ایس ایل میں شریک پاکستانی کھلاڑیوں کی ملاقات چیئرمین پی سی بی محسن نقوی فردا فردا ہر کھلاڑی کی نشت پر گئے ۔ کھلاڑیوں سے مصافحہ کیا چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کا پاکستانی کھلاڑیوں سے اہم خطاب کسی نے غلط کیا ہے یا صحیح۔ تنقید نہیں کرنا چاہتا۔ محسن نقوی ہم سب کا ایک ہی مشن ہے اور وہ ہے جیتنا۔ محسن نقوی ہم جیت سکتے ہیں اور جیت اس وقت ممکن ہے جب سب اکٹھے ہوں۔ محسن نقوی اب ٹیم میں تمام کھلاڑی میرٹ پر آئیں گے۔ محسن نقوی اب فلاں کا بندہ یا فلاں کی مرضی نہیں چلے گی۔ محسن نقوی اچھے کھلاڑیوں کو ٹیم میں آنے کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ محسن نقوی پرفارمنس کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑی ہمارے سٹارز ہیں۔ محسن نقوی ہر میدان میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ محسن نقوی پرفارم کرنے والے کھلاڑیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ محسن نقوی ٹیم سلیکشن میرٹ پر ہو گی۔ محسن نقوی ہال میں موجود تمام کھلاڑی پاکستانی ٹیم کے لئے کوالیفائی کرتے ہیں۔ محسن نقوی ہمیشہ بڑے مقصد کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے۔ محسن نقوی کھلاڑی پہلے پاکستان کو ترجیح دیں۔ آمدن دوسری ترجیح ہونی چاہیے ۔ محسن نقوی کھلاڑیوں کے کنٹریکٹ کو مزید بہتر کیا جا سکتا ہے۔ محسن نقوی سیاست کو ختم کرنا ہے اور 11 کھلاڑیوں کو اکٹھا کرنا ہے ۔ محسن نقوی 11 کھلاڑی اکٹھے ہو کر میدان میں اتریں گے تو کامیابی ملے گی۔ محسن نقوی میچ ہار بھی جائیں تو کوئی غم نہیں لیکن فائٹ کرکے ہاریں۔محسن نقوی پاکستانی قوم کرکٹ سے محبت کرتی ہے اور لڑ کر ہارنے پر کوئی ندامت نہیں ہوتی۔ محسن نقوی کھلاڑیوں کی فٹنس پر فوکس کیا جائیگا۔ محسن نقوی نیوزی لینڈ ٹیم پاکستان آرہی ہے، ہم نے انگلینڈ، آئر لینڈ اورامریکہ جانا ہے۔ محسن نقوی ٹریننگ کے لئے وقت نکالنا مشکل تھا تاہم 25سے 8 تک کاکول میں کیمپ لگے گا۔ محسن نقوی میں آپ سب کے لئے ہر وقت حاضر ہوں۔ محسن نقوی کھلاڑی جب چاہیں مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں، میرے دروازے آپ کے لئے ہر وقت کھلے ہیں۔ محسن نقوی کرکٹ اکیڈمی کو بہتر بنایا جائے گا۔ محسن نقوی سٹیڈٹیمز کو اپ گریڈ کریں گے۔ محسن نقوی کرکٹ بورڈ کے پاس جتنے پیسے ہیں کھلاڑیوں پر لگائے جائیں گے۔ محسن نقوی کرکٹ بورڈ کے پیسے جمع کرکے نہیں رکھنے۔ محسن نقوی قذافی سٹیڈیم لاہور اور نیشنل سٹیڈیم کراچی کے قریب 5سٹار ہوٹل کے حوالے سے تیاری کی جارہی ہیں۔ محسن نقوی کوچنگ اسٹاف کی تقرری کے لیے رابطے میں ہیں اور بہترین دستیاب افراد کو کوچنگ اسٹاف میں تعینات کیا جائے گا۔محسن نقوی چیف سلیکٹر وہاب ریاض۔ چیف آپریٹنگ آفیسر سلمان نصیر اور پی سی بی کے اعلی حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ملتان : میچ کی سٹریجی بہت سادہ سی بنائی ہے کوئی سٹریس نہیں ہے بس کھیلنا ہے اور جیتا ہے، ملتان کوشش کریں گے کہ ہر بال پر رنز بنتے رہیں ، ملتان : گراونڈ کا اپنا پریشر ہوتا ہے مگر اس کو بھلا کر کھیلیں گے ملتان :ملتان کی کنڈیشن سے واقف ہوں اس لئے کھیلنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی ملتان : ،ہر میچ ایک نیا مقابلہ ہوتاہے ہم اپنی جیت کےلئے اپنے پلان پرعمل کریںگے ملتان : ملتان میں کھیل کرلطف اندوزہوتارہا ہوں مگر کل گلڈیٹرزکی نمائندگی کرنا ہے ملتان : لاہور میں ہم نے تین میں تین میچ جیتے ہم خوش ہیں مگر ہر دن الگ ہوتا ہے ملتان ہر میچ کے کام کا آغاز صفر سے کرتے ہیں اور جیت پر یقین رکھتے ہیں ملتان ملتان سلطان میری سابقہ ٹیم ہے اس کے خلاف بڑاسکورکرنا ہے ملتان : دراصل بڑے میچ میں بال ٹو بال سٹریجی اختیار کرنا پڑتی ہے ملتان : ملتان کی وکٹ بہت اچھی ہے اس بارے میں تیزی سے فیصلے کرنے پڑیں گے ملتان : اسکواڈ میں بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے جیتنے والی ٹیم کا مورال بلند ہے ملتان : پی ایس ایل بڑا ٹورنامنٹ ہے بینچ پربیٹھے ہوئے کھلاڑیوں کو مواقع دئیں گے ملتان وکٹ کنڈیشن دیکھتے ہوئے تبدیلیا ں کی جاسکتی ہیں ملتان محمد عامر خاص بالر ہیں جو بالنگ اٹیک کو لیڈ کرتے ہیں ملتان : محمد عامر کو اس لیگ میں خاص مقام حاصل ہے ، کراچی: ایچ بی ایل پاکستان سوپر لیگ سیزن 9 کے لئے کراچی کنگز کے سپلیمنٹری راؤنڈ اور متبادل کھلاڑیوں کے انتخاب کا عمل مکمل۔ کراچی: ایچ بی ایل پی ایس ایل کا ریپلیسمنٹ ڈرافٹ پیر کے روز بذریعہ ویڈیو لنک منعقد ہوا۔ کراچی: کیرون پولارڈ جو کی کراچی کنگز کو پلے آف کے راؤنڈ میں دستیاب نہیں ہوں گے کی جگہ کنگز نے لیگ اسپنر زاہد محمود کو بطور متبادل کھلاڑی منتخب کیا ہے۔ کراچی: نیوزی لینڈ کے ٹِم سائفرٹ کے متبادل کی پِک کو کراچی کنگز نے ریزرو کر لیا ہے۔ کراچی: سائفرٹ اپنی قومی ٹیم کی مصروفیت کے بعد کراچی کنگز کے لئے دستیاب ہوں گے۔ کراچی: کنگز نے سپلیمنٹری راؤنڈ میں جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے مڈل آرڈر بلے باز لیوس ڈو پلوی کو ٹیم میں شامل کیا ہے۔ کراچی: اپنی سپلیمنٹری راؤنڈ کی آخری باری میں کراچی کنگز نے 21 سالہ نوجوان کرکٹر محمد روہید کا انتخاب کیا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم اپ ڈیٹ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم آکلینڈ سے ہملٹن پہنچ گئی۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اتوار کو ہملٹن میں کھیلا جائے گا۔ 30 کھلاڑیوں کا اسکلز ڈیولپمنٹ کیمپ 13 جنوری سے ملتان میں شروع ہوگا۔ لاہور 11 جنوری 2024: پاکستان کرکٹ بورڈ کے تحت تیس کھلاڑیوں کا سترہ روزہ اسکلز ڈیولپمنٹ کیمپ ملتان کے انضمام الحق ہائی پرفارمنس سنٹر میں 13 سے 29 جنوری تک منعقد ہوگا۔ منتخب کھلاڑیوں میں حنیف محمد ٹرافی کے ٹاپ پرفارمرز شامل ہیں جو پریذیڈنٹ ٹرافی کا حصہ نہیں ہیں ان کے علاوہ لاڑکانہ ڈیرہ مراد جمالی آزاد جموں و کشمیر ایبٹ آباد بہاولپور اور حیدر آباد کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ کھلاڑیوں میں 14 بیٹرز 4 اسپنرز 9 پیسر اور تین وکٹ کیپرز شامل ہیں۔ ان کھلاڑیوں کو ایک اچھی تربیت یافتہ کوچنگ سٹاف کی نگرانی میں ترقی اور مہارتوں میں وسیع اضافہ کا موقع فراہم کیا گیا ہے ۔ این سی اے کے ہیڈ کوچ شاہد انور کا کہنا ہے کہ ہم حنیف محمد ٹرافی اور حنیف محمد کپ کے ٹاپ پرفارمرز کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکلز کیمپ کا انعقاد کر رہے ہیں یہ کیمپ 2023 ڈومیسٹک سیزن کے دوران کھلاڑیوں کی محنت کا اعتراف ہے۔ ہمارا مقصد ان نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو عمدہ پروڈکٹس میں پروان چڑھانا ہے جس سے ہماری ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار بلند کرنے میں مدد ملے گی اور ہمیں آگے بڑھنے کے لیے معیاری آپشنز ملیں گے۔ کیمپ کے کھلاڑی یہ ہیں۔ بیٹرز - آفاق احمد (ایبٹ آباد ریجن) علی احسن (حیدرآباد ریجن) علی عمران ( اسلام آباد ریجن) انیس اعظم (ایبٹ آباد ریجن) عاشر محمود (سیالکوٹ ریجن) عون شہزاد (بہاولپور ریجن) باسط علی (ڈیرہ مراد جمالی ریجن) حضرت ولی (کوئٹہ ریجن) حسنین شامیر (اے جے کے ریجن) محمد عمار (بہاولپور ریجن) محمد ابراہیم سینئر (کوئٹہ ریجن) محمد ولید (سیالکوٹ ریجن) نوید ملک (اے جے کے ریجن) رضوان محمود ( حیدرآباد ریجن)۔ اسپنرز - اسد ملک (حیدرآباد ریجن) عاشق علی (کراچی ریجن بلیوز) ماجد اصغر (حیدرآباد ریجن) محمد عمیر (بہاولپور ریجن) فاسٹ بولرز - فیضان سلیم (اے جے کے ریجن) حارث حسن (اسلام آباد ریجن) محمد ندیم ( اسلام آباد ریجن) محمد شاہد (ڈیرہ مراد جمالی ریجن) مشتاق احمد (لاڑکانہ ریجن) مصطفی ناصر (حیدرآباد ریجن) نجیب اللہ اچکزئی (کوئٹہ ریجن) ثاقب خان (کراچی ریجن بلیوز) اور شایان خلیل (بہاولپور ریجن) وکٹ کیپرز - حسنین ماجد (بہاولپور ریجن) خیام خان (ایبٹ آباد ریجن) سیف اللہ بنگش (کراچی ریجن بلیوز)۔ سپورٹ اسٹاف - اکرم رضا ( ہیڈ کوچ) غلام علی (اسسٹنٹ کوچ ) شبیر احمد (فاسٹ بولنگ کوچ)، سلیم الٰہی ( فیلڈنگ کوچ) مسعود انوار (اسپن بولنگ کوچ)، محمد طیب ( فزیو تھراپسٹ)، افتخار احمد( اسٹرینتھ اینڈ کنڈیشننگ کوچ) اور محمود محی الدین ( انالسٹ ) پاکستان کرکٹ ٹیم اپ ڈیٹ۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا اوکلینڈ میں پریکٹس سیشن تمام کھلاڑیوں نے پریکٹس سیشن میں حصہ لیا. پریکٹس سیشن تین گھنٹے تک جاری رہا پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل 12 جنوری کو آکلینڈ میں کھیلا جائے گا۔

پی سی بی ،، مچھلیاں نہیں، مگر مچھ بدلو

پی سی بی ،، مچھلیاں نہیں، مگر مچھ بدلو
آفتاب تابی
آفتاب تابی

پاکستان کی ٹیم نے جمعہ کے روز ہونے والے اپنے آخری میچ میں بنگلہ دیش کی ٹیم کو 94 رنز سے شکست تو دی مگر اس فتح کے باوجود
پاکستان کی ٹیم کا اس میگا ایونٹ میں سفر اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم بہترین رنز اوسط کی وجہ سے بھارت، انگلستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے ساتھ سیمی فائنل میں پہنچ گئ اور پاکستان کی ٹیم 2015 کی طرح اس دفعہ بھی سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔اس میچ میں پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچنےکے لیے بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کو ایک بھاری مارجن سے شکست دینا تھی اور میچ سے ایک روز پہلے ہونے والے پریس کانفرنس میں سرفراز احمد نے اس بات کا اشارہ بھی دیا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس میچ میں کم از کم پانچ سو رنز بنانے کی کوشش کرے گی اور سیمی فائنل میں پہنچ جائے گی مگر جب پاکستان بلے باز (افتتاحی ) میدان میں اترے تو ایسا لگا کہ وہ پاکستان کی بجائے اپنے لیے کھیل رہے ہیں اور آ کی کوشش صرف اتنی ہے کہ وہ اپنے لیے ایک اچھا سکور کر سکیں۔
اس ولڈکپ میں پاکستان کی ٹیم نے کوئی بہت خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا مگر وہ کارکردگی نا دکھا سکی جس کارکردگی کی پاکستانی ٹیم کے چاہنے والے امید کر رہے تھے۔ولڈکپ سے تقریبا دو ماہ پہلے انگلستان میں اپنے ڈیرے ڈالنے والی پاکستان کی کرکٹ ٹیم ولڈکپ شروع سے ہونے سے پہلے ہی مشکلات میں گھری ہوئی نظر آئی اور اس کو انگلستان کی ٹیم ( جو اس وقت آئی سی سی رینکنگ میں پہلے نمبر پر موجود ہے ) نے چار صفر سے ہرایا۔ پاکستان کی ٹیم کی انگلستان کے ہاتھوں ہار کیا ہوئی پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کو ایسے لگا ولڈکپ میں یہ ٹیم کچھ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے گی اور انضمام الحق نے ولڈکپ سے کچھ دن پہلے اپنی ہی منتخب کردہ ٹیم کو تبدیل کر دیا
پاکستان نے ولڈکپ میں اپنا سفر شروع کیا تو ماضی میں اپنے بہتر تیز گیند بازوں کی وجہ سے کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے ایسی عبرت ناک شکست سے دوچار کیا کہ پاکستان کی ٹیم پورے ٹورنامنٹ میں اس شکست کے زخم کو بھر نا سکی ( یہ شکست پاکستان کے ولڈکپ سے باہر ہونے کی وجہ بھی بنی)۔ اگر دیکھا جائے تو اس ولڈکپ میں بھی پاکستانی کھلاڑی انفرادی کھیل پیش کرتے نظر آئے جبکہ ان میں ایک ٹیم کی طرح مل کر کھیلنا یا جیت کا وہ جذبہ کہیں نظر نہیں آیا جو ماضی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی طرف سے دیکھنے کو ملتا تھا۔ پاکستانی کھلاڑی میدان میں بجھے بجھے اور تھکن سے چور نظر آئے۔ لگتا ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم ابھی تک 1980 کی دہائی کی کرکٹ سے باہر نہیں آ سکی جہاں پر دوسرےممالک کی ٹیمیں کم از کم 300 یا اس سے زیادہ سکور بنا کر بھی مطمئن نہیں ہوتیں وہیں پر پاکستان کے کھلاڑیوں کی کوشش صرف دو سو یا دو سو پچاس رنز بنانا ہوتی ہے
کسی بھی ٹیم کی ہار جیت میں ڈاٹ بالز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے اگر کوئی بیٹسمین بیس گیند میں دس سے پندرہ ڈاٹ بالز کھیل کر ایک چوکا یا چھکا لگا دیتا ہے تو اس سے وہ کھلاڑی زیادہ اہم اور اچھا ہے جو بیس گیندوں میں صرف دو یا تین ڈاٹ بالز کھیلتا ہے۔ پاکستان کی ولڈکپ میں ناکامی کی ایک وجہ کھلاڑیوں کا بہت زیادہ ڈاٹ بالز کھیلنا اور پھر آوٹ ہو جانا ہے۔پاکستان کی ٹیم نے پورے ولڈکپ کے دوران پہلے پاور پلے میں 65.2 فیصد ڈاٹ بالز کھیلی جس کا مطلب ہے پاکستانی ٹیم نے ولڈکپ کے تمام میچوں کے پہلے پاور پلے میں (پہلے دس اوورز ) اوسط 20.88 گیندوں پر سکور بنائے جو موجودہ دور کی ون ڈے کرکٹ کے لحاظ سے بہت کم ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم اور اس کی منیجمنٹ ابھی تک کس طرح کا دفاعی انداز اپنائے ہوئے ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے کچھ کھلاڑیوں کا اتنی زیادہ ڈاٹ بالز کھیلنےکے بعد آوٹ ہونا بھی ہماری ناکامی کا باعث بنا۔
اگر پاکستانی کھلاڑیوں کی فیلڈنگ کی بات کی جائے تو پاکستان کی ٹیم نے پورے ولڈکپ میں 15 سے زائد بار کیچ چھوڑے جو کہ کسی بھی ٹیم کی طرف سے ابھی تک اس ولڈکپ میں سب سے زیادہ ہیں اس کے علاوہ فیلڈنگ میں جس طرح پاکستانی کھلاڑیوں نے رن آؤٹ کے مواقع ضائع کیے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں
پورے ولڈکپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ کا سارا دارومدار صرف اور صرف بابر اعظم پر رہا جیسے ہی بابر اعظم آوٹ ہوتے ایسا لگتا جیسے پاکستان کے کھلاڑی بیٹنگ کرنا ہی بھول گئے ہیں۔پاکستان کی طرف سے اس ولڈکپ میں بابر اعظم اور امام الحق سینچری بنانے میں کامیاب رہے۔ بابر اعظم نے اس ولڈکپ میں 67.71 کی اوسط سے 474 رنز بنائے جو کہ کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کا ولڈکپ میں سب سے زیادہ سکور ہے بیٹنگ میں کپتان سرفراز احمد بھی کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے اور 8 میچز میں 28.60 کی اوسط سے صرف 143 رنز بنا سکے جس میں صرف ایک پچاس سے زیادہ سکور تھا
اگر پاکستانی باؤلنگ کی بات کی جائے تو آخری لمحات میں ٹیم میں شامل ہونے والے محمد عامر سب سے کامیاب باؤلر رہے جہنوں نے 17 وکٹیں حاصل کیں جب کہ اٹھارہ سالہ نوجوان فاسٹ باؤلر شاہین آفریدی نے 16 وکٹیں لے کر اپنا لوہا منوایا۔
اگر دیکھا جائے تو انفرادی طور پر پاکستانی ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں کی کارکردگی بہت اچھی رہی مگر مجموعی طور پر اور بحیثیت ٹیم کارکردگی اتنی خاص نہیں رہی۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی ٹیم میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں لگے رہے (بنگلہ دیش کے خلاف آخری میچ میں اس چیز کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا) اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے زیادہ اپنے لیے کھیلتے نظر آئے جس کا اندازہ سب دیکھنے والوں کو بھی ہوا۔
میرے کچھ دوست احباب کا خیال ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم بہت بدقسمت رہی اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم صرف اور صرف خوش قسمتی کی وجہ سے ولڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جب کہ میرے خیال میں ایسا بالکل بھی نہیں پاکستان کی کرکٹ ٹیم بدقسمتی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے برے اور مفاد پرست کھلاڑیوں کی وجہ سے ولڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پاکستان سے بہتر کھیل پیش کیا اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ پاکستان کی ٹیم افغانستان جیسی ٹیم سے کم سکور کا میچ بہت مشکل سےجیت سکی جب دوسری طرف نیوزی لینڈ کی ٹیم نے افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو باآسانی شکست دی ۔
جب مکی آرتھر نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری سنبھالی تو انہوں نے بہت سے کھلاڑیوں کی فٹنس کو جواز بنا کر ٹیم میں شامل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں صرف وہ ہی کھلاڑی شامل ہوں گے جو مکمل طور پر فٹ ہوں گے اور اس چیز پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا جو بظاہر ایک اچھا اقدام تھا مگر جیسے وقت گزرتا گیا مکی آرتھر بھی پاکستانی ٹیم کے رنگ میں رنگ گئے اور اب یہ وقت ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی فٹنس پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ہمیشہ کسی بھی بڑے ٹورنامنٹ سے پہلے پاکستان آرمی کے زیراہتمام پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے فٹنس کیمپ لگاتا ہے جس سے کچھ عرصہ کے لیے تو کھلاڑیوں کی فٹنس میں اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں مگر اس کے بعد پھر وہی صورت حال ہو جاتی ہے جیسے پہلے تھی کیونکہ پاکستانی کھلاڑی ٹورنامنٹ شروع ہونے کچھ عرصہ پہلے تو کافی محنت کرتے ہیں مگر جیسے ہی ٹورنامنٹ ختم ہوتا ہے وہ اپنی ٹریننگ بھول جاتے ہیں پاکستانی کھلاڑیوں کی ناکامی کی وجہ ان کا اس حد تک فٹ نا ہونا بھی ہے جو آج کل کی کرکٹ کے لیے ضروری ہے
اگر دیکھا جائے تو میرے نزدیک پاکستان کی اس کارکردگی کا ذمہ دار کسی ایک کھلاڑی کو یا منیجمنٹ کے بندے کو نہیں کہا جا سکتا بلکہ پاکستان کی اس کارکردگی کا ذمہ دار وہ نظام ہے جس کی بدولت چند لوگوں نے پاکستان کی کرکٹ کو یرغمال بنا رکھا ہے اور ہر عہدہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا فیصلہ ان چند لوگوں کی طرف گھومتا رہتا ہے ۔ پاکستان کی ہر شکست کے بعد صرف چہرے تبدیل کیے جاتے ہیں اور ان ہی کچھ مفاد پرست لوگوں میں یہ تبدیلی کا کھیل کھیلا جاتا ہے جو پچھلی کافی دہائیوں سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو نقصان پہچانے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ میں ہمیشہ سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رہا ہے ہر شکست کے بعد انکوائری کمیٹیاں بھی قائم کی گئیں اور کھلاڑیوں کو جرمانے بھی کیےگئے مگر کیا نہیں گیا تو اس افسردہ نظام کا خاتمہ جس کی بدولت جنید ضیاء جیسا کھلاڑی تو راتوں رات پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل جاتا ہے مگر انور علی جیسا ہونہار کھلاڑی جو اپنی پرفارمنس سے تن تنہا انڈر 19 ولڈکپ کا فائنل پاکستان کو جیتواتا ہے اسے پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنانے کیلئے سالوں انتظار کرنا پڑتاہے۔ پاکستان کی شکست کا اصل ذمہ دار وہ نظام ہے جس کےتحت امام الحق پر تو چیف سلیکٹر کی نظر پڑ جاتی ہے مگر فواد عالم، اعزاز چیمہ اور کامران اکمل جیسے کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز اور وکٹوں کے انبار لگانے کے باوجود ٹیم سے باہر رہتے ہیں ۔ یہ وہ فرسودہ نظام ہے جس میں جنید خان جیسے کھلاڑی کو منہ پر ٹیپ باندھ کر احتجاج کرنا پڑتا ہے محمد حسنین کو پاکستان سپر لیگ میں صرف تیز گیند بازی کی وجہ سے ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے مگر سہیل خان پاکستان سپر لیگ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کے باوجود ٹیم سے باہر رہتا ہے۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ جب تک یہ ذاتی پسند ،نا پسند اور پرچی کا نظام نہیں بدلا جائے گا تب تک چہرے بدلنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دوسرے ممالک کی ٹیمیں ان نوجوان کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں منتخب کرتی ہیں جو انڈر 19 اور اس طرح کی کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں ان کھلاڑیوں کو اول تو شامل ہی نہیں کیا جاتا اور اگر ان کو شامل بھی کیا جاتا ہےتو اس عمر میں جس عمر میں دوسرے ممالک کے کھلاڑی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لیتے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس وقت بھی عملی طور پر شکیل شیخ، سبحان احمد، ذاکر خان اور ہارون رشید جیسے لوگوں کے زیر اثر ہے اور یہ مفاد پرست لوگوں کا وہ ٹولہ ہے جس نے پاکستان کی کرکٹ کو نقصان پہچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ جو بھی نیا بندہ اس نظام میں آتا ہے یا تو وہ اسے کام نہیں کرنے دیتے یا اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں
یقینا ولڈکپ کی اس کارکردگی پر بھی ایک انکوائری کمیٹی بنائی جائے گی اور اس میں ان کھلاڑیوں کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا جن کا کرکٹ کیریئر تقریبا اختتام پذیر ہو چکا ہے اور ان کھلاڑیوں کو بچایا جائے گا جو کپتان اور سلیکشن کمیٹی کے لاڈلے ہیں ہو سکتا ہے کپتان، کوچ اور چیف سلیکٹر کو بھی تبدیل کر دیا جائے ( میرے نزدیک ان سب کو تبدیل ہونا چاہیے بشمول بالنگ کوچ، بیٹنگ کوچ ) مگر ان سب چیزوں کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک اس فرسودہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا جس کے تحت میرٹ پر کھلاڑی ٹیم میں شامل نہیں کیے جاتے۔
اللہ آپ سب کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرے اور آپ کو آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں