لوگ پتا نہیں کیا کیا کھتے رھتے ھیں کبھی کھتے ھیں ملک کی خوشحالی دیکھنی ھو تو وھاں کی عورت دیکھو’کوئی کھتا ھے خوشحالی دیکھنی ھو تو تعلیمی ادارے دیکھو کوئی کھتا ھے روڈ رستے دیکھو وغیرہ وغیرہ، پر حقیقت بڑی بھیانک ھے اس لئی کے ھمارے ملک خاص کرکے سندھ میں سب تباہ حال اس لئے خوشحالی کا تصور بنے سو ممکن نہیں، کراچی سندھ کا نہیں پورے پاکستان کا دل ھے پر یھاں کھیلوں میدانوں اور کھلاڑیوں حال ایسے ھے جسے دل کے چاروں وال بند ھوں اور اسکا بائی پاس ھی آخری علاج ھو’کراچی کے لیاری جس کو ھم غلطی سے برازیل کھتے ھیں یھاں لوگ فٹ بال کے رسیا ھیں اپنے بل بوتے اپنے ھی خرچ سے اپنے ھی وسائیل سے یے کھیل کھیل کھیلنے والے بڑے بڑے مسائل سے گھرے ھونے کے باوجود اس شوق سے دستبردار نھی ھوئے یھاں اگر کچھ توجھا حکومت دے تو شاید اس کھیل میں آپکو ٹیلنٹ سب سے زیادھ ملے پر کون ان کھلاڑیوں کی پشت پناھی کرے کون انکو مالی وسائل دے؟؟ اس علائقے نے اس کھیل میں بھت اچھے کھلاڑی دیئے پر وھ سب قصا پارینا ھوگئے اور کسمپرسی کی زندگی گزار کر اسی لیاری کے میدانوں میں دفن ھوگئے کھیلوں کے ساتھ اور کھلاڑیوں کے ساتھ ھر دور کے کرتا دھرتاؤں نے سوتیلے پن کا مظاھرھ کیا ھے، اسٹریٹ چائلڈ کی ٹیم نے باھر کے ممالک میں اعلی کارکردگی دکھائی پر یھاں انکو پھر’اسٹریٹ’ پر لاکھڑا کردیا اور تو اور حکومت کیا ای جی اوز نے اور بھی اداروں نے فٹ بال کھیل کا حشر نشر کردیا پر ھے کوئی کھنے والا بولنے والا حساب مانگنے والا؟؟بھت ساری محرومیوں کے باوجود بھی آج بھی لیاری کے مستقبل کی آنکھوں میں ‘میراڈونا’ رونالڈو’میپسی’ بستاھے!
اپنی رائے کا اظہار کریں