گلگت،بلتستان،کے پی کے،آزاد کشمیر کے اندر لاہور قلندرز
یہ لاہور قلندرز والے پراسرار بندے لگتے ہیں ،،، ہر سال پاکستان سپر لیگ میں سب سے آخری پوزیشن حاصل کرتے ہیں مگر عوام ہیں کہ ان سے پیار کیے جا رہے ہیں ،،، دو بار پی ایس ایل جیتنے والے علی نقوی کو شاید کوئی جانتا بھی نہیں ،،، اور ایک رانا فواد ہیں کہ کیا سوشل میڈیا اور کیا پورا پاکستان بلکہ جہاں جہاں بھی پاکستانی رہتے ہیں ان کی ہر دلعزیز شخصیت بن چکے ہیں اور وہ ان کے انٹرویوز کا بے تابی کے ساتھ انتظار کرتے ہیں ،،، اس بات کی باقاعدہ تحقیق درکار ہے کہ لاہور قلندرز کی مقبولیت کا گراف ٹیم کی کارکردگی سے درکنار بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ،،، کھوجی چھوڑنا پڑیں گے کہ آخر لاہور قلندرز نے ایسا کیا چکر چلایا ہوا ہے کہ ان کے ہیڈکوچ عاقب جاوید آج بھی پاکستان کے مستند کوچ سمجھے جاتے ہیں ،،، اور جاسوسی ٹیم تشکیل دینا ہوگی کہ رانا عاطف کے پاس وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ پاکستان کا میڈیا تک ان کی باتیں تسلی سے سنتا ہے اور ان سے دوستی کا خواہاں رہتا ہے اور کمزور ترین میڈیا سیل ہونے کے باوجود ان کی خبروں کو خود ہی جاندار بنا کر پیش کرتا ہے
اس کی آخر وجہ کیا ہے ؟ تو جناب جس ملک میں 68 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہو اور ان میں اکثریت ہو بھی مایوسی کا شکار ،،، جہاں ہر کوئی نا انصافی اور استحصالی کا رونا روتے نظر آئے ،،، وہاں اگر کوئی نوجوان نسل کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کو زندہ ہونے کا احساس دلائے تو لازمی امر ہے کہ پزیرائی اور عزت اس کا مقدر ٹھہرے گی
کرکٹ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے اور جہاں کسی کو ایک کنال جگہ بھی خالی نظر آئے وہ وہاں کرکٹ ہی کھیلتا نظر آتا ہے ،، ایسے میں جب پاکستانی ٹیلنٹ ریجنل کرکٹ کے خونخوار اور نفرت سے بھرے عہدیداروں کی بھینٹ چڑھ رہا ہو اور ان کی حوصلہ شکنی کا تزکرہ محفلوں میں فخر کے ساتھ بیان کیا جاتا ہو ،،،، اگر کوئی ایسے مایوس نوجوانوں کو بلا کسی سفارش کے بین الاقوامی کرکٹ میں لا کھڑا کرے تو وہ مسیحا ہی کہلا سکتا ہے،،، پاکستان سپر لیگ کی تیزی سے مقبولیت کی وجہ نوجوان کھلاڑی اور وہ کھلاڑی جنکو کوئی جانتا تک نہ تھا کی عمدہ کارکردگی سے وابستہ ہے
لاہور قلندرز رائزنگ سٹار جب شروع ہوا تو عام خیال تھا کہ یہ محض دکھاوا ہوگا اور ایسوسی ایشنز کے چہیتوں کو منتخب کرکے ایک ٹورنامنٹ کروا دیا جائے گا اور لاہور قلندرز یہ ڈرامہ محض سپانسرز سے بڑی رقم بٹورنے کے لیے رچا رہا ہے ،،، مگر جب ٹرائلز میں ایسوسی ایشنز کی چیخوں کی آواز آئی تو احساس پیدا ہونے لگا کہ نہیں یہ لوگ تو کسی کی نہیں سنتے ،،، عام تاثر ہے کہ عاقب جاوید میری بات نہیں ٹالتے مگر جب سرگودھا میں ہونے والے ٹرائلز میں پاکستان انڈر 19 کھیلنے والے میرے ہی کلب کے شہابل وڑائچ کو منتخب نہ کیا گیا اور میری دہائی کی ایک نہ چلی تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں
پاکستان کرکٹ بورڈ کے میگا ایونٹس ون ڈے کپ اور ٹی ٹونٹی کپ میں سٹیڈیمز کا بھرنا اب خواب بن چکا ہے اور تماشائی ٹی وی پر میچ دیکھنے کو بہتر سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ پی سی بی والوں نے کبھی جستجو نہیں کی لاہور قلندرز کے قزافی اسٹیڈیم لاہور میں ہونے والے فائنل میں سرگودھا اور لیہ جیسی ٹیموں کا میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم فل ہو سکتا ہے تو ہم سے کہاں غلطی سر زد ہو رہی ہے ؟
بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر آتے ہیں آج کے اصل موضوع کی طرف تو جناب لاہور قلندرز نے ٹیلنٹ کے کھوج کا سلسلہ پنجاب اور آزاد کشمیر سے بڑھا کر اب یکسر نظر انداز گلگت بلتستان تک بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور خیبر پختون خواہ میں موجود بے پناہ ٹیلنٹ سے استفادہ کرنے کے لیے کے پی کے میں بھی جانے کا فیصلہ کر لیا ،،، چیف سلیکٹر انضمام الحق اور سپیڈ سٹار شعیب اختر بھی لاہور قلندرز کی ٹیم میں اس لیے شامل ہوئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں یہی وہ پلیٹ فارم ہے کہ جس کے ذریعے مزید کئی شعیب اختر اور انضمام الحق قومی دھارے میں لائے جا سکتے ہیں
یہ شیڈول تحریر کا حصہ بنانے کا مقصد آپ کو مطلع کرنا ہے کہ کب اور کہاں ٹرائلز ہونگے ،،، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میگا ایونٹ کا حصہ بننے کا کیا طریقہ کار ہے تو جناب اس کے لیے بھی لاہور قلندرز نے وہ طریقہ وضح کردیا ہے کہ اب آپ گھر بیٹھے اپنی رجسٹریشن کروا سکتے ہیں اور آپ کو آپ کے گھر پر بتا دیا جائے گا کہ آپ کے ٹرائلز کب اور کہاں لیے جائیں گے ؟ اور ہاں اس بار عمر کی بھی کوئی قید نہیں ہے مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ لاہور قلندرز ٹیم میں بابوں کو بھی شامل کر لے گی ،،، یہ پروگرام نوجوان نسل کے لیے ہے اور ان کو ہی ٹیم میں شامل کیا جائے گا
یہ لنک دیکھنے سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ لاہور رائزنگ سٹار سیزن تھری میں شامل کیسے ہوا جا سکتا ہے
تو جناب کچھ کچھ سمجھ آپکو بھی آگئی ہوگی کہ لاہور قلندرز کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے ؟ یہ تو وہ اقدامات ہیں کہ جو ہر آنکھ دیکھتی ہے مگر کچھ ایسے اقدامات اور کارخیر کے کام بھی لاہور قلندرز نے اپنے ذمے لیے ہوئے ہیں کہ جس کے بدلے ان کو دعاوں کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوتا اور منیجمنٹ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی تشہر نہ کی جائے اس لیے ان سب کاموں کو جانتے ہوئے بھی اس تحریر کا حصہ نہیں بنا رہا ،،، ہاں اتنا اشارتا ضرور کہوں گا کہ کسی اور کے اعلانات کی پاسداری بھی لاہور قلندرز کر گزرتا ہے
پنجاب سے تعلق رکھنے اور پنجابی ہونے کے ناطے مجھے جیلسی ہو رہی ہے کہ پنجاب کے اکثر بلکہ لاہور قلندرز رائزنگ سٹار کی فائنلسٹ ٹیموں کے شہر ٹرائلز سے نظر انداز کر کے اس کا دائرہ کار پورے پاکستان تک پھیلایا جا رہا ہے ،،، مگر یہ جیلسی اس وقت کم ہوجاتی ہے جب میں اپنے ذہن میں گلگت بلتستان اور کے پی کے ان باصلاحیت کھلاڑیوں اور علاقوں کو لاتا ہوں کہ جہاں ان کی سننے والا کوئی نہیں ،،، جو ایک موقع کی تلاش میں ہیں کہ کوئی آئے اور ان کی صلاحیتوں کو پرکھے ،،، ان کے کپڑے تو پھٹے ہوئے ہوتے ہیں مگر وہ ٹیلنٹ سے اٹے ہوئے ہوتے ہیں ،،، جن کے پاس گراونڈز تو نہیں ہیں مگر دلوں میں ارمانوں کے سبز میدان ہیں اور وہ ان کی آبیاری کی آس لیے ایک دن مزدوری کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں
آپ بھی سوچتے ہونگے کہ لاہور قلندرز آفتاب تابی کو کوئی لمبی رقم لگاتا ہے جو سارا سال لاہور قلندرز کی خبروں سے اپنی ویب سائٹ بھرے رکھتا ہے تو جناب یہ بھی میرا اللہ اور رانا عاطف جانتے ہیں کہ ان سے میرا کیا تعلق ہے ،،، رہی بات میرے جزبے کی تو یوں سمجھ لیجیے کہ لاہور قلندرز کے اس کارخیر میں میں اپنا حصہ ڈال کر خوشی محسوس کرتا ہوں کہ نوجوان نسل کو باخبر رکھا جائے کہ کیا ہونے جا رہا ہے اور کب ہونے جارہا ہے،،، میں لاہور قلندرز کے ساتھ ساتھ پشاور زلمی کے لیے بھی اسی جزبے سے کام کرتا ہوں جو آپ سب کے علم میں ہے کیونکہ یہ دونوں فرنچائزز ہی نوجوان نسل میں تحریک پیدا کر رہے ہیں اور جہاں نوجوان نسل کو محرک کرنے کا عزم نظر آتا ہے میں اس کے لیے ایسے ہی کام کرتا ہوں جیسے ان کا ملازم ہوں،،، اور مجھے اس ملازمت پر فخر ہے
مروں تو کسی چہرے میں رنگ بھر جاوں ،،،، ندیم کاش کوئی ایسا ہی کام کر جاوں
اپنی رائے کا اظہار کریں