مصباح ایکسپریس ترقی کی راہ پر فراٹے بھرتی ہوئی
پاکستان کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کے خلاف تین ٹیسٹ میچز کی سیریز دو ایک سے جیت کر ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی بہترین پرفارمنس کو جاری رکھا ہے۔ لیکن دو صفر کی برتری کے ساتھ شارجہ میں کھیلے جانے والے تیسرے ٹیسٹ میں قومی ٹیم کے پاس جہاں تینوں سیریز میں کلین سویپ کرنے کا موقع ضائع ہوگیا وہیں ویسٹ انڈیز کی بنتی ہوئی ٹیم کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ میں شکست سے ایک قومی کرکٹرز ایک بار پھر غیرذمہ دار اور اوور کانفیڈینٹ نظر آئے۔ جہاں اپنی ہوم کنڈیشنز میں ٹی ٹونٹی اور پھر ون ڈے سیریز میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو کلین سویپ کر لیا تو یہی تصور کیا جا رہا تھا کہ پاکستان ٹیم ٹیسٹ سیریز میں تو یقینی فتح حاصل کر لے گی۔ پہلے دو ٹیسٹ میچز میں تو ٹیم نے کامیابی حاصل کر کے سیریز اپنے نام کر لی لیکن شارجہ میں کھیلے جانے والے تیسرے ٹیسٹ میں جہاں ویسٹ انڈیز کی ٹیم شکستوں کے ایک طویل سفر کے بعد میدان میں اتری تو دوسری پوزیشن پر براجمان ٹیم پاکستان کوشکست دے کر یہ ثابت کر دیا کہ جب کھلاڑی اوور کانفیڈینس کے ساتھ کھیلے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے۔پاکستان کرکٹ ٹیم جب ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹونٹی سیریز شروع کر رہی تھی تو شائقین کرکٹ توقع کر رہے تھے کہ دونوں ٹیموں کے درمیان ایک سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا لیکن سینئر کھلاڑیوں کی عدم دستیابی کے باعث ویسٹ انڈیز کی ورلڈ چیمپیئن ٹیم نے ایسی پسپائی اختیار کی کہ ٹی ٹونٹی کے بعد ون ڈے سیریز میں بھی کلین سویپ شکست سے دوچار ہوئی جس سے ون ڈے کپتان اظہر علی کی جاتی ہوئی کپتانی کو ایک اور سہارا مل گیا اور ون ڈے کپتان بدلتا بدلتا رہ گیا۔ٹیسٹ سیریز میں اگر کھلاڑیوں کی پرفارمنس کو دیکھیں تو جہاں سمیع اسلم نے خود کو ثابت کیا کہ وہ ٹیسٹ فارمیٹ میں اچھا پرفارم کر سکتے ہیں،دبئی میں ہونے والے ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میں 90 رنز کی اننگز کھیلی اور اظہر علی کی ٹرپل سینچری کی اننگز کے ساتھ اچھا ساتھ نبھایا لیکن نروس نائینٹیز کا شکار ہوئے اور 90 رنز بنا کے آؤٹ ہوگئے،اظہر علی 302 رنز ناٹ آؤٹ کے ساتھ جہاں ٹرپل سینچری مکمل کی وہیں اس اننگز کے ساتھ ان سے ایک بڑا پریشر بھی اتر گیا۔پہلے میچ کی پہلی اننگز میں اسد شفیق کی 67 اور بابر اعظم کی پہلے ٹیسٹ میں 69 رنز کی اننگز سے جہاں پاکستان ٹیم 579 رنز بنانے میں کامیاب ہوئی وہیں دوسری اننگز میں 123 رنز پر آل آؤٹ ہو کے اپنی ان پرڈکٹ ایبل ہونے کی روائت کو برقرار رکھا۔لیکن پاکستان ٹیم اس تاریخی ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میں کامیاب رہی۔دوسرے ٹیسٹ میں بھی یونس خان کے 127، کپتان مصباح الحق کے 96 اور اسد شفیق کے 68 رنز کی بدولت پاکستان ٹیم 452 رنز بنانے میں کامیاب ہوگئی۔دوسری اننگز میں بھی اظہر علی،اسد شفیق اور سمیع اسلم کی اچھی بیٹنگ کی بدولت اچھا ٹارگٹ سیٹ کیا اور باؤلنگ میں بھی راحت علی اور یاسر شاہ کی 10 وکٹوں کی بدولت قومی ٹیم نے دوسری ٹیسٹ اور سیریز میں بھی کامیابی حاصل کی۔سیریز جیتنے کے بعد شائقین کرکٹ کی طرح ہم بھی یہی توقع کر رہے تھے کہ ٹیم ٹیسٹ سیریز میں بھی کلین سویپ کرے گی،لیکن کھلاڑیوں کا اوور کانفیڈینس ٹیم کو لے ڈوبا۔اس سیریز میں راحت علی کو اس طرح موقع نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار تھے،میرے خیال کے مطابق راحت علی وہاب ریاض اور سہیل خان سے قدرے بہتر اور ٹیلنٹڈ باؤلر ہیں۔۔لیکن انکو اس طرح نہ تو موقع دیا گیا اور نہ ہی استعمال کیا گیا جس کا احساس کپتان مصباح الحق کو شاید اب تیسرے میچ میں شکست کے بعد ہورہا ہوگا۔اس میچ میں سب زیادہ اہم بات محمد نواز کو ٹیسٹ کیپ دینا تھا۔اب کپتان مصباح الحق کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ کیا محمد نواز بطور آل راؤنڈر ٹیم میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جس کے لئے انہیں ٹیسٹ ٹیم میں کھلایا جا رہا ہے۔وسیٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں محمد نواز نہ تو باؤلنگ میں اور نہ ہی بیٹنگ میں کچھ نمایاں کاکردگی دکھا سکے ہیں جس بارے ٹیم مینجمینٹ کو سوچنا ہوگا۔دوسرا بڑا فیصلہ بابر اعظم جیسے ان فارم کھلاڑی کو ڈراپ کر کے اسد شفیق کو ٹاپ آرڈر میں کھلانا ہے۔اسد شفیق نے پہلے میچز میں جہاں بیٹنگ پچز تھیں جہاں باقی بھی سب رنز بنا رہے تھے وہاں تو رنز بنا لیئے لیکن تیسرے ٹیسٹ جہاں ٹیم کو ضرورت تھی وہاں وہ دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے۔اسد شفقی کو جن کو ٹیکنیک میں اچھا کرکٹر مانا جاتا ہے انہیں کچھ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا پڑے گا۔میں گذشتہ ایک سال سے اپنے ٹی وی رپورٹس اور تحریروں میں لکھ رہا تھا کہ بابر اعظم ایک ٹیلنٹڈ کھلاڑی ہے اور اسے موقع ملنا چاہیئے،لیکن اب جب انہیں ٹی ٹونٹی کے بعد ون ڈے میں موقع ملا تو انہوں نے تینوں ون ڈے میچز میں سینچریز کر کے خود کو ماضی کے بڑے کرکٹرز کے ساتھ کا کھڑا کیا جن میں ظہیر عباس اور سعید انور جیسے نامور کرکٹرز شامل ہیں۔لیکن بابر اعظم برائے مہربانی بابر اعظم ہی رہیں۔ ہمارے ہاں میڈیا میں ایک بڑی بیماری ہے کہ ہم بہت جلد نئے کرکٹر کو ماضی کے بڑے ناموں کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔جیسے احمد شہزاد اور عمر اکمل ویرات کوہلی کو کاپی کرتے رہے لیکن بیٹنگ میں نہیں صرف ہیر اور شیو کے سٹائل میں۔صہیب مقصود کو سابق کپتان انضمام الحق سے ملادیا گیا لیکن آج صہیب مقصود کہاں ہیں کوئی پتا نہیں۔شرجیل خان کو سعید انور سے ملایا گیا لیکن شکر ہے شرجیل خود کو شرجیل سمجھ کے ہی کھیل رہے ہیں اور ابھی تک پرفارم بھی کر رہے ہیں،اور میری بابر اعظم سے بھی درخواست ہے کہ وہ خود کو بابر اعظم سمجھ کے ہی کھیلتے رہیں اور پاکستان ٹیم کے اپنی بہترین پرفارمنسز دیتے رہیں تو یہی ان کے لئے بھی اور پاکستان کے لئے بھی بہتر رہے گا ورنہ احمد شہزاد،عمر اکمل اور صہیب مقصود کی مثالیں انکے سامنے ہیں۔دورہ نیوزی لینڈ کے لئے ٹیم کا اعلان ہوچکا ہے اور ٹیم نیوزی لینڈ روانہ ہوچکی ہے،ٹیم میں شرجیل خان کو بطور اوپنر شامل کرنا انضمام الحق اینڈ کمپنی کا ایک اچھا فیصلہ ہے،اگر ڈیوڈ وارنر،برینڈن میکلم اور ماضی میں گلکرسٹ جیسے تیز کھیلنے والے کھلاڑی ٹیسٹ فارمیٹ میں خود کو منوا سکتے ہیں تو شرجیل خان کے لئے اچھا موقع ہے کہ وہ بھی ٹیسٹ فارمیٹ میں اپنے اسی ٹیمپو کے ساتھ کھیلتے رہیں۔نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کیسی ہوگی اس بارے میں یہی کہوں گا کہ کپتان مصباح الحق کے پاس ایک اچھا موقع ہے کہ بھارت سے بری طرح ہاری ہوئی ٹیم کو سپنرز سے انڈر پریشر رکھ کے انکو انکی اپنی کنڈیشنز میں شکست دی جاسکتی ہے،اور اگر پچز فاسٹ ہوتی ہیں تو پاکستان کے پاس محمد عامر،وہاب ریاض،راحت علی اور عمران خان جیسے اچھے سیمرز بھی موجود ہیں اللہ خیر کرے گا۔لیکن خدا کے لئے محمد عامر اور وہاب ریاض سے گذارش ہے کہ خود کی لائن اور لینتھ کو بہتر بنائیں اور اس پہ کنٹرول بھی حاصل کریں
اپنی رائے کا اظہار کریں