جنرل ضیاء کا ریفرنڈم اور پی سی بی سالانہ جنرل میٹنگ
یہ ہمارے کالج کے زمانے کی بات ہے جب اس وقت عوام کے ہردلعزیز لیڈر جنرل ر ضیاء الحق نے جمھوری طاقتوں کو چکمہ دینے کے لیے ریفرنڈم کا اعلان کیا، ریفرنڈم کا سوال ایسا تھا کہ ہر کسی کو کہنا پڑا
ہاں
سوال کا متن کچھ یہ تھا کہ اگر آپ اللہ اور رسول اکرم کو مانتے ہیں تو میں پانچ سال کے صدر پھر کیا تھا ریفرنڈم کے روز ہر کسی نے دل کھول کر ووٹ ڈالے جی ہاں ایک ایک بندے درجنوں بار ووٹ ڈالے، ہمارے محلے کا ایک ابنارمل شخص پھیکا مرحوم بھی بار بار کہہ رہا تھا کہ میں نے بھی ووٹ ڈالنا تو میں اس کو بھی اندر لے گیا اور اس نے بڑی سج دھج سے ووٹ ڈالا
پھر ہم سب کو معلوم، ہے کہ ان پانچ سالوں کا کیے ہم کئی سال سے بھر رہے ہیں اور شاید آئندہ مزید دس سال تک بھریں گے، ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ جنرل ضیاء نے اس وقت جو اقدام اٹھائے آج وہ پوری قوم کے لیے درد سر بن کر رہ گئے ہیں
کچھ ایسی ہی صورت حال گزشتہ دنوں لاہور کے فائیو سٹار ہوٹل ہونے والی پی سی بی سالانہ جنرل میٹنگ میں دیکھنے کو ملے جب جعلی کلبوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ڈسٹرکٹ صدرو اور ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ریجنل صدور اور ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ممبران گورننگ باڈی نے بڑی تعداد میں ایک سے ایک بن سنور کر شرکت کی،،،، اجلاس میں اسی فیصد وہ احباب ہوتے ہیں کہ وہ محض اس ہوٹل کی سج دھج اور ان کو دیے گئے پروٹوکول سے وہ سب بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی اصل طاقت وہ ہیں، مگر افسوس ایک عمدہ کھانا ایک تحفے والا شاپر اور چند سلفیوں پر وہ سب بھول جاتے ہیں کہ وہ کس مقصد کے لیے آئے تھے، سالانہ میٹنگ کے دوران اچانک ڈائریکٹر پی ایس ایل شکیل شیخ نے بالکل جنرل ضیاء کے ریفرنڈم کے طرز کی قرار داد پیش کی کہ اگست میں شہر یار خان کی جگہ آپ کو نجم سیٹھی آئندہ پانچ سال کے لیے چیئرمین منطور ہیں تو اس پر سب نے بآواز بلند آمین کہا اور قرار داد منظور کر لی گئی، اگر کسی نے مخالفت کی تو اس کی آواز ایسے ہی دب گئی جیسے میلے میں سپیکروں کی آواز میں ساتھ کھڑے دوست کی،،،، پھر من پسند افراد میں تحفے تحائف کی تقسیم ایسے ہوئی جیسے وہ ایک مثال ہے تم مجھ نیازی کہو میں تم کو نیازی کہتا ہوں
پھر اچانک اجلاس کے ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے تو ڈسٹرکٹ اور ریجن کے چند نمائندوں کو یاد آیا کہ وہ تو مطالبات لے کر آئے تھے مگر بیچارے نمائندگان نے اعلی نسل کا کھانا اتنا پیٹ بھر کھا لیا ہوا تھا کہ اس کے خمار نے ان کی آواز کو اتنا دھیما کر دیا کہ وہ اپنا سا منہ لے کر حسب سابق، حسب روایت واپس چلے گئے
نجم سیٹھی نے تو قرار داد منظور کروا کر پیٹرن جو کے وزیر اعظم کو واضح پیغام دے دیا کہ سرکار اگر آپ مجھے چیئرمین بنائیں گے تو یہ پسندیدہ فیصلہ ہوگا اور آپ کے اس فیصلے کو واہ واہ ملے گی
ابھی تک کی صورت حال نجم سیٹھی کے خاصے کنٹرول میں ہے کیونکہ اجلاس میں شریک افراد میں کچھ نے بتایا کہ چیئرمین پی سی بی شہریار خان کے پاس تو کوئی کھانا کھانے نہیں بیٹھا تھا، تمام کے تمام روایتی طبلہ نواز جو سب اچھا ہے کا رانگ لگانے میں استاد بڑے غلام علی کے بھی استاد ہیں،،،،نجم سیٹھی کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے کہ کسی اور پر ان کی نظر نہ پڑے
مگر ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر نجم سیٹھی چیئرمین پی سی بی بن گئے تو گراس روٹ لیول پر جو کچھ کام شروع ہوا ہے وہ اپنی موت آپ مر جائے گا،،،ان کے عزیز اور ہمنوا سکول،کالج،ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹس کے نام پر کڑوڑوں جیب میں ڈال کر آئندہ لوٹ کھسوٹ پروگرام کا پیپر جی ہاں صرف پیپر ورک کریں گے،،،، سبحان احمد کو یقینا کھڈے لائن لگا کر ان کی جگہ سیٹھی صاحب کے عزیز براجمان ہوجائیں گے، پاکستان کھیلنے کے خواہشمند کھلاڑی کے لیے لازم ہوگا کہ وہ پی ایس ایل میں منیجمنٹ کے احکامات کا پابند رہے وہ احکامات کچھ بھی ہوں،
نجم سیٹھی چیئرمین بنتے ہیں تو پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلی تلوار مدثر نزر اور ان کے چند رفقاء پر پھرے گی کیونکہ سابق ڈائریکٹر اکیڈیمیز ایزد سید اپنے اندر ایک غصے اور انتقام کی شہہ لگائے بیٹھے ہیں کہ جس طرح علی ضیاء کے رفقاء نے ان کے منصوبے ناکام کیے اور ان کو این سے اے سے پی سی بی منتقل ہونے پر مجبور کر دیا،،،،،
نجم سیٹھی پی ایس ایل کامیاب کروا کے ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے اگر وہ سسٹم سے نکل گئے تو سارے کا سارا نظام چوپٹ ہوجائے گا، مقبول ترین لیگ پی ایس ایل کی قدر دو کوڑی نہیں رہے گی، لہذا دونوں قلم دان یعنی چیئرمین پی سی بی اور چیئرمین پاکستان سپر لیگ ان کے حوالے کردیں، قلم دانوں میں سیاہی بھرنا ان کا کام
بڑی ہی دلچسپ صورت حال اس وقت دیکھتا ہوں جب صحافی نجم سیٹھی اور صحافی شکیل شیخ کے ہوتے ہوئے میڈیا کے لیے قزافی سٹیڈیم کے دروازے بند دیکھتا ہوں، پچھلے دو سال سے پاکستان کے چوٹی کے سپورٹس جرنلسٹ باہر سڑکوں پر کھڑے ہوکر اپنے فرائض منصبی پورے کر رہے ہیں اور مزے کی بات وہ صحافی بولتے بھی نہیں، ان کی بولتی بند کرنے کی اندر خانے کوئی قیمت ہے تو مجھے اس کا پتہ نہیں مگر جس انداز میں لاہور میڈیا کام کر رہا ہے وہ تزلیل سے کسی طور کم نہیں، تو ذرا سوچیے اگر نجم سیٹھی پاکستان کرکٹ بورڈ میں مکمل طور پر قابض ہوگئے تو کھیلوں کے صحافی اپنے ساتھ کیا سلوک دیکھیں گے، آج وہی صحافی سڑک پر ہے کہ جس کی شب و روز محنت سے پی ایس ایل ون ایک پروڈکٹ بنی مگر پی ایس ایل ٹو میں پی ایس ایل کو پراڈکٹ بنانے والے صحافی محض منہ دیکھتے رہ گئے جبکہ صحافیوں کو استحصالی صورت حال سے دوچار کرنے والے صحافی مزے میں نظر آئے
خیر ذکر چھڑا ہوا تھا پی سی بی اے جی ایم جو ہر سال ہوتی ہے اور آئندہ برس بھی ایک دن کے لیے ہوا کرے گی جب پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ کے بڑے بڑا کھانا کھا کے اور واہ واہ کرکے چلتے بنیں گے، ظاہرا کہا جا سکتا ہے کہ نجم سیٹھی نے جنرل ر ضیاء کے ریفرنڈم کی طرز کی قرار داد پیش کرکے چیئرمین شپ کی راہ ہموار کر لی ہے، مگر کچھ مضبوط تعلقات رکھنے والوں کا دعوی ہے کہ پرویز رشید کے نام کو ایزی نہ لیا جائے وہ ابھی تک چیئرمین کی ریس میں ہیں، ایک صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ تابی میاں اس بار چیئرمین پی سی بی محض وزیر اعظم کی مرضی کا نہیں ہوگا بلکہ کچھ اور لوگوں سے بھی صلاح مشورہ لیا جائے گا اور اگر ان کی صلاح کارگر گئی تو نجم سیٹھی اینڈ کو کی خواہشات کا طیارہ اگست میں منہ کے بل ایسے ہی آن گرے گا جیسے اگست میں ہی جنرل ر ضیاء کا طیارہ بہاولپور کے صحرا کی نظر ہوگیا تھا
اپنی رائے کا اظہار کریں