عبدالستار ایدھی: ایک خاموش انسانیت دوست اور انسانیت کے سچے خادم
عبدالستار ایدھی، جنہیں دنیا بھر میں انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار مانا جاتا ہے، ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ غریب، بے سہارا اور نادار انسانوں کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ ایدھی صاحب کی شخصیت اتنی عظیم تھی کہ ان کے کام، کردار اور حُسن اخلاق کی گواہی خود اُن کے عمل نے دی، نہ کہ کوئی خطابت یا لفاظی۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھے جو بولنے کے بجائے اپنے اعمال سے دنیا کو پیغام دیتے ہیں۔
ایدھی صاحب کی زندگی کا ایک بڑا حصہ ان کی خاموشی اور عاجزی میں گزرا، لیکن ان کا ہر عمل انسانیت کی خدمت کا ایک نیا معیار قائم کرتا رہا۔ یتیم بچوں سے حُسن سلوک اور بے سہارا لوگوں کے لیے ان کی محبت و مدد کو کبھی بھی محض خیرات یا صدقہ نہیں سمجھا گیا، بلکہ یہ ان کے دل کی گہرائیوں سے پھوٹنے والی انسانیت کی محبت کا اظہار تھا۔ وہ یتیم بچوں کے لیے ایک شفیق باپ کی طرح تھے، جو نہ صرف ان کی مالی مدد کرتے تھے بلکہ ان کے جذباتی اور نفسیاتی سہارے کے طور پر بھی کھڑے رہتے تھے۔
عبدالستار ایدھی: خطابت کے بغیر انسانیت کی خدمت کا سفیر
ایدھی صاحب کی زندگی کا ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ وہ تقریریں کرنے کے عادی نہیں تھے۔ ان کا فنِ خطابت سے کوئی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ بڑے بڑے مجمعوں میں کھڑے ہو کر لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے بلند بانگ دعوے کرتے تھے۔ بلکہ ان کی شخصیت کا خاصہ یہ تھا کہ انہوں نے ہمیشہ خاموشی سے کام کیا۔ ان کی خدمات کسی اشتہار یا شہرت کی محتاج نہیں تھیں، کیونکہ ان کے ہر عمل میں اخلاص تھا۔
وہ انسانوں کے لیے اپنی محبت کا اظہار ان الفاظ میں نہیں کرتے تھے جو بہت سے لوگ بڑے فخر سے کرتے ہیں، بلکہ ان کے ہر عمل میں ایک سچائی اور خلوص تھا جو بولے بغیر ہی بہت کچھ کہہ دیتا تھا۔ ایدھی صاحب کا یہ عمل اس دور کے ان لوگوں کے لیے ایک بہترین مثال تھا جو بولتے بہت ہیں مگر کرتے کچھ بھی نہیں۔ ان کے اعمال ان کی زبان بن گئے تھے، اور یہی اُن کی سب سے بڑی خصوصیت تھی۔
یدیم بچوں سے محبت: ایک شفیق باپ کی طرح
ایدھی صاحب نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ یتیم بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش میں گزارا۔ انہوں نے یتیم بچوں کو کبھی بھی بوجھ نہیں سمجھا، بلکہ ان کے لیے اپنے دل میں ایک خاص مقام رکھا۔ وہ انہیں اپنی اولاد کی طرح پیار دیتے اور ان کی ضروریات کا پورا خیال رکھتے تھے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے یتیم خانے میں ہزاروں بچے رہتے ہیں، اور ان بچوں کو وہ ماحول دیا گیا جہاں وہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور جذباتی طور پر بھی نشوونما پاسکتے ہیں۔
ایدھی صاحب نے ہمیشہ اس بات کو ترجیح دی کہ ان بچوں کو معاشرے کا مفید شہری بنایا جائے۔ ان کے لیے تعلیم کا اہتمام کیا گیا، ان کی صحت کا خیال رکھا گیا، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ یتیم بچوں کے لیے ان کی محبت اس حد تک گہری تھی کہ وہ انہیں اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے تھے۔
ایک سادہ انسان: مال و دولت سے بے نیاز
عبدالستار ایدھی کی زندگی کا ایک اور حیرت انگیز پہلو ان کی سادگی اور عاجزی تھی۔ وہ ایک عام سے گھر میں رہتے تھے، سادہ کپڑے پہنتے اور کبھی بھی دولت یا دنیاوی چیزوں کی طرف نہیں لپکے۔ ان کے لیے سب سے بڑی دولت انسانیت کی خدمت تھی۔ ایدھی صاحب نے اپنی زندگی کے آخری دنوں تک اپنے ہاتھوں سے کام کیا، لوگوں کے ساتھ مل کر بیماروں کی دیکھ بھال کی، لاوارثوں کی تدفین کی اور بے سہارا لوگوں کو پناہ دی۔
ایدھی صاحب کی یہی سادگی ان کی زندگی کا ایک اہم پہلو تھی جو آج کے دور میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ ایک ایسے وقت میں زندہ رہے جب زیادہ تر لوگ دنیاوی دولت اور شہرت کے پیچھے بھاگ رہے تھے، لیکن ایدھی صاحب نے ان سب چیزوں سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد بنایا۔
مذہبی بہروپیوں کا رویہ: گفتار کے غازی
مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایدھی صاحب کو اپنے ہی معاشرے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ لوگ جو مذہب کے نام پر اپنی شناخت قائم کرتے ہیں، اور بڑے بڑے خطبے دیتے ہیں، انہیں ایدھی صاحب کی خدمات میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی تھی۔ ان مذہبی بہروپیوں کے لیے، ایدھی صاحب کی خاموش خدمت اور ان کا بے لوث عمل شاید ایک چیلنج تھا۔
یہ مذہبی بہروپیے، جو صرف گفتار کے غازی ہیں اور عمل سے خالی ہیں، ایدھی صاحب کو مسلمان تک ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ چونکہ ایدھی صاحب نے مذہبی تقریبات میں زیادہ حصہ نہیں لیا، یا روایتی طور پر مذہب کا اظہار نہیں کیا، اس لیے وہ ان کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ یہ ایک بہت بڑا تضاد ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔
اسلام اور انسانیت کا حقیقی پیغام
اسلام کا اصل پیغام محبت، بھائی چارہ اور انسانیت کی خدمت ہے، اور ایدھی صاحب نے اپنی پوری زندگی اسی پیغام کو عام کرنے میں گزار دی۔ انہوں نے کبھی بھی مذہب کو اپنے کام کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ ان کے لیے سب انسان برابر تھے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، قوم یا نسل سے ہو۔
اسلام میں خدمتِ خلق کو بہت اہمیت دی گئی ہے، اور یہی چیز ایدھی صاحب کی زندگی کا مقصد تھی۔ انہوں نے لوگوں کے دکھ درد کو بانٹنے، غریبوں کی مدد کرنے اور بے سہارا لوگوں کو سہارا دینے کو اپنی زندگی کا محور بنایا۔ اس عمل میں وہ کبھی بھی مذہبی تفریق یا تعصب کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کا یہ اصول تھا کہ ہر انسان کو محبت اور عزت دی جانی چاہیے، اور یہی چیز اسلام کا حقیقی پیغام ہے۔
عبدالستار ایدھی کا عالمی اعتراف
ایدھی صاحب کی خدمات کا اعتراف نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں کیا گیا۔ ان کی فاؤنڈیشن دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلاتی ہے، اور بے شمار لوگوں کو روزانہ اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ ان کی خدمات کا دائرہ صرف ایمبولینس سروس تک محدود نہیں، بلکہ ہسپتال، یتیم خانے، پاگل خانے اور بے سہارا لوگوں کے لیے پناہ گاہیں بھی ان کے قائم کردہ ادارے کی بدولت ممکن ہوئیں۔
ایدھی صاحب کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا، لیکن ان کے لیے سب سے بڑا انعام وہ دعائیں اور محبت تھیں جو انہیں عام لوگوں سے ملتی تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ کہا کہ انہیں کسی ایوارڈ یا شہرت کی ضرورت نہیں، ان کے لیے لوگوں کی خدمت ہی سب سے بڑی دولت ہے۔
ایدھی صاحب کی میراث: ایک مستقل تحریک
عبدالستار ایدھی کی وفات کے بعد بھی ان کا کام جاری ہے۔ ان کی فاؤنڈیشن اب بھی لاکھوں لوگوں کی خدمت کر رہی ہے، اور ان کی بیوی بلقیس ایدھی اور بیٹے فیصل ایدھی اس عظیم مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایدھی صاحب نے ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد صرف اور صرف انسانیت کی خدمت ہے، اور یہی وہ میراث ہے جو آج بھی زندہ ہے۔
ایدھی صاحب نے اپنی زندگی میں جس سچائی اور خلوص کے ساتھ کام کیا، وہ ایک مثال ہے جسے دنیا کبھی بھول نہیں سکتی۔ ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، اور ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
نتیجہ: انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار
عبدالستار ایدھی کی زندگی ایک روشن مثال ہے اس بات کی کہ انسانیت کی خدمت کے لیے بڑی باتیں کرنا ضروری نہیں، بلکہ خلوص اور محبت سے کام کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ ان کی سادگی، عاجزی، اور انسانیت کے لیے ان کی بے لوث محبت نے انہیں دنیا کے عظیم ترین لوگوں میں شامل کر دیا۔ ایدھی صاحب نے دنیا کو یہ سکھایا کہ حقیقی دین اور انسانیت کیا ہے، اور ان کی یہ تعلیمات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
ایدھی صاحب کا سفر ہمیشہ ہمیں یاد دلاتا رہے گا کہ دنیا میں انسانیت کی خدمت کرنے والے لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، چاہے وہ دنیاوی مال و دولت کے مالک ہوں یا نہ ہوں۔ ایدھی صاحب کی زندگی کا پیغام یہ ہے کہ محبت، اخلاص، اور خدمت کے ذریعے ہم دنیا کو بہتر بنا سکتے ہیں، اور یہی وہ سبق ہے جو ہمیں ہمیشہ ان کی یاد میں قائم رکھے گا۔
اپنی رائے کا اظہار کریں