اظہر علی – ٹیکو لگائے رکھنا
سنو اظہر علی اجرتی ناقدین اور اینکرز کے سامنے مت جھکنا، سنو جس نے بھی ان کو ریٹرن ٹکٹ دیے، فائیو سٹارز ہوٹلز میں ٹھہرایا اور دیگر لوازمات پیش کیے، وہ میڈیا پر تو ہیرو بن چکے ہیں مگر ان کی کارکردگی پر خود گراونڈ ہنستی نظر آتی ہے اور جو ٹیم سے باہر ہیں وہ ان کو نوازنے کی بجائے اپنی سمت درست رکھتے تو آج سرکس کرکٹ المشہور لیگ کرکٹ کے ساتھ ساتھ قومی کرکٹ ٹیم میں جگمگا رہے ہوتے کیونکہ وہ نہیں جانتے اجرتی اور دیہاڑی دار میراثیانہ صحافت کرنے والوں کو آئے دن ایجنڈے ملتے رہتے ہیں، اب وہ کہاں چند ہی کھلاڑیوں پر اکتفا کرنے والے ہیں، ان کو خوش رکھنے والے کھلاڑی اور عہدیدار جان چکے ہیں کہ ان کا پیٹ بحیرہ عرب سے بھی بڑا ہے، یاد رکھنا پاکستان واپسی پر یہی صحافت کے نام پر کلنک کے ٹیکے تمھیں اپنے شو کا مہمان بنانے کے لیے چھ چھ دن لاہور بیٹھے رہیں گے، مگر مصباح الحق کی طرح ان کو خالی ہاتھ ہی واپس بھیجنا اور تمھارا انکار ان کی پیٹھ میں درد ناک ٹیکے سے کم نہ ہوگا
سنو اظہر جو علم تم کو مصباح الحق سونپ کر جارہے ہیں اس کا وقار گرنے نہ دینا، اس کو اپنے بیٹ سے سربلند رکھنا، اپنے بیٹ کے ہینڈل کو ٹیکہ بنائے رکھنا اور اجرتی ناقدین کو ٹیکو لگائے رکھنا، مجھے یقین ہے کہ ان سے نپٹنے کے لیے تم مصباح الحق یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر چکے ہوگے، مصباح الحق کو مشعل راہ بنائے رکھنا کامیابیاں تمھارے قدم چومتی رہیں گی اور صحافتی کھمبیاں پھوٹتی رہیں گی ان کو کچلتے رہنا اور ٹیکو لگائے رکھنا
ہاں اس تصویر کی طرح سینہ تان کر رکھنا یہ اپنی موت آپ مر جائیں گے، ہاں یوں دانت دکھاتے رہنا پھر یہ ٹی وی پر کپکپاتے دانتوں کے ساتھ تمھاری تعریف کرتے نظر آئیں گے – تمھارے انکار کے بعد یہ لوگ نجم سیٹھی صاحب تک کو بولیں گے اظہر علی سے پچاس منٹ لے دیں مگر مصباح الحق کی طرح سیٹھی صاحب کے پروگرام میں تو آجانا مگر اجرتی ناقدین کو ریڈ کارڈ ہی دکھانا، اپنے پروگرام کی ریٹنگ کی خاطر یہ لوگ لاہور قلندرز کے دفتر میں بھی ڈیرے ڈال سکتے ہیں، مگر شکر ہے کہ وہاں ان سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے مرد قلندر عاقب جاوید موجود ہے، میں اس دن صحافت چھوڑ دوں گا جس دن اجرتی صحافی عرف اللہ معافی ایک کھلاڑی یا پی سی بی عہدیدار پر معیوب اور غیر اخلاقی تنقید تو کریں ساتھ یہ بھی اعلان کریں کہ ان کی تنقید کی زد میں آنے والا کبھی بھی ان کے شو کا مہمان نہیں بن سکے گا
سنو تم آئے دن شائقین کرکٹ کی آنکھ کا تارا بنتے جارہے ہو، قومی کرکٹ ٹیم کو جس طرح بابر اعظم،اسد شفیق اور تم نے آس کی ایک نئی کرن دکھائی ہے وہ پاکستان کرکٹ کے روشن مستقبل کی دلیل بنتی جا رہی ہے، سٹار وہی ہوتا ہے جو ٹی وی کمرشلز کی بجائے گراونڈز میں ناظرین و حاضرین کا دل جیت لے سو یہ سلسلہ جاری رکھو، میں جانتا ہوں کہ بیٹنگ نمبر میں تمھاری اکھاڑ پچھاڑ بھی ان اجرتی ناقدین کی سازشوں کا حصہ ہے مگر تم نے وہ کر دکھایا جو صرف جنٹیلمین کرکٹرز کے حصے میں آیا
آخر میں ان اجرتی ناقدین سے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ جو قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہ چکے ہیں کہ انہوں نے ایسی داد اپنی زندگی میں کتنی بار حاصل کی جتنی اس تصویر میں آسٹریلوی تماشائی اظہر علی کو دے رہے ہیں، کتنی بار ڈبل سنچری کی؟ کتنی بار ایک اننگ میں پانچ کھلاڑیوں کو آوٹ کیا؟ کتنی بار مین آف دی میچ اپنے نام کیا؟ کب پاکستان کو ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر لے کر آئے؟ آپ لوگوں کو آج پی سی بی نوکری دے دے آپ مصباح الحق اور اظہر علی کے پیچھے ایسے پھرو گے جیسے بکری کے پیچھے میمنے
چلتے چلتے ان اجرتی صحافیوں کو مطلع کرتا چلوں کہ جو اچانک صحافی بن گئے اور اب ان کے پاس کھیلوں کے اداروں اور کھلاڑیوں کا دیا بہت کچھ ہے کہ کبھی آپ کو ان القابات کا اندازہ ہوجائے جو آپ کے کفیل عہدیدار اور کھلاڑی آپ کے بارے میں آپ کی عدم موجودگی میں کہتے ہیں تو شاید آپ کے چہرے پر خوشامدی ہنسی کی بجائے تفکر آ جائے مگر آپ کو تو تفکر ہوتا ہے کہ آج کس کو ذبح کرنا ہے، کس کی تزلیل کرکے کس سے داد وصول کرنی ہے
میں کہتا ہوں صحافت صحیفے سے نکلی ہے اور آپ کہتے ہیں ارے احمق وظیفے سے نکلی ہے، عزت مآب میرا اس دن ڈوب مرنے کو جی کر رہا تھا جب ایک افتتاحی بلے باز نام لے کر کہہ رہا تھا کہ اچھا وہ
وہ تو میرے پینتیس ہزار کی مار ہے
اپنی رائے کا اظہار کریں