قومی کرکٹرز کے بے لگام رویے اور ملکی جگ ہنسائی – کرکٹ بورڈ کو سخت فیصلے لینا ہونگے
عظیم امریکی باسکٹ بال لیجنڈ مائیکل جارڈن نے کہا تھا کہ ٹیلنٹ سے آپ گیم جیت سکتے ہیں لیکن ذہانت اور ٹیم ورک سے آپ چیمپئن شپ جیت سکتے ہیں ،،،،،
آپ اچھے کھلاڑی ہو سکتے ہیں ،، لیکن ایک بہترین اور عظیم کھلاڑی ہونے کیلئے بہترین انسان ہونا بھی شرط ہے۔ لیکن مجھے اپنا قلم افسوس کی روشنائی میں ڈبو کر لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے اچھے کھلاڑی اچھے انسان کب بنیں گے؟ کب انہیں بلا کسی حیل و حجت ، بلا کسی تنقید و اعتراض کے عظیم کہا جا سکے گا؟ یا یوں ہی کہہ لیا جائے، ’’ہمارے کھلاڑی حقیقت میں کب بڑے ہونگے‘‘
کرکٹ میں کینگروز اپنے جارحانہ اور بدتمیز رویوں کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہیں لیکن آج کینگروز کے دیس میں پریکٹس کے دوران فاسٹ باؤلر وہاب ریاض اور لیگ سپنر یاسر شاہ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس کو بین الاقوامی میڈیا نے خوب اچھالا اور ان کو اپنی تصاویر میں بھی محفوظ کر لیا۔ دو کھلاڑیوں کی معمولی تلخی نے پوری پاکستانی قوم اور پاکستانی کرکٹ کو خوب داغدار کیا۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ کھلاڑیوں نے آپس میں تلخ کلامی یا لڑائی جھگڑا کیا۔ ماضی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے بیشتر ایسے واقعات ملیں گے جن سے پاکستان کرکٹ ٹیم اور گرین شرٹس کی جگ ہنسائی ہو چکی ہے۔ سابق فاسٹ بالر شعیب اختر اور محمد آصف کی لڑائی، شعیب اختر کی کوچ باب وولمر سے لڑائی،،سابق کپتان انضمام الحق کا یونس خان سے جھگڑا ہو یا پھر سابق کپتان شاہد آفریدی کی جانب سے کوچ جاوید میانداد اور وقار یونس سے تلخ جملوں کے تبادلے ہوں، گرین شرٹس نے ملک کی جگ ہنسائی کے ہر موقع کو غنیمت جانا اور خوب مزاق بنایا۔
کھلاڑی قوموں اور ملکوں کے سفیر ہوتے ہیں لیکن المیے کی بات ہے کہ کروڑوں میں سے منتخب ہونے والے چند کھلاڑیوں کو جب گرین شرٹس پہننے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے تو وہ اپنا مقام فراموش کر دیتے ہیں۔ یہ کھلاڑی بھول جاتے ہیں کہ بین الاقوامی میڈیا، مبصرین اور شائقین انکی ایک ایک حرکت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ گراؤنڈ میں انکے کھیل کے انداز سے لیکر پویلین میں بیٹھنے اور ڈریسنگ رومز کے رویوں تک کا جائزہ لیا جا رہا ہوتا ہے۔ لیکن عزت اور شہرت کیلئے پڑنے والی روشنیوں کی چکا چوند اکثر بھلا دیتی ہے کہ وہ کسی قوم کے نمائندے، کسی ملک کے سفیر ہیں۔
پاکستان اور پاکستانی کرکٹ کو اسطرح کے واقعات سے داغدار کرنے میں جہاں انفرادی طور پر کھلاڑیوں کا ہاتھ ہے وہیں کرکٹ بورڈ بھی برابر کا قصور وار ہے۔ کرکٹ بورڈ ایسے کھلاڑیوں کے ان واقعات کا سختی سے نوٹس نہیں لیتا جس سے کھلاڑی خود کو بورڈ ، قوم اور ملک سے بڑے سمجھنے لگتے ہیں۔ انہیں گمان ہونے لگتا ہے کہ وہ جو مرضی کریں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آسٹریلین کرکٹ بورڈ کا وہ فیصلہ مثالی ہے جب اینڈریو سائمنڈز جو اسوقت آسٹریلین ٹیم کے اہم رکن اور آل راؤنڈر کے طور پر کھیل رہے تھے نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کی تو کرکٹ آسٹریلیا نے انکو ٹیم سے ایسا باہر کیا کہ وہ واپس ٹیم میں جگہ ہی نہ بنا سکے اور بد نظمی کے باعث اپنا باقی ماندہ کیریئر ضائع کر بیٹھے۔
شاہد آفریدی کی لیجنڈ جاوید میانداد سے بدتمیزی ہو یا لاڈلے شعیب اختر کی جنوبی افریقی کوچ باب وولمر سے بد تہذیبی، پاکستان کرکٹ ٹیم میں ایسے واقعات ہوتے رہے لیکن لاڈلے کھلاڑیوں کو کبھی کسی نے لگام نہ ڈالی۔ کھلاڑیوں کے انفرادی رویوں اور بورڈ کی سرد مہری کے علاوہ بھی اسکی ایک اور وجہ ہے۔ اچھی کرکٹ پر جن کھلاڑیوں کو منتخب کر لیا جاتا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق متوسط اور معمولی گھرانوں سے ہوتا ہے۔ ان کھلاڑیوں کی ملکی اور غیر ملکی کرکٹ، طرز گفتگو، رہن سہن اور آداب کے حوالے سے تربیت نہیں ہو پاتی جسکے باعث یہ کھلاڑی اپنے رویوں میں متناسب نہیں ہو پاتے اور نتیجہ کسی نہ کسی جگ ہنسائی کی صورت نکلتا ہے۔ پی سی بی کے چئیرمین شہریار خان اور قومی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق بھی بارہا اپنی گفتگو میں تربیت کے اس میکنزم کے فقدان پر بات کر چکے ہیں۔ کرکٹ کے سنجیدہ حلقے بھی قومی کھلاڑیوں کی عالمی سطح پر کھیل سے قبل تعلیم و تربیت پر زور دیتے رہے ہیں۔
پاکستانی ٹیم کے بہت سے کھلاڑیوں کے بگڑے رویوں کی ایک وجہ بورڈ چئیرمینز کی جانب سے کھلاڑیوں کی بے جا طرفداری اور ناز نخرے اٹھانا بھی ہے۔ اسکی ایک مثال سابق چیئرمین لیفٹینینٹ جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیا ہیں ، جنہوں نے شعیب اختر کے وہ ناز نخرے اٹھائے جو کسی اور کھلاڑی کو نصیب نہ ہوئے۔ شاہد آفریدی کے معاملے میں موجودہ چئیرمین کا رویہ بھی اسکی ایک مثال ہے جنہوں نے دو سال قبل شاہد آفریدی کو میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے صرف ذاتی پسند پر پاکستان ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا دیا۔ کھیلوں میں میرٹ کا جب یہ حال ہو گا تو ہمارے کھیلوں کی حالت بھی ویسی ہی ہو گی اور ہمارے کھلاڑیوں کے رویے بھی اتنے ہی بے مہار ہونگے۔ کرکٹ بورڈ کو سزا جزا کے نظام میں ذرا سختی سے کام لینا ہو گا، معمولی جرمانوں سے کھلاڑیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نطم و ضبط کے نظام میں سختی لانا ہو گی، کھلاڑیوں کو باور کرانا ہو گا کہ پاکستان اور پاکستانی کرکٹ انکے رویوں سے کہیں بالاتر ہے۔ یہی نہیں، کرکٹ بورڈ کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں موجود مدثر نذر اور خاص طور پر وقار یونس اور عاقب جاوید جیسے کوچز کی اہلیت اور تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
بطور سپورٹس مبصر اور رپورٹر میں اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں رکھتا کہ کھلاڑیوں کے کھیل کی بہترین کوچنگ کے ساتھ ساتھ انکے مزاج اور رویوں کی تراش خراش کی ذمہ داری بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کو لینی چاہیے۔ بورڈ کو چاہیے کہ ایسے کھلاڑیوں کی تربیت انڈر 16 سے انڈر 19 اور پھر اے ٹیم تک مکمل کر لی جائے تاکہ قومی ٹیم میں منتخب ہونے سے قبل کھلاڑی مکمل طور پر میچور ہو چکا ہو۔ اس کے بعد وہ دنیا میں جہاں بھی کھیلے، جسکے ساتھ بھی کھیلےاسکا رویہ اسکی شناخت کا سبب بنے کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا کھلاڑی ہے۔ ورنہ انٹرنیشنل کرکٹ کے ساتھ ساتھ ہماری جگ ہنسائی کا سلسلہ یونہی جاری رہے گا۔
اپنی رائے کا اظہار کریں