برباد عالم- فواد عالم، نظر و نیاز – وہاب ریاض – کارکردگی کا قیمہ،اعزاز چیمہ
ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ 2018 اپنے اختتام کو پہنچا جس میں پاکستان کی ٹیم کوئی خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی اور سپر فور کے تین میں سے صرف ایک ہی میچ میں کامیابی حاصل کر سکی۔ ایشیا کپ کے بعد اب پاکستان کی ٹیم کا اگلا امتحان متحدہ عرب امارات میں ہی آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں ہے جس کے لیے پاکستان کی سترہ رکنی ٹیم کا اعلان کر دیا گیا ہے اور محمد عامر کو ان کی حالیہ مایوس کن کارکردگی کی بنا پر ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔
سلیکشن کمیٹی کی طرف سے اعلان کردہ ٹیم کے ناموں کو دیکھ کر ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارمنس دینے والے بہت سے کھلاڑیوں کے لیے میرے دل سے آواز نکلی کہ کاش ہم بھی چیئرمین سلیکشن کمیٹی کے بھتیجے ہوتے تو ہماری بھی کارکردگی کو سراہا جاتا۔ سلیکشن کمیٹی کی طرف سے اعلان کردہ سترہ رکنی ٹیم کو اگر دیکھا جائے تو ایسے محسوس ہوتا ہے ایک دفعہ پھر بہت سے کھلاڑیوں کو صرف اور صرف ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر منتخب کیا گیا ہے اور بہت سے ایسے کھلاڑیوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔
سب سے حیران کن انتخاب میرے نزدیک وہاب ریاض کا ہے جن کو تقربیا ایک سال پہلے کوچ اور کپتان نے یہ کہہ کر ٹیم میں شامل کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ اب کسی کام کے نہیں اور اب ایک سال بعد ان کو بغیر کسی کارکردگی کے اور ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی پرفارمنس کے ان کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے جو کہ حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیم کے انتخاب پر بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑ تا ہے۔ میرے خیال میں وہاب ریاض کو ٹیسٹ ٹیم میں شامل کرنا ان نوجوان کھلاڑیوں سے ناانصافی ہے جو ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں ویسے میرا کپتان ، کوچ اور خاص طور پر انضمام الحق سے سوال ہے کہ اگر وہاب ریاض ڈومیسٹک کرکٹ میں بغیر کسی کارکردگی کے ٹیم میں شامل ہو سکتا ہے تو اعزاز چیمہ کیوں نہیں جو کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں وکٹوں کے ڈھیر لگا رہا ہے یا پھر یہ نظر کرم صرف اور صرف چند خاص لوگوں کے لیے ہے ؟
اگر ہم پاکستان کی سترہ رکنی ٹیم کا جائزہ لیں تو اس میں پانچ فاسٹ باؤلرز دو لیگ سپینرز اور ایک آف سپنیر باؤلر شامل ہیں ۔ متحدہ عرب امارات کی وکٹوں کو آسٹریلیا کی ٹیم کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ فاسٹ باؤلرز کا ٹیم میں شامل ہونا حیرت انگیز ہے جب کہ سپن بولنگ کے شعبے میں یاسر شاہ کے ساتھ دوسرے لیگ سپینر شاداب خان کی شمولیت بھی حیران کن ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں کھیلے گئے ایشیا کپ میں ان کی کارکردگی کوئی خاص نہیں رہی اور اچھا ہوتا اگر ان کو ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کا مشورہ دیا جاتا۔ اگر آف سپنیرز کی بات کی جائے تو پاکستان کی طرف سے تین ون ڈے کھیلنے والے 33 سالہ بلال آصف کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے میرے خیال میں بلال آصف سے بہتر اور اچھے کھلاڑی جو ڈومیسٹک میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں ان کی جگہ شامل ہو سکتے تھے جن میں سے کاشف بھٹی ایک ہیں جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے
ایشیا کپ کے اختتام پر سرفراز احمد نے پریس کانفرنس میں کہا کہ سلیکشن کمیٹی کو چاہیے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی پرفارمنس دکھانے والے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل ہونا چاہیے مگر حقیقت میں سرفراز احمد اور کوچ مکی آرتھر خود ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل نہیں کرنا چاہتے جو ڈومیسٹک میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں اور فواد عالم اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ آج تک سرفراز احمد، کوچ مکی آرتھر اور سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے کے باوجود فواد عالم کیوں ٹیم کا حصہ نہیں بن رہے اگر فواد عالم کے ساتھ ڈسپلن کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کو میڈیا کے سامنے کیوں نہیں لایا جاتا یا پھر اس کے علاوہ اگر کوئی اور وجہ ہے تو وہ کیوں نہیں بتائی جاتی اگر ایسی کوئی بات نہیں تو پھر ان کو ٹیم میں کیوں شامل نہیں کیا جا رہا آخر ان کا قصور کیا ہے؟ اس وقت پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ ٹیم میں بائیں ہاتھ سے سپن بولنگ کرنے والے بولر کی بھی ضرورت ہے جس کو فواد عالم آسانی سے پر کر سکتےہیں مگر کیا کریں پاکستانی منجمنٹ کا اور کپتان کا جو ہر ہارنے والے میچ کے بعد رو کر سچے ہو جاتے ہیں مگر کھلاڑیوں کے ساتھ ناانصافی کرنا بند نہیں کرتے۔ کیا فوادعالم کا صرف یہ قصور ہے کہ وہ بورڈ کے ملازمین کے رشتے دار نہیں؟
انضمام الحق نے امام الحق کو ٹیم میں شامل کیا تو ان کو بہت سی باتیں سننا پڑی لیکن انہوں نے کسی کی بات پر دھیان نہ دیا اور پھر امام الحق نے بھی اپنی کارکردگی سے ناقدین کے منہ بند کروا دیے۔ کاش انضمام الحق یہ ہمت ان کھلاڑیوں کے لیے بھی دکھاتے جو سالوں سے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں مگر ان کو ٹیم میں شامل نہیں کیا جا رہا۔ انضمام الحق صاحب پاکستان سپر لیگ کی ایک فرنچائیز لاہور قلندرز سے بھی منسلک ہیں اور اس کے لیے وہ پاکستان کے کونے کونے میں جا کر کھلاڑیوں کی تلاش کر رہے ہیں جو کہ اچھی بات ہے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انضمام الحق پاکستان کرکٹ بورڈ سے بھی بھاری بھرکم تنخواہ لیتے ہیں جو میرے خیال میں لاہور قلندرز سے ملنے والی تنخواہ سے یقینا زیادہ ہو گی مگر آج تک انضمام الحق نے پاکستان کی ٹیم کے لیے اس طرز کے ٹیلنٹ کو تلاش کرنے کے پروگرامزکا انقاد کیوں نہیں کیا۔ کیا آج تک انضمام الحق نے ڈومیسٹک کے میچز میں جا کر کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا ؟
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا باوا آدم ہی نرالا ہے پہلے وہ ان کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کی ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی اور پھر اس کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہمارے پاس ان سے بہتر کھلاڑی موجود نہیں تھے۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ٹیم کی سلیکشن کپتان اور کوچ نے ہی کرنی ہے اور اپنی مرضی سے کرنی ہے تو پھر سلیکشن کمیٹی ڈومیسٹک کرکٹ کا فائدہ ؟ اس سے بہتر ہے سلیکشن کمیٹی اور ڈومیسٹک کرکٹ پر خرچ ہونے والی رقم کا کہیں اور استعمال کیا جائے اور پاکستانی ٹیم کا نام تبدیل کر کے کچھ اور رکھ دیا جائے کیونکہ اس ٹیم میں دوست یاروں اور رشتے داروں کو تو بہت جلد جگہ مل جاتی ہے مگر جو ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں ان کا حال فواد عالم جیسا ہو جاتا ہے ۔پاکستان کی موجودہ بولنگ کو دیکھتے ہوئے مجھے نہیں لگتا پاکستان کی ٹیم آسٹریلیا کی ٹیم کو آسانی سے شکست دے سکے گی ۔
اپنی رائے کا اظہار کریں