Share on Pinterest
There are no images.
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں






پیغام بھیجیں
More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں






پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس

ویرات کوہلی اور بابر اعظم کا موازنہ چھوڑ دیں، کوہلی بہت آگے ہیں

ویرات کوہلی اور بابر اعظم کا موازنہ چھوڑ دیں، کوہلی بہت آگے ہیں
آفتاب تابی
آفتاب تابی

کرکٹ کا کھیل ہمیشہ سے ہی موازنوں کا شکار رہا ہے۔ سچن ٹنڈولکر اور رکی پونٹنگ کے دور سے لے کر آج تک، ہر نسل کے کھلاڑیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا کر کے ان کے قد کاٹھے ناپے جاتے رہے ہیں۔ لیکن جب بات آتی ہے ویرات کوہلی اور بابر اعظم کی، تو یہ بحث ایک نئے سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ دونوں اپنی اپنی ٹیموں کے “چیزیٹا” ہیں، دونوں کی بیٹنگ میں حُسن ہے، اور دونوں کی فنی مہارت کو سمجھنے کے لیے کرکٹ کے علم کی گہرائی درکار ہے۔ مگر کیا واقعی ان دونوں کا موازنہ کرنا منطقی ہے؟ کیا یہ موازنہ کرکٹ کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہے؟ آئیے، اس بحث کو ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہیں۔

ویرات کوہلی نے 15 سال سے زائد عرصے تک بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے 2011 کا ورلڈ کپ جیتا، 2013 کا چیمپئنز ٹرافی فائنل میں پاکستان کے خلاف تاریخی پرفارمنس دی، اور ٹیسٹ کرکٹ میں بھارت کو نمبر 1 پوزیشن تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف، بابر اعظم کا کیریئر ابھی 5-6 سال پر محیط ہے۔ وہ ایک شاندار کھلاڑی ہیں، لیکن انہیں ابھی بڑے ٹورنامنٹس میں مستقل مزاجی ثابت کرنی ہے۔

کوہلی نے اپنا پورا کیریئر بھارتی میڈیا اور 1.4 ارب لوگو کی توقعات کے سائے میں گزارا ہے۔ ہر اننگز پر لاکھوں لوگوں کی نظریں، ہر ناکامی پر تنقید کا طوفان، اور ہر کامیابی پر دیوتا جیسا درجہ۔ یہ دباؤ بابر اعظم کے تجربے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ پاکستان میں بھی میڈیا شدید ہے، لیکن بھارت کا پیمانہ الگ ہے۔

کوہلی نے ٹیسٹ، ون ڈے، اور T20 تینوں فارمیٹس میں اپنی طاقت ثابت کی ہے۔ ان کے پاس 70 سے زائد بین الاقوامی سنچریاں ہیں، جو کسی بھی جدید دور کے بلے باز کے لیے خواب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بابر اعظم ٹیسٹ اور ون ڈے میں تو شاندار ہیں، لیکن T20 میں انہیں ابھی مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔

کسی بھی کھیل میں “عظیم” کا خطاب پانے کے لیے صرف ہنر کافی نہیں ہوتا۔ اس کے لیے مستقل مزاجی، جذبہ، اور تبدیلی کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ ویرات کوہلی نے یہ تینوں خوبیاں اپنے خون میں شامل کر لی ہیں۔

ون ڈے کرکٹ میں 50 اوسط کے ساتھ 13,000 رنز (صرف 267 میچوں میں)۔
ٹیسٹ کرکٹ میں 8,000 رنز اور 27 سنچریاں۔
T20 ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ۔
“کنگ کوہلی” کا خطاب صرف ایک لقب نہیں، بلکہ ان کی محنت کا ثمر ہے۔

کوہلی کی سب سے بڑی طاقت ان کا کھیل کے مشکل لمحات میں پورے اعتماد کے ساتھ کھڑے رہنا ہے۔ 2016 T20 ورلڈ کپ کا وہ میچ یاد کیجیے جب آسٹریلیا کے خلاف 82 رنز کی ضرورت تھی اور انہوں نے صرف 51 گیندوں پر ناٹ آوٹ 82 رنز بنا کر بھارت کو فتح دلائی۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ان کے کیریئر میں ایسی سینکڑوں اننگز ہیں جو دکھاتی ہیں کہ وہ “مشکل حالات کا بادشاہ” کیوں کہلاتے ہیں۔

کوہلی سے پہلے، بھارتی کرکٹرز کو “فٹنس کی کمی” کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنی سخت محنت سے نہ صرف اپنی ٹیم کو فٹنس کا معیار دیا، بلکہ پوری نسل کو متاثر کیا۔ آج ہر نوجوان کرکٹر ان کی طرز پر اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔

بابر اعظم بلا شک و شبہ پاکستان کرکٹ کی سب سے قیمتی دولت ہیں۔ ان کی بیٹنگ میں کلاس، ٹیم کے لیے وقار، اور مشکل حالات میں کھیلنے کا حوصلہ قابل تعریف ہے۔ انہوں نے 2021 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز جیتنے والی سنچری، یا 2022 T20 ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف ناقابل شکست 68 رنز جیسے کارنامے انجام دیے ہیں۔ مگر ایک اہم سوال یہ ہے: کیا وہ اب تک اپنے کیریئر کے عروج پر پہنچے ہیں؟ جواب “نہیں” میں ہے۔

بابر کو ابھی بھی بہت کچھ ثابت کرنا ہے:

ٹیسٹ کرکٹ میں بیرون ملک پرفارمنس۔

بڑے ٹورنامنٹس (جیسے ورلڈ کپ) میں مستقل کردار۔

موازنے فطری ہیں، لیکن جب ہم دو کھلاڑیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتے ہیں، تو ہم ان کی انفرادیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ویرات کوہلی اپنی جنگی ذہنیت، تکنیکی عمدگی، اور ریکارڈز کی بلندیوں کی وجہ سے ایک الگ لیجنڈ ہیں۔ بابر اعظم اپنی شائستگی، ٹیم کے لیے قربانی، اور نئی نسل کی امید کی علامت ہیں۔ دونوں اپنی جگہ منفرد ہیں۔

ویرات کوہلی صرف ایک کھلاڑی نہیں، بلکہ کرکٹ کی ثقافت کی علامت ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے کھیل کو بلکہ اپنی شخصیت کو بھی ایک “برانڈ” میں تبدیل کیا ہے۔ وہ ہر اس نوجوان کے لیے ایک مثال ہیں جو یہ سمجھتا ہے کہ محنت اور لگن سے خوابوں کو حقیقت بنایا جا سکتا ہے۔

لہٰذا، بابر اعظم اور ویرات کوہلی کا موازنہ کرنے کے بجائے، ہمیں دونوں کی انفرادیت کو سراہنا چاہیے۔ کوہلی اپنے کیریئر کے اختتام کے قریب ہیں، جبکہ بابر کا سفر ابھی شروع ہوا ہے۔ دونوں کو اپنے اپنے دور میں سراہا جانا چاہیے۔

اختتامی جملہ:
“کرکٹ کھلاڑیوں کی محبت میں ڈوبی ہوئی ایک کہانی ہے۔ اس کہانی کے ہر کردار کو اس کی انفرادیت کے ساتھ پڑھیں، کیونکہ ہر دور کا اپنا ہیرو ہوتا ہے

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں