کیا پاکستان کرکٹ بورڈ میں فیصلے کبھی میرٹ پہ ہوں گے؟
محسن نقوی جنہوں نے ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف شکست پہ کہا تھا کہ ٹیم کی بڑی سرجری کرنے کی ضرورت ہے پر وہ بھی ماضی کے چئیرمینز کی طرح ہی نکلے۔مجھے یاد ہے 2010 میں مرحوم اعجاز بٹ نے دورہ آسٹریلیا میں کئی کھلاڑیوں کی گروپنگ کی وجہ سے شکست پہ سرجری کی تھی پر تب بھی یوسف رضا گیلانی نے وزیر اعظم ہاؤس سے فون کیا اور سب کو کلئیر کروا دیا۔جب تک آپ ڈسپلن پہ کمپرومائز کریں گے جب تک آپ میرٹ پہ فیصلے نہیں کریں گے تب تک ایسی شکستیں آپکا مقدر بنتی رہیں گی۔ورنہ محسن نقوی صاحب کے وہاب ریاض جیسے تحفوں نے پاکستان کرکٹ کا کافی بیڑہ غرق کر دیا ہے جنہوں نے پانچ سال سے کرکٹ چھوڑے ہوئے محمد عامر اور ان فٹ عماد وسیم کو ورلڈ کپ جیسا ایونٹ کھلا دیا اور کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا،جب سسٹم یہ ہوگا تو آپ ورلڈ کپس تو نہیں جیت سکتے۔اس سے پہلے انضمام بھی اپنی من مانیاں کرتے رہے اور ٹیم بھارت میں فلاپ شو کے بعد واپس آئی پر ان سابق کرکٹرز اور موجودہ کرکٹرز کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔سابق کرکٹرز بورڈ سے جائیں گے تو کسی ٹی وی پہ بیٹھ کے پروگرام کر لیں گے،پھر بورڈ تبدیل ہوگا تو پھر بورڈ میں کسی عہدے پہ آجائیں گے اور ٹی وی پہ بیٹھ کے مثالیں راہول ڈریوڈ کی دیں گے جس کی ڈیڈیکیشن کو یہ لوگ پہنچ ہی نہیں سکتے۔ابھی بھی وقت ہے کرکٹ بورڈ اور کھلاڑی اپنے آپ کو درست کر لیں ورنہ کچھ سال میں پاکستان کرکٹ بھی ہاکی کی طرح بے حال ہو جائے گی اور بین الاقوامی ایونٹس میں کوالیفائی کرنا ہی ایک مسئلہ ہوگا جیسے پاکستان ہاکی ٹیم 2012 کے بعد تین اولمپکس میں کوالیفائی ہی نہیں کر سکی اور 2010 کے بعد ورلڈ کپ ہی نہیں کھیل سکی۔سوچیں اور ذرا ٹھنڈے ہو کے سوچیں۔
کیا پاکستان کرکٹ ٹیم دوبارہ اپنے پاؤں پہ کھڑی ہو سکتی ہے؟کیا پاکستان کرکٹ بورڈ میں فیصلے کبھی میرٹ پہ ہوں گے؟کیا پاکستان کرکٹ ٹیم میں کپتانی کی لڑائی کبھی ختم ہوگی؟اور اس آپسی لڑائی کی وجہ سے ہونے والے نقصان پہ پی سی بی کبھی ایکشن لے گا؟
یہ وہ سوال ہیں جو آج کل ہر پاکستانی کرکٹ فین کے ذہن میں ہیں اور وہ جب بھی کبھی کرکٹ پہ بات کرتے ہیں تو ایسی ہی گفتگو ہوتی ہے،لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتا پاکستان کرکٹ ٹیم کو بہتر کرنے کے لئیے کچھ بہتر فیصلے کریں،ابھی دو سال پہلے تک پاکستان کرکٹ ٹیم کی پرفارمنس دیگر کئی ٹیموں سے بہتر تھی،بابر اعظم بہتر طریقے سے پاکستان کرکٹ ٹیم کو لے کے چل رہے تھے،لیکن اچانک ایسا کیا ہوا کہ گذشتہ دو سال سے پاکستان کرکٹ ٹیم کا گراف دن بدن نیچے جا رہا ہے۔اسکی سب سے اہم وجہ میرٹ پہ فیصلے نہ کرنا ہے،سلیکشن میں من پسند کھلاڑیوں کو سلیکٹ کرنا ہے اور ٹیم گروپنگ کا شکار ہوئی اور پرفارمنس دن بدن نیچے جاتی گئی۔لیکن جب آپ ڈسپلن اور فٹنس پہ کمپرومائز کریں گے تو پھر نتائج ایسے ہی آئیں گے جو ٹیم کی موجودہ صورتحال ہے۔اس ٹیم کی گذشتہ کچھ سالوں میں سب سے بڑی پرفارمنس 2021 ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف ون سائیڈڈ میچ جیتنا تھا جو بابر اعظم اور محمد رضوان نے پہلے وکٹ کی شراکت میں 152 رنز کا ہدف حاصل کیا،لیکن اسی ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف شاہین آفریدی اور حارث رؤف کی ناقص باؤلنگ کی وجہ سے پاکستان جیتا ہوا سیمی فائنل ہار گیا،دبئی کے گراؤنڈ میں گذشتہ پندرہ سال میں سب سے زیادہ کرکٹ پاکستان نے کھیلی ہے لیکن اسکے باوجود پاکستان یہ ٹائیٹل نہ جیت سکی،پھر اسکے بعد دبئی اور سری لنکا میں ایشیا کپ،ایک ایشیا کپ کا فائنل کھیلا اور سری لنکا سے جیتا ہوا میچ ہار گئے،جبکہ سری لنکا میں ہونے والے ایشیا کپ میں پہلے راؤنڈ سے ہی باہر ہو کے ایک دفعہ پھر ندامت کا سامنا کرنا پڑا،2022 میں آسٹریلیا میں ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا لیکن اسی ایونٹ میں زمبابوے جیسی کمزور ٹیم سے شکست بھی کھائی۔اس ایونٹ میں بھی بھارت سے جیتا ہوا میچ ہارے جسکی وجہ مینٹلی طور پہ ٹیم کا کمزور ہونا نظر آیا اور ویرات کوہلی ون مین شو پرفارمنس دے کے اکیلا میچ چھین کے لے گیا۔2023 ورلڈ کپ میں بھارت میں ایک دفعہ پھر ناقص پرفارمنس دکھائی،اور ٹیم سلیکشن میں انتہائی غلط فیصلے دیکھنے کو ملے،امام الحق جو ٹیسٹ فارمیٹ کا پلئیر ہے اسکو ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ میں کھلایا،شاداب خان کو اپنا دس اوور کا کوٹہ پورا نہیں کر سکتا اسکو مسلسل کھلایا اور ایک دفعہ پھر ذلت آمیز شکستوں کا سلسلہ جاری رہا۔اور تو اور اس ورلڈ کپ میں افغانستان نے بھی پاکستان کی خوب دھلائی کی اور ایک اہم میچ میں پاکستان کو شکست دے کے ثابت کیا کہ جب فیصلے میرٹ پہ نہ ہوں تو پھر یہی مقدر بن جاتا ہے۔گذشتہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ سے پہلے آئرلینڈ کے خلاف سیریز میں بمشکل دو ایک سے کامیابی حاصل کی اس سیریز میں آئرلینڈ نے بھی ایک میچ جیت لیا۔اسکے بعد انگلینڈ کے خلاف سیریز میں دو صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا وہ تو بھلا ہو بارش کا جسکی وجہ سے دو میچز منعقد ہی نہ ہو سکے ورنہ رزلٹ چار صفر ہوتا۔لیکن ٹیم مینجمینٹ سلیکشن کمیٹی اور کپتان کی آنکھیں ابھی بھی نہیں کھلی تھی جہاں اعظم خان جیسے ان فٹ کھلاڑی کو پاکستان کھلا دیا گیا،شاداب جیسے آؤٹ آف فارم پلئیر کو مسلسل کھلایا گیا،دوسری جانب باؤلنگ میں شاہین آفریدی حارث رؤف شاداب خان کی جب پرفارمنس زیرو ہو گی تو ٹیم کیسے جیت سکتی ہے۔ان سب کو اکٹھا کر کے اور عماد وسیم اور محمد عامر کا اضافہ کر کے شہزادے ورلڈ کپ کھیلنے امریکہ چلے گئے،جہاں کھیل کی بجائے توجہ گھومنے پھرنے اور آدھی آدھی رات کیفیز میں گذارنے پہ رہی،تو پرفارمنس بھی تو پھر ایسی ہی رہنی تھی،ورلڈ کپ ہوسٹ کرنے کی وجہ سے امریکا یہ ایونٹ کھیل رہا تھا اور پاکستان امریکا جیسی نئی ٹیم سے بھی ایک میچ میں دو دفعہ شکست کھا گیا۔پہلے آخری اوور میں 14 رنز کھا کے حارث رؤف نے میچ برابر کروایا اور پھر محمد عامر نے سپر اوور میں 18 رنز کھا کے کمال کر دیا۔اور پھر بیٹنگ میں ایک دفعہ پھر کمال غلطی کی گئی لیفٹ آرم میڈیم پیسر کے سامنے فخر زمان کی بجائے افتخار احمد کو بھیجا گیا،اور آن ڈاؤن شاداب خان آئے۔مطلب وہ لوگ کھیلتے رہے جن کی ٹیم میں جگہ بھی نہیں بنتی تھی۔پھر پاکستان میں نیوزی لینڈ کی سی ٹیم کی جانب سے سیریز برابر کرنا،دورہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز میں شکست،چلیں آسٹریلیا میں تو آپ آخری ٹیسٹ 1995 میں جیتے تھے پرابھی حالیہ سیریز میں بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش نے ایک دفعہ پھر پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں،ٹیم مینجمینٹ سلیکشن کمیٹی اور بورڈ کے دیگر اعلٰی عہدیداروں کو جگانے کی کوشش کی لیکن اب بھی شائد وہ جاگیں یا نہیں ابھی تک کچھ سامنے نہیں آیا اور اس انتہائی شرمناک شکست کے بعد قوم اور کرکٹ شائقین کو نیشنل ون ڈے کپ کا لالی پاپ دیا گیا۔ایک ہی شہر میں ایک ہی گراؤنڈ میں پورا ٹورنامنٹ کروا کے کہا جا رہا ہے کہ اس ٹورنامنٹ سے نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا۔بھائی نیا ٹیلنٹ آپکو چاہئیے ہی نہیں،آپ کی رشتہ داریاں ختم ہوں تو پھر شائد کوئی نیا کھلاڑی کھیل جائے۔ورنہ کامران غلام اور طیب طاہر ،عبدالصمد تو کئی سال سے کھیل رہے ہیں اور پرفارم بھی کر رہے ہیں بس انکے پاس کوئی تگڑی سفارش نہیں کوئی چاچو چیف سلیکٹر نہیں،کوئی سابق کرکٹر سسر نہیں،ورنہ انکی سلیکشن بھی شائد ہو ہی جاتی۔اس ساری کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ پی سی بی کو ابھی بھی خیال نہیں آ رہا اور اب بھی ایک مخصوص سابق کرکٹرز کے گروپ کو مینٹورز کے نام پہ نوازا جا رہا ہے۔بنگلہ دیش کے خلاف ذلت آمیز شکست کے بعد آگے بھی تکلیف دہ دن آ رہے ہیں انگلینڈ کرکٹ ٹیم تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلنے پاکستان آرہی ہے وہ کیا کریں گے پاکستان کے ساتھ اسکا اندازہ گذشتہ پرفارمنسز سے لگایا جا سکتا ہے
۔پھر پاکستان نے نومبر میں آسٹریلیا کا دورہ کرنا ہے جہاں تین ایک روزہ اور تین ٹی ٹونٹی میچز کی سیریز کھیلنی ہے،اسکے بعد زمبابوے کا دورہ اور جنوبی افریقہ کا دورہ ہے اور ویسٹ انڈیز نے پاکستان کا دورہ کرنا ہے۔پھر جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ چیمپئینز ٹرافی سے پہلے پاکستان میں ٹرائی سیریز کھیلیں گے اور فروری مارچ میں چیمپئینز ٹرافی ہوگی۔اس پورے شیڈول میں ایک زمبابوے والی سیریز ہے جہاں مقابلے کی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی،ورنہ تو باقی ٹیمیں آپکے سامنے ہی ہیں اور اپنی ٹیم کا بھی ہم سب کو پتا ہے۔
جب تک فیصلے میرٹ پہ نہیں ہوں گے جب تک ان فٹ شاہین آفریدی،بغیر پرفارمنس کے شاداب خاں اور اایسے ہی بغیر پرفارمنس کے حارث رؤف جیسے ٹیپ بال کے کھلاڑی کھیلتے رہیں گے فرنچائزز اپنے پریشر سے کھلاڑی کھلاتی رہیں گی
اپنی رائے کا اظہار کریں