دوستی یاری زندہ باد , مکی آرتھر پائندہ باد
یشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ 2018 کے سپر فور مرحلے کے آخری میچ میں بنگلہ دیش کی ٹیم نے پاکستان کو 37 رنز سے شکست دی تو دل نے بے اختیار کہا کہ دوستی یاری زندہ باد مکی آرتھر پائندہ باد – 26 ستمبر کو کھیلے جانے والے اس میچ کو جیتنے والی ٹیم کا مقابلہ فائنل میں بھارت کے ساتھ ہونا ہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کی حالیہ پرفارمنس دیکھ کر کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ پاکستان کی ٹیم بنگلہ دیش کو ہرا دے گی اور فائنل میں بھارت کو بھی شکست دے دی گی ( سوشل میڈیا پر اس بات کا زیادہ چرچا رہا ) مگر میچ کے اختتام پر صورتحال بالکل مختلف رہی اور بنگلہ دیش کی ٹیم نے پاکستانی ٹیم کو یکطرفہ مقابلے کے بعد شکست دے دی ۔
اس پورے ٹورنامنٹ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم ایک ٹیم کم اور گیارہ کھلاڑی زیادہ لگے۔ سوائے شعیب ملک، بابر اعظم اور امام الحق کے کوئی بھی بیٹسمین اہم کارکردگی کا مظاہرہ نا کر سکا۔ دنیا کا بہترین بولنگ اٹیک سمجھے جانے والا بولنگ اٹیک بالکل ناکام رہا۔
جب سے سرفراز احمد کپتان بنے ہیں لگتا ہے وہ اپنے آپ کو کوئی بہت ہی بڑا کپتان سمجھنا شروع ہو گئے ہیں اور ان کا صرف ایک ہی کام رہ گیا ہے میدان میں کھلاڑیوں سے بدتمیزی کرنا اور میرٹ کا قتل عام کرنا۔ ان کی اپنی حالیہ کارکردگی کے بارے میں پہلے بھی میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں اس لئے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مگر جس طرح سے سرفراز احمد کپتان بنے کے بعد دوستی یاری نباہ رہے ہیں اور کوچ کے ساتھ مل کر ان کھلاڑیوں سے ناانصافی کر رہے ہیں جو ڈومیسٹک میں اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ کچھ سنئیر کھلاڑیوں کو جس طرح سے سائیڈ لائن کیا جا رہا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ بنگلہ دیش کے خلاف ہونے والےمیچ میں جس طرح سے شاداب خان نے بیٹنگ کی اور سارے میچ کا نقشہ تبدیل کر دیا اس کو دیکھنے کے بعد دل نے بے اختیار کہا “یہ دوستی ہم نا چھوڑیں گے بے شک ہم سب میچ ہی کیوں نا ہار جائیں”
شاداب خان،حسن علی اور محمد عامر کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے باوجود ٹیم کا حصہ ہونا اور حسن علی اور شاداب خان کا اپنے کھیل پر توجہ دینے کی بجائے فیشن ماڈلنگ پر توجہ دینا بہت سے سوال کو جنم دیتا ہے- کہا جاتا ہے کھبی کھبی انسان کے لئے شہرت اور کامیابی سنبھالنا بہت مشکل ہو جاتا ہے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے ۔اس وقت پاکستانی ٹیم میں صرف دو چار کھلاڑی ہی ایسے ہیں جو پاکستان کے لیے کھیلتے نظر آتے ہیں باقی سب پاکستان سے کھیلنے میں مصروف ہیں ۔
اس اہم میچ میں پاکستان کی ٹیم میں محمد عامر کی جگہ جنید خان کو شامل کیا گیا اور ان کی شاندار کارکردگی دیکھتے ہوئے دل نے بے اختیار کہا “بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے” جنید خان کی اس اہم میچ میں شاندار کارکردگی ٹیم منجمنٹ کے منہ پر طمانچہ سے کم نہیں جو ہمیشہ جنید خان کو قربانی کا بکرا بناتے ہیں اور شاندار کارکردگی کے باوجود کوچ مکی آرتھر اور کپتان سرفراز احمد ان کو ہمیشہ ٹیم سے باہر بٹھائے رکتھے ہیں ۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں ہمیشہ ان کھلاڑیوں کو جگہ اور اہمیت ملتی رہی ہے جو کپتان کے بہت قریب ہوں اور کپتان کے دوست ہوں۔ چاہیے وہ احمد شہزاد اور شاہد آفریدی کی دوستی ہو یا پھر موجود کپتان کی حسن علی اور شاداب خان سے –
جب انضمام الحق کو سلیکشن کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا اب کسی کھلاڑی سے کوئی ناانصافی نہیں ہو گی اور ہر اس کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کیا جائے گا جو ڈومیسٹک میں اچھی کارکردگی دکھائے گا۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ایسے محسوس ہو رہا ہے انضمام بھی مکی آرتھر اور … اور کپتان سرفراز احمد کے آگے بے بس ہیں اور ٹیم سلیکشن میں سارے کا سارا کردار صرف اور صرف کوچ مکی آرتھر کا ہے اور جو ان کی گڈ بکس میں اچھا وہ کارکردگی نا بھی دکھائے تو وہ ٹیم کا حصہ ہوں گے کیونکہ”پیا جسے چاہے وہ ہی سہاگن”
اگر ٹیم کی سلیکشن واقعی کارکردگی کی بنیاد پر ہوتی ہے تو پھر مجھ جیسے بہت سے ناقدین اس بات کا جواب جاننا چاہتے ہیں کہ فواد عالم کو اور اعزاز چیمہ کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے ۔ فواد عالم ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے کے باوجود ٹیم میں جگہ نہیں بنا پا رہے کیونکہ کوچ اور کپتان کے نزدیک وہ کوئی خاص کھلاڑی نہیں ۔ اگر کوچ اور کپتان کے نزدیک ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے والے کھلاڑی ٹیم میں شامل ہونے کے قابل نہیں اور ڈومیسٹک سیزن میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے کھلاڑیوں کی کوئی اہمیت نہیں تو پھر یہ ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈرامہ کیوں ؟
لگتا ہے سرفراز احمد بھی کپتان بننے کے بعد ان سب باتوں کو بھول گئے ہیں جن باتوں کا وہ پہلے ذکر کیا کرتے تھے ۔ اس وقت مکی آرتھر ون مین شو پیش کرتے نظر آتے ہیں اور ایسے لگتا ہے وہ پاکستان کی ٹیم کو اپنی گھر کی ٹیم سمجھ رہے ہیں یہاں پر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ مکی آرتھر کیا پاکستان کی ٹیم کے کوچ ہیں یا کسی سرکس کے اداکار جو صرف اور صرف اپنی ایکٹنگ سے تو دوسروں کو متاثر کر سکتے ہیں مگر اپنے منصوبوں سے اپنے ناقدین کو متاثر نہیں کر سکتے۔ مکی آرتھر کے قول اور فعل میں تضاد نظر آتا ہے اور سرفراز احمد بھی ان کے نقش قدم پر چلتے نظر آ تے ہیں کیونکہ
دوستی یاری زندہ باد۔
اپنی رائے کا اظہار کریں