باونسر – سے – نو – سر – تک
باؤنسر مارنے والا اگر طاقتور ہوتا ہے تو باؤنسر سہنے والا بھی کم ہمت والا نہیں ہوتا
پرانے وقتوں میں دیہاتوں میں کبڈی مقابلوں میں خاندانی پہلوان مخالف پہلوان کو نیچے گرانے کے بعد فتح کے لیئے اپنے ہاتھ بلند کرنے سے پہلے نیچے گرے ہوئے کو ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے
اور جواب میں شکست کھانے والے بھی جیتنے والے سے ہاتھ ملا کر اسے فتح کی مبارک باد دیتے
افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں پچھلی دو دہائیوں سے آہستہ آہستہ اعلی ظرفی اور برداشت کے روئیے ذندگی کے ہر شعبہ میں ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
کھیل کے میدانوں سے ایک امید کی کرن تھی اور بعض اوقات وہاں سے تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند کچھ مثبت پیغام ملتا تھا جس سے بچوں اور نوجوان نسل کو اچھا پیغام جاتا تھا لیکن اب وہاں بھی یہ روئیے ناپید ہو گئے ہیں۔
ساری تمہید لکھنے کی ضرورت پی ایس ایل کے کوئیٹہ گلیڈی ائیٹر اور لاہور قلندر کے میچ میں شاہین آفریدی اور سرفراز احمد کے جھگڑے کو دیکھ کر اور اس پر شور سن کر ہوئی۔
بقول شاہین آفریدی سرفراز کو باونسر کے بعد سرفراز نے مجھے معافی مانگنے کو کہا جس پر بات بڑھی
بقول سرفراز حارث روف نے شاہین کو کہا کہ اس کے سر پر باونسر مارو۔۔
پہلی بات تو یہ کہ سینئیر جونیئر کا فرق اور عزت احترام لازمی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے۔
عام طور پر جب بھی کوئی مخالف ٹیم کا کھلاڑی باونسر کراتا ہے اور وہ باونسر کھلاڑی کو جسم کے کسی حصہ پر لگتا ہے تو سب سے پہلے باؤلر اور کیپر بیٹسمین سے خیرئیت دریافت کرتے ہیں۔ باولر دو قدم مذید آگے بڑھ کر اس سے معذرت بھی کرتا ہے۔اس میں کوئی حرج نہیں۔اگر اس وقت بیٹسمین کچھ ناراضگی یا غصہ کا اظہار بھی کرے تو فیلڈنگ ٹیم کو اسے نظر انداز کر کے اگلی گیند کی تیاری کرنی چاہیئے۔
ایسا نہیں ہوا۔وجہ اس کی ایک نہیں ۔کئی وجوہات ہیں۔۔
لیکن پی سی بی جب بھی کوئی پلئیر گروم کر رہی ہوتی ہے تو باقی باتوں کے علاوہ اسے ان کھلاڑیوں کو میدان میں کھیلنے کی اخلاقیات و اداب بھی بتانے چاہیئں۔
سینئیر کا احترام اور جونئیر کا خیال رکھنے کی تاکید کرنی چاہیئے یہ تو اپنے ہی ملک کے کھلاڑی ایک دوسرے کے خلاف کھیل رہے تھے۔یہاں کیا انا اور کیا سبقت ؟ مخالف ملک بھی ہو تو رویہ بہتر رکھنا چاہیئے۔
پھر سرفراز سابق کپتان تھا ۔شاہین آفریدی کی ابھی اڑان بھرنے کی عمر ہے ادھر شاہین کی عمر میں سرفراز نے اس سے ذیادہ کامیابیاں سمیٹی تھیں۔ شاہین کو لازمی سرفراز سے معذرت کرنی چاہیئے تھی اس کی خیرئیت دریافت کرنی چاہیئے تھی۔
دوسری جانب محسوس ایسے ہوتا ہے کہ سرفراز کچھ عرصہ سے شدید اعصابی دباو کا شکار ہے۔کپتانی کے دور میں بھی سرفراز کی زبان کا مسئلہ تھا۔میدان میں کھلاڑیوں کی تضحیک اور اخلاق سے دوری اس کے لیئے نارمل تھی۔حسن اور سرفراذ کا بھی ماضی میں جھگڑا میدان میں سب نے دیکھا تھا۔اسی طرع میدان سے باہر حفیظ کے ساتھ بھی سرفراز کے پھنسے سینگ ہر کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے کو نظر آئے۔
اب اس کی ٹیم عروج سے زوال کی جانب گامزن ہے۔اس پر بحثیت کپتان دباو مذید بڑھ چکا ہے۔لیکن میدان میں بحثیت سینیئر دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ اس کا رویہ درگزر والا اور مشفقانہ ہونا چاہیئے۔فاسٹ باؤلر عموماً جذباتی ہوتا ہے۔وہ بیٹسمین کو نروس کرنے اسکی توجہ تقسیم کرنے کے لیئے جملے بھی کستا ہے آنکھوں سے بھی باؤنسر مارتا ہے اور ہاتھ سے بھی۔لیکن بیٹسمین کو کبھی بھی ان حربوں میں آ کر نروس نہیں ہونا چاہیئے۔
آج کھیل کے میدانوں سے ہماری آنے والی نسلوں کو اچھا پیغام جائے گا تو یقین مانیں اس کے اثرات گلی محلوں تک پہنچیں گے
اپنی رائے کا اظہار کریں