معصومانہ سوال – سپاٹ فکسنگ میں افتتاحی بلے باز ہی مرکزی کردار کیوں؟
آئی سی سی کی مخبری، پی سی بی کا کمانڈو ایکشن
دیکھتے ہی دیکھتے دو اوپنرز شرجیل خان اور خالد لطیف پاکستان ایسی برق رفتاری سے پہنچا دیے گئے جیسے ٹی سی ایس کوئی پیکٹ اس کے مالکان کے حوالے کرتا ہے، تمام کوریئر سروسز پیکٹ بھیجنے سے پہلے اپنی مکمل تسلی کرتی ہیں کہ اس میں کوئی ایسی ممنوعہ شے تو نہیں ، پی سی بی نے بھی دعوی کیا ہے کہ انہوں نے مکمل تسلی کرکے ہی یہ مشتبہ دونوں پیکٹ گھر واپس بھیجے ،،،،،، یہ الگ بات ہے کہ میزبان کو خبر نہ ہوئی کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں میزبان مشتبہ پیکٹ بلا اجازت بھیجنے کی اجازت دے دے
بعد ازاں ایک لمبے سے باولر کا نام بھی آیا اور اگر اس نے ایسا کیا ہے تو کاش گگو منڈی میں پی وی سی پائپ بنانے پہ ہی لگا رہتا، کاش میرے سمیت سارا میڈیا اس کو قومی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے چیخ و پکار نہ کرتا ، کاش ندیم اقبال اس کو کرکٹ کھیلنے کی ترغیب نہ دیتا
ابھی تک پانچ نام، سامنے آچکے ہیں ، جسمیں چار افتتاحی بلے باز ہیں، ،، ماسٹر مائنڈ ناصر جمشید انگلینڈ میں زیر تفتیش ہے اور تین پاکستان میں اینٹی کرپشن یونٹ کے رحم و کرم پہ ہیں، ذرائع بتا رہے ہیں ابھی تک چاروں میں سے کسی ایک اعتراف جرم نہیں کیا، جبکہ ان کے سامنے پر کشش مراعات کے انبار لگا دیے گئے ہیں مگر تاحال بے سود
خیر پنجابی کی کہاوت ہے کہ جٹ جانے تے بجھو جانے یعنی کسان جانے اور اس کی فصلوں اور میتوں کو کھانے میں ماہر جانور بجھو جانے ہمیں کیا، میں جٹ ضرور ہوں مگر صاحب بجھو سے ڈر لگتا ہے
جب سے یہ واقعہ منظر عام پر میری سوئی ایک ہی سوچ سے آگے نہیں جارہی کہ سہولت کار بھی اوپنرز اور سلمان بٹ کے بعد دو ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کے ماہر بلے باز اور قومی ٹیم کو اففتاحی بلے بازی کے بحران سے باہر لانے والے مستند اوپنرز کو ہی کیوں اکسایا گیا ؟ مڈل آرڈر میں سے کیوں نہیں ؟انگلینڈ پچز پر خطرناک باولر ہی کیوں ورغلایا گیا ؟ خیر پاکستان کے پاس باولنگ کے تو خاصے آپشنز موجود ہیں
ایسا بھی تو ہو سکتا ہے پس منظر میں وہ کردار بھی ہوں جو قومی ٹیم میں بطور اوپنرز اپنی جگہ ان دو بلے بازوں کی وجہ سے عرصہ قلیل میں نہ دیکھ رہے ہوں ، کاش میرے یہ وہم، سچائی پر مبنی نہ ہوں کیونکہ اگر خورد بینی تحقیق ہوئی اور اس میں کچھ بھی حقیقت ہوئی تو یہ ماننا پڑے گا کہ امیدواران افتتاحی بیٹنگ کے روٹس بہت گہرے اور دور تلک ہیں – ان کے صلاح گیر انگلینڈ ، بھارت اور ملک لزیز سوری عزیز میں پائے جاتے ہیں
آج کی تحریر کو سمیٹتے ہوئے یہ سوال بھی کھائے جارہے ہیں ہمیشہ کسی میگا ایونٹ یا سیریز جو انگلینڈ میں منعقد ہونا ہوں ہماری ٹیم کو ہی کمزور کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے ، آخر ہماری تیزی سے مقبولیت کی جانب پی ایس ایل کو داغدار کرنے کی کاوشیں اور قومی ٹیم کی فتح سے ایک بار کی فاتح ورلڈ کپ اور ٹونٹی ورلڈکپ دنیائے کرکٹ کو خوش کیوں نہیں ہوتی؟ ، بجائے اس کے کہ ہماری راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں مارے جاتے ہیں ، یا تو مان لیا جائے کہ انگلینڈ کا اینٹی کرپشن یونٹ سب سے متحرک اور کامیاب ہے اور ہمارے کھلاڑی اپنی ٹیم کے دائیں بائیں شاہانہ طرز زندگی گزارنے والے کھلاڑیوں جیسا بننے کے لیے ان کی طرح دس سے پندرہ سال ملک کی نمائندگی کرنے کی بجائے راتوں رات ماضی میں نظر انداز کیے جانے اور ٹیم سے جلد نکال دینے کے خوف سے وہ کچھ کر گزرتے ہیں جسکی شرمندگی اور معاشرتی نفرت کا اندازہ وہ نہیں لگا سکتے مگر ان سے پوچھیں جو بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ہر پل جھیلنا پڑتی ہے یقین کریں کہ وہ پاکستانی ہونے کی بجائے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف انڈین حتکہ افغان کروانے پر مجبور ہیں
یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ دولت کے لیے دو لتیاں مارنے میں مصروف کھلاڑی تب بھی تسلی سے دلیرانہ اقدام کر گزرتے ہیں جب وہ اپنے دائیں بائیں ٹیم کے اندر اور باہر ایسے واقعات میں ملوث ثابت بھی ہوئے بڑے بڑے نام نہ صرف بڑا بڑا احترام سمیٹتے اور عہدوں پر نظر آتے ہیں
اللہ کرے وہم سچ ثابت نہ ہوں ، پاکستان کرکٹ بورڈ اور پی ایس ایل انتظامیہ اس معاملے کی جڑ تک پہنچ کر اس کا سد باب کرنے میں کامیاب ہوجائیں
ورنہ آج کے اور مستقبل کے ہر کھلاڑی کے ذہن میں یہی رہے گا
او خیر ہے پاکستان میں کرپشن کا ایک ہی مجرم اعظم تھا اور وہ تھا
سلیم ملک
اپنی رائے کا اظہار کریں