More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں

کیا قومی کرکٹ ٹیم کی بین الاقوامی فتوحات تک پی ایس ایل بند کر دینی چاہیے؟

کیا قومی کرکٹ ٹیم کی بین الاقوامی فتوحات تک پی ایس ایل بند کر دینی چاہیے؟
آفتاب تابی
آفتاب تابی

پاکستان سپر لیگ (PSL) اور قومی کرکٹ ٹیم کے درمیان تعلق پر ہونے والی بحثیں اکثر جذباتی اور منطقی دلائل کا ایک پیچیدہ جال بن جاتی ہیں۔ ایک طرف پی ایس ایل کو ملک کی کرکٹ کی رگوں میں دوڑتی ہوئی توانائی قرار دیا جاتا ہے تو دوسری جانب قومی ٹیم کی بین الاقوامی میدان میں کمزور کارکردگی پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ جب تک پاکستان کی قومی ٹیم بین الاقوامی کرکٹ میں مستقل فتوحات حاصل نہیں کر لیتی، پی ایس ایل کو معطل کر دینا چاہیے۔ یہ موقف کیوں پیش کیا جا رہا ہے؟ کیا واقعی پی ایس ایل قومی ٹیم کی ناکامیوں کی وجہ ہے؟ یا پھر یہ ایک ایسا “آسان ہدف” ہے جس پر تنقید کر کے اصل مسائل کو نظرانداز کیا جا رہا ہے؟ اس بحث کو سمجھنے کے لیے ہمیں پاکستانی کرکٹ کے موجودہ منظرنامے، پی ایس ایل کے کردار، اور بین الاقوامی کھیل کے تقاضوں کو گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

پی ایس ایل: پاکستانی کرکٹ کے نئے دور کا آئینہ دار
پی ایس ایل کا آغاز 2016 میں پاکستانی کرکٹ کو نہ صرف معاشی طور پر مضبوط بنانے بلکہ بین الاقوامی کرکٹ کو ملک میں واپس لانے کے لیے کیا گیا تھا۔ یہ لیگ اپنے پہلے سیزن سے ہی عوامی دلچسپی کا مرکز بن گئی۔ نوجوان کھلاڑیوں کو بین الاقوامی ستاروں کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملا، کرکٹ کھیلنے کا معیار بڑھا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں کرکٹ کی ثقافت کو ایک نئی زندگی ملی۔ پی ایس ایل نے نہ صرف شائقین کو متحد کیا بلکہ ملک بھر میں کرکٹ کے کوچنگ اکیڈمیوں، اسپانسرشپ کے نئے مواقعوں، اور میڈیا کوریج کو بھی فروغ دیا۔ اس لیگ کے بعد سے پاکستان میں ٹی 20 کرکٹ کا جنون عروج پر ہے، اور یہی وجہ ہے کہ پی ایس ایل کو “عوامی لیگ” کہا جاتا ہے۔

لیکن جیسے جیسے پی ایس ایل کی مقبولیت بڑھی، ویسے ہی قومی ٹیم کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی لگنے لگے۔ پاکستان نے 2017 کے بعد سے کوئی بڑا بین الاقوامی ٹورنامنٹ جیتا نہیں، ٹیسٹ میچوں میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے، اور ون ڈے سیریز میں نوجوان کھلاڑیوں کا تجربہ کم ہونے کے باوجود ان پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں کئی تجزیہ کاروں اور سابق کھلاڑیوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ پی ایس ایل کھلاڑیوں کو “ٹی 20 سپیشلسٹ” بنا رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ دیگر فارمیٹس کے لیے تیار نہیں ہو پاتے۔ کیا یہ دلیل درست ہے؟

پی ایس ایل کو معطل کرنے کی حمایت میں دلائل
پی ایس ایل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ لیگ کی وجہ سے کھلاڑیوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ ٹی 20 کرکٹ میں تیز رفتار، شارٹ فارم پرفارمنس پر زور دیا جاتا ہے، جب کہ ٹیسٹ یا ون ڈے کرکٹ میں صبر، ٹیکنیک، اور لمبے عرصے تک مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستانی بلے باز اکثر شارٹ بالز پر آؤٹ ہوتے نظر آتے ہیں، جو ٹی 20 میں عام ہے مگر ٹیسٹ میچوں میں ایک بڑی کمزوری ہے۔ مخالفین کا ماننا ہے کہ پی ایس ایل کے دوران کھلاڑیوں کو بڑی معاشی آمدنی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ قومی ڈریسنگ روم کی طرف کم سنجیدہ ہوتے ہیں۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ پی ایس ایل کا سیزن عام طور پر فروری سے مارچ تک چلتا ہے، جو بین الاقوامی کرکٹ کے مصروف ترین مہینے ہوتے ہیں۔ اس دوران اگر پاکستانی کھلاڑی لیگ میں مصروف ہوں تو وہ قومی ٹیم کے ساتھ تربیت یا سیریز کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔ مثال کے طور پر، 2023 میں پی ایس ایل کے دوران پاکستان کی ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کھیلی، جس میں نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا گیا، مگر تجربہ کار کھلاڑی لیگ میں مصروف تھے۔ اس سے ٹیم کو مربوط ہونے میں دشواری ہوئی۔

تیسرا نقطہ مالیاتی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (PCB) پی ایس ایل سے کثیر رقم کماتا ہے، لیکن اس رقم کا ایک بڑا حصہ لیگ کے انتظام اور فرنچائزز کو دیا جاتا ہے۔ مخالفین کا دعویٰ ہے کہ اگر یہ وسائل قومی ٹیم کی تربیت، کوچنگ اسٹاف، اور گھریلو کرکٹ کے ڈھانچے پر خرچ کیے جائیں تو بین الاقوامی سطح پر بہتری آ سکتی ہے۔

پی ایس ایل کو جاری رکھنے کی حمایت میں دلائل
پی ایس ایل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ لیگ کو معطل کرنا پاکستانی کرکٹ کے لیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔ سب سے پہلے تو یہ لیگ نوجوان ٹیلنٹ کو دریافت کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ شاداب خان، حارث رؤف، اور محمد حسیب جیسے کھلاڑی پی ایس ایل کے ذریعے ہی قومی ٹیم تک پہنچے۔ اگر لیگ بند کر دی جائے تو نئی صلاحیتوں کے لیے راستہ تنگ ہو جائے گا۔

دوسری جانب، پی ایس ایل پاکستانی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی تجربہ فراہم کرتی ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے سے نہ صرف ٹیکنیکل مہارت بڑھتی ہے بلکہ ذہنی دباؤ کو سنبھالنے کا موقع ملتا ہے۔ مثال کے طور پر، شاہین آفریدی نے پی ایس ایل میں ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کے خلاف کھیل کر اپنی رفتار اور یور واریئشنز کو بہتر بنایا، جو بعد میں انٹرنیشنل میچوں میں کارآمد ثابت ہوا۔

تیسرا اہم پہلو معیشت ہے۔ پی ایس ایل نہ صرف PCB بلکہ کھلاڑیوں، اسٹیڈیمز، اور مقامی کاروباروں کے لیے ایک بڑا معاشی ذریعہ ہے۔ لیگ کے بغیر نوجوان کھلاڑیوں کے لیے کمائی کے مواقع کم ہو جائیں گے، جس سے ان کی ترجیحات بدل سکتی ہیں۔ کیا ہم اپنے کھلاڑیوں کو بیرون ملک لیگز کی طرف جانے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں؟

چوتھا نکتہ یہ ہے کہ بین الاقوامی کرکٹ اور فرنچائز لیگز کا مقصد الگ ہے۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، اور بھارت جیسے ممالک میں بھی ٹی 20 لیگز موجود ہیں، لیکن ان کی قومی ٹیمیں اپنے فارمیٹس میں مضبوط ہیں۔ مسئلہ لیگ کا نہیں بلکہ انتظامیہ اور تربیتی نظام کا ہے۔ اگر پاکستان کی قومی ٹیم پی ایس ایل کی کامیابی کو بین الاقوامی سطح پر منتقل نہیں کر پا رہی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ لیگ کو ختم کر دیا جائے، بلکہ کوچنگ، پلاننگ، اور ٹیم سیلیکشن میں اصلاحات کی جائیں۔

کیا صرف پی ایس ایل ہی ذمہ دار ہے؟
یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ کیا واقعی پی ایس ایل قومی ٹیم کی ناکامیوں کی واحد وجہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کرکٹ میں کئی بنیادی مسائل ہیں جو پی ایس ایل سے کہیں پرے ہیں۔ مثال کے طور پر:

ڈومیسٹک کرکٹ کا ناقص ڈھانچہ: پاکستان میں فرسٹ کلاس کرکٹ کو وہ توجہ نہیں ملتی جو ٹی 20 لیگز کو حاصل ہے۔ نتیجتاً، کھلاڑی لمبے میچز کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

کوچنگ اور مینٹلٹی: قومی ٹیم میں کوچز کا بار بار بدلنا، کھلاڑیوں کی ذہنی تربیت کا فقدان، اور میچوں کے دوران غلط فیصلے ناکامیوں کو جنم دیتے ہیں۔

سیاسی مداخلت: کرکٹ بورڈ میں عہدوں پر سیاسی تقرریاں، جس کی وجہ سے طویل المدتی پلاننگ ممکن نہیں ہو پاتی۔

ان مسائل کو نظرانداز کر کے صرف پی ایس ایل کو نشانہ بنانا ناانصافی ہوگی۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے ممالک میں بھی ٹی 20 لیگز کامیاب ہیں، مگر ان کی قومی ٹیمیں تمام فارمیٹس میں مضبوط ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ڈومیسٹک سسٹم مضبوط ہے، کوچنگ اسٹاف مستحکم ہے، اور کھلاڑیوں کو ہر قسم کے حالات کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

ممکنہ حل: توازن کی ضرورت
پی ایس ایل کو معطل کرنے کے بجائے، پاکستان کرکٹ کو ایک متوازن نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ کچھ تجاویز یہ ہو سکتی ہیں:

کھلاڑیوں کی ریسٹ اور روٹیشن پالیسی: پی ایس ایل اور بین الاقوامی میچز کے درمیان کھلاڑیوں کو آرام دینے کا موقع دیا جائے تاکہ وہ تھکن کا شکار نہ ہوں۔

ڈومیسٹک کرکٹ کو ترجیح: فرسٹ کلاس اور لسٹ اے کرکٹ کو فروغ دے کر کھلاڑیوں کو تمام فارمیٹس کے لیے تیار کیا جائے۔

کوچنگ اور مینٹل ہیلتھ سپورٹ: قومی ٹیم کے ساتھ ماہر نفسیات اور کوچز کی ٹیم کو شامل کیا جائے جو کھلاڑیوں کی ذہنی دباؤ کو سنبھالنے میں مدد کریں۔

پی ایس ایل کا شیڈول: لیگ کو ایسے وقت میں منعقد کیا جائے جب بین الاقوامی کرکٹ کا سیزن ختم ہو، تاکہ کھلاڑی دونوں کے درمیان توازن بنا سکیں۔

اختتامیہ: ترقی کے لیے تعمیری سوچ
پی ایس ایل کو قومی ٹیم کی ناکامیوں کا قربانی کا بکرا بنانا آسان ہے، لیکن حقیقی تبدیلی کے لیے ہمیں گہرائی میں جاکر مسائل کو سمجھنا ہوگا۔ لیگ پاکستانی کرکٹ کی ترقی کا اہم ذریعہ ہے، جو نہ صرف معاشی استحکام دیتی ہے بلکہ نئی صلاحیتوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، قومی ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ڈومیسٹک سسٹم، کوچنگ، اور انتظامیہ میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔

آخر میں، یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا پی ایس ایل کو بند کر دینے سے پاکستان کی کرکٹ میں معجزاتی تبدیلی آ جائے گی؟ شاید نہیں۔ البتہ، لیگ اور بین الاقوامی کرکٹ کے درمیان صحت مند تعلق قائم کر کے ہم دونوں میدانوں میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالیں، نہ کہ اپنی کامیابیوں کو ختم کر دیں

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں