موسی بے چین ان سپین، پاکستان کرکٹ کو بدنام کرنے والے کرداروں کو ہمیشہ کے لئے چلتا کریں
پاکستان سپر لیگ دو ہزار بیس کا پانچواں ایڈیشن بڑی دھوم دھام سے جاری تھا،اچانک کورونا وائرس پوری دنیا کے میڈیا کی ہیڈ لائینز میں آگیا،مارچ کا وسط تھا پی ایس ایل کے میچز پاکستان کے مختلف شہروں میں بڑی کامیابی سے جاری تھے،پوری دنیا میں پاکستان کرکٹ کی تعریفیں ہو رہی تھیں،دنیا کے سابق ٹاپ کرکٹرز پاکستان میں کرکٹ کی واپسی پہ تعریفیں کر رہے تھے،دو ہزار بیس کے ایڈیشن میں تمام غیر ملکی کھلاڑی پاکستان میں کھیلنے کے لئے رضا مند ہوئے اور کھیلنے آئے بھی،اور آتے بھی کیوں نہ اس طرح کا پروٹوکول ان تمام غیر ملکی کھلاڑیوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا،کورونا وائرس کی وجہ سے چین میں لاک ڈاؤن کے بعد یہ مسئلہ دنیا کے دیگر ممالک تک پہنچ چکا تھا،سپین جہاں دنیا میں سب سے زیادہ فٹبال کے شائقین پائے جاتے ہیں ادھر بھی فٹبال لیگ کے کچھ میچز کلوز ڈور کروائے گئے،جس کو دیکھ کے کرکٹ میں بھی کئی ممالک میں بغیر شائقین کے میچز کروانے کا فیصلہ کیا گیا،پی ایس ایل جو کے اپنے اختتامی مراحل میں تھی اس کے بھی کچھ میچز بغیر تماشائیوں کے کروائے گئے،پی ایس ایل انتظامیہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوشش تھی کہ بقیہ میچز بھی مکمل کر لئے جائیں لیکن ایسا ممکن نہ ہوا اور لیگ کا ناک آؤٹ مرحلہ تا حکم ثانی موخر کر دیا گیا،دنیائے کرکٹ،سابق ٹاپ کرکٹرز،آئی سی سی اور اس سے منسلک کرکٹ بورڈز نے پی سی بی کے انتظامات اور پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے انتظامات دیکھ کے اطمینان کا اظہار کیا،جس کے بعد پی سی بی کا مختلف کرکٹ بورڈز ساتھ پاکستان میں آ کے کھیلنے کے حوالے سے رابطہ بھی ہوا جو ابھی بھی ہے،بس اللہ کو منظور نہیں تھا کہ پی ایس ایل کے میچز پورے ہو سکیں،پی سی بی نے لیگ کے بقیہ میچز تا حکم ثانی موخر کرنے کا اعلان کر دیا اس فیصلے کو بھی سراہا گیا،دن گذرتے ہیں پاکستان کرکٹ کی ساری اچھی خبریں ختم ہو جاتی ہیں،پاکستانی میڈیا جو کچھ دن پہلے تک پاکستان کرکٹ کی بھلے بھلے کر رہا تھا اچانک پتا نہیں کہاں سے فکسنگ کی خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں،دو دہائیاں پرانا کیس جسٹس قیوم کمیشن کیس ایک دفعہ پھر شہ سرخیوں میں آتا ہے،سابق کپتان سلیم ملک ایک دفعہ پھر سامنے آتے ہیں اور انصاف مانگتے ہیں،ملک صاحب کوئی دس سال پہلے بھی سامنے آئے تھے جب اس وقت کے چئیرمین اعجاز بٹ نے انکو پی سی بی میں عہدہ دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن پھر یہ فیصلہ آئی سی سی کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہ چڑھ سکا تھا۔اب ایک بار پھر ایسا ہی ہو رہا ہے،ایسے لگ رہا ہے جیسے پاکستان کرکٹ میں کوئی اچھا کام نہیں ہو رہا اور پاکستان کرکٹ ٹیم میں ہمیشہ سے فکسنگ ہی ہوتی رہی ہے،مارچ میں پوری دنیا کی مثبت توجہ سمیٹنے والی پاکستان کرکٹ کچھ روز بعد ہی دنیا کے میڈیا میں فکسنگ ایشوز کی شہ سرخیوں میں ہے،کیا ہم ان پرانے معاملات سے جان نہیں چھڑوا سکتے،،کیا ہم ایسی منفی صحافت کو چھوڑ نہیں سکتے کہ سب اچھا کرتے کرتے اچانک اپنی کرکٹ کو پوری دنیا میں بدنام کر دیتے ہیں،،کیا پی سی بی سلیم ملک کا کیس ختم نہیں کروا سکتا تاکہ آئندہ یہ ڈسکس ہی نہ ہو،جب عدالت نے انکو دو ہزار آٹھ میں کلئیر کر دیا تھا تو اب جو بھی معاملات باقی ہیں انکو پورا کر کے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے ختم نہیں کیا جاسکتا؟جب جسٹس قیوم رپورٹ میں شامل باقی کئی کرکٹرز کھیلے بھی اور بعد میں بورڈ کے ساتھ نوکریاں بھی کرتے رہے ہیں اور کر بھی رہے ہیں،تو اکیلے سلیم ملک کو کیوں سزا دی جا رہی ہے؟کاش بیس سال پہلے سخت فیصلے کر لئیے جاتے تو دو ہزار دس میں پاکستان کرکٹ کو بدنامی نہ ملتی،اور اگر دو ہزار دس میں بھی محمد عامر کے ساتھ ایسے نرمی نہ برتی جاتی تو پی ایس ایل میں شرجیل خان،خالد لطیف جیسے کیسز نہ ہوتے،میرا یہ ماننا ہے کہ دنیا کی کرکٹ پاکستان کرکٹ کے بغیر مکمل نہیں ہوتی،لہٰذا میری پاکستان کرکٹ کے ذمہ داران سے درخواست ہے پاکستان کرکٹ کو بدنام کرنے والے کرداروں کو ہمیشہ کے لئے سائیڈ لائن کر دیا جائے،اور وزیر اعظم عمران خان کی تعریفیں کر کے عہدے لینے والوں سے بھی ہوشیار رہا جائے۔۔جاتے جاتے رمیز راجہ صاحب جو اب فکسنگ کے خلاف اتنی تقریریں کرتے ہیں تو معذرت کے ساتھ رمیز راجہ صاحب آپ ماضی قریب میں چئیرمین پی سی بی کے مشیر اور اس سے پہلے پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بھی رہے ہیں تو تب آپکو اس حوالے سے سخت قوانین پاس کروانے میں آسانی ہوتی بجائے اب تقریریں کر کے اپنا یوٹیوب چینل چلانے سے۔۔شکیل شیخ جیسے کردار گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کرکٹ سے دور ہیں جسکی انکو بہت تکلیف ہے پی سی بی کو ایسے کرداروں کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئیے اور پاکستان کرکٹ سے دور ہی رکھنا چاہئیے
وزیر اعظم پاکستان خود کئی جلسوں میں پی سی بی تقرریوں میں حکومتی مداخلت کے خلاف بولتے رہے ہیں اور آئی سی سی اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتا ہے، اب وزیر اعظم کے پاس نادر موقع ہے کہ پی سی بی کو آزاد اور خود مختار ادارہ بنانے کا اعلان کر کے اور جنرل کونسل کو بحال کرکے فیصلہ سازی کے تمام اختیارات ان کو سونپ دیں تاکہ ہر نئے وزیر اعظم کو اپنے ہمنواوں کو نوازنے کا سلسلہ بند ہو اور کرکٹ کرپشن کا جڑھ سے خاتمہ ہو ، ورنہ یاد رکھیے کہ موجودہ صورت حال سے آئی سی سی فائدہ اٹھا کر کہیں پاکستان کو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے سے ہی محروم نہ کردے اور اس کی تمام تر ذمہ داری پی سی بی پر عائد ہوگی کیونکہ پرانے کھلونوں کو صاف کرکے ان میں چابی پی سی بی نے ہی بھری ہے
اپنی رائے کا اظہار کریں