کرکٹ فکسنگ، روک سکو تو روک لو
سن 2016 میں بین الاقوامی ستاروں سے سجی پاکستان سپر لیگ کا کامیاب انعقاد ہوا،،،مگر دوسرے ایڈیشن میں میگا ایونٹ کو ایسا جھٹکا لگا کہ جسکے آفٹر شاکس اب تک محسوس کیے جارہے ہیں
ابتدائی طور پر دو کھلاڑی شرجیل خان اور خالد لطیف کی تفتیش کی زد میں آئے اور مہینوں کی پیشیوں اور اعصاب شکن جرح کے بعد دونوں کھلاڑی پی سی بی کی نظر میں مجرم ٹھہرے،،،کرکٹ بورڈ کے ہی تشکیل کردہ تین رکنی پینل نے شرجیل خان کو سپاٹ فکسنگ کا مرتکب گردانتے ہوئے پانچ سال کے لیے کرکٹ سے دوری کی سزا سنائی جبکہ خالد لطیف کے گلے میں بھی پانچ سالہ پابندی کا طوق ڈال یہ کہہ کر ڈال دیا گیا کہ وہ شرجیل خان اور بکی کے مابین رابطہ کار بنے ہیں
اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی پی سی بی نے ٹیسٹ کرکٹر ناصر جمشید کو اس گندے دھندے کا ماسٹر مائنڈ قرار دے دیا مگر تاحال برطانہ میں مقی ناصر جمشید پر باقاعدہ طور الزام نہیں لگایا مگر اندر کی خبر ہے کہ آئندہ چند روز میں ناصر جمشید آئندہ چند روز میں ناصر جمشید کو پی سی بی کی جانب سے قانونی نوٹس موصول ہوجائے گا جو سنگین الزات سے لدا ہوا ہوگا ،،، فی الوقت عدم تعاون کی پاداش میں ناصر جمشید پی سی بی کی جانب سے ایک سال کی پابندی کا سامنا کر رہے ہیں
اس دھندے کے کچھ اور کردار بھی منظر عام پر آئے مگر یا تو غائب ہوگئے یا غائب کردیے گئے،،،محمد نواز اور محمد عرفان پر الزام ثابت ہوا کہ بکیز نے ان سے رابطہ کیا مگر انہوں نے پی سی بی اینٹی کرپشن کو بے خبر رکھا،،، مگر محمد عرفان کا کیس اتنا سادہ نہیں ،،،
اس کیس سے جڑی سے ملنے والی معلومات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاہ زیب حسن کا کیس سب سے ذیادہ سنگین ہے،،،
دراز قد باولر عرفان کو سٹے بازی کی پیشکش ہوئی یہ تو سب جانتے ہیں مگر ان کو یہ پیشکش کی کس نے ؟ یا اس کی ترغیب کس نے دی ؟ یہ کوئی نہیں جانتا
اس معمے کو حل کرنے کے لیے محمد عرفان متعدد بار پی سی بی پینل کے روبرو پیش ہوئے اور اندر ہونے والی گفتگو سے ملنے والی بھنک سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے شاہ زیب حسن کی جانب اشارہ کیا ہے،،،،
اب اس کیس کا آخری پڑاو بھی ذیادہ دور نہیں جب شاہ زیب حسن اپنا حتمی بیان ریکارڈ کروائیں گے اور فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہوگا،،،
کرکٹ کرپشن کے پرانے ڈرامے کی نئی قسط نے ایک بار پھر سب کو چوکنا کردیا ہے ،، آخر سے کار سیاہ تھمتا کیوں نہیں؟
سب کی زبان پر یہی سوال ہے جس کا سادہ اور روایتی سا جواب یہی ہے کہ نیکی اور بدی کا ساتھ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا،،،تو کیا کریں؟ کیا ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں؟
پاکستان ،،بنگہ دیش اور بھارت سمیت کئی ممالک میں سپورٹس کرپشن کا قانون موجود ہی نہیں لہذا تگڑے قوانین کی منظوری تک سخت سزائیں تو بھول جائیں
یوں تو کرکٹ بورڈز اور آئی سی سی کے کرپشن کے خلاف قوانین موجود ہیں اور وہ گاہے بگاہے کھلاڑیوں کو اس کی آگاہی بھی دیتے ہیں،،، ہر ٹورنامنٹ یا سیریز سے پہلے باقاعدہ لیکچز سیشنز ہوتے ہیں،،،مگر سزاوں کا یہ ڈراوا کرپشن کے ناسور کو پنپنے سے نہیں روک سکا،،،،
حال ہی میں ایشز سیریز کے دوران بھارتی بکی کی جانب سے فکسنگ کا ارداہ ظاہر کرنے کی خبریں بھی سب نے سنیں جس پر آئی سی سی متحرک ہوگئی،،،معتدد کھلاڑیوں کو ہونے والی پیشکش کا جائزہ لیا شروع کردیا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے کرپشن کا جن بوتل میں بند کر لیا جائے گا؟
نہیں
اپنی رائے کا اظہار کریں