U-Turn وائرس نے پی سی بی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کو مسلسل چوتھے میچ میں شکست دی اور سریز چار صفر انگلینڈ نے اپنے نام کر لی پاکستان کی ٹیم کا یہ مسلسل نواں میچ تھا جو وہ ہارے ولڈکپ سے پہلے یہ آخری سیریز تھی جو پاکستان کی ٹیم نے کھیلی۔اس سیریز کے ختم ہوتے ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے ولڈکپ کے لیے حتمی کھلاڑیوں کا نام اعلان کرتے ہوئے فاسٹ باؤلر محمد عامر ، وہاب ریاض اور جارحانہ انداز کے بلے باز آصف علی کو ٹیم میں منتخب کر لیا اور پہلے سے منتخب ٹیم میں سے جنید خان، فہیم اشرف اور عابد علی کو ڈراپ کر دیا گیا اور ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم ولڈکپ کھیلنےکے لیے انگلستان روانہ ہو رہی تھی تو لاہور میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں چیف سلیکٹر انضمام الحق ان تمام کھلاڑیوں کی تعریف میں بہت پل باندھ رہے تھے اور کہا جا رہا تھا کہ ان سے بہتر کھلاڑی پاکستان میں نہیں۔محمد عامر اور آصف علی کو انگلینڈ کے خلاف سریز کا حصہ بنایا گیا تھا اور اس کے ساتھ یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اگر وہ اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں تو ولڈکپ میں بھی ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آصف علی نے انگلینڈ کے خلاف تھوڑی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر محمد عامر بیمار ہونے کی وجہ سے کوئی میچ نا کھیل سکے۔
انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے لاہور میں پریس کانفرنس میں وہاب ریاض، محمد عامر اور آصف علی کو ٹیم میں منتخب کرنے کا اعلان کیا تو ان کو بہت سے چبتے ہوئے سوالات کے جوابات دینے پڑے جن کا جواب انہوں نے سوال گندم جواب چنا جیسے دیے۔
تمام دنیا کے کرکٹ بورڈز ولڈکپ ختم ہوتے ہی اگلے ورلڈ کپ کے لیے اپنی ٹیم کا انتخاب اور اس کے لئے پلان بنانا شروع کر دیتے ہیں اور ورلڈ کپ سے تقریبا چھ ماہ پہلے اپنےکھلاڑیوں کا حتمی انتخاب کر لیتے ہیں مگر پاکستان کرکٹ بورڈ کا باوا آدم ہی نرالہ ہے یہاں پر سوائے یاری دوستی کے اور کچھ نہیں دیکھا جاتا اور آخری لمحات تک کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون ٹیم کا حصہ ہو گا اور کون نہیں۔
اگر دیکھا جائے تو حسب روایت اس بار بھی جنید خان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے اور لگتا ایسے ہے کہ دوسروں کو نوازنے کی خاطر جنید خان کو ٹیم سے ڈراپ کیا گیا ہے۔ ٹیم سے ڈراپ ہونے کے بعد جنید خان نے جس انوکھے انداز میں احتجاج کیا ہے وہ بھی بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔
پاکستان کی سلیکشن کمیٹی کے بھی اصول نرالے ہیں پہلے ایک کھلاڑی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے پلان کا حصہ نہیں اور پھر اچانک اس کو میگا ایونٹ کے لیے ٹیم میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔ وہاب ریاض کے بارے میں ہمیشہ سے کپتان اور کوچ کہتے رہے ہیں کہ وہ ہمارے پلان کا حصہ نہیں پھر اچانک دو سال بعد ان کو ٹیم میں کیسے منتخب کر لیا گیا جب کہ دوسری طرف فہیم اشرف کو 3 سال گروم کرتے رہے۔پیسہ لگایا۔جب بڑا موقع آیا تو اسے گھر بٹھا دیا۔وہاب کو ورلڈکپ پلان سے حضرت مولانا صاحب نے عرصہ پہلے ہی دیس نکالا دے دیا تھا۔ٹورنامنٹ شروع ہونے سے 10 دن پہلے محسوس ہوا کہ وہاب ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی ہے جبکہ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کوچ وہاب ریاض کے بارے میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہاب ریاض میں میچ جتوانے کی صلاحیت موجود نہیں اس لیے وہ ٹیم کا حصہ نہیں بن سکتے یاد رہے وہاب ریاض نے اپنا آخری ون ڈے انٹرنیشنل جون 2017 میں بھارت کے خلاف کھیلا تھا جس میں انہوں نے 4۔8 اوورز میں 87 سکور دیئے تھے اور کوئی وکٹ حاصل نہیں کی تھی۔ عامر نے پچھلے 20 میچز میں شائد مشکل سے 4 یا 5وکٹ لیئے ہوں۔اب اسکی ضرورت شدت سے محسوس ہو گئی۔عامر کی پرفارمنس انگلینڈ سے سیریز میں دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا تو واپسی کس بنیاد پر ہوئی؟اگر وہ اتنا اچھا تھا تو پہلے ڈراپ کیوں کیا تھا؟حسنین ورلڈ کپ سے چند ماہ پہلے پی ایس ایل سے دریافت ہو کر سیدھا ورلڈکپ سکواڈ کا حصہ بن گیا۔جب کہ ابھی تک جتنے بھی میچز میں وہ ٹیم کا حصہ بنا کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا نا تو کوئی لائن اور نا ہی گیند پر اتنا کنٹرول نظر آیا سوائے سپیڈ کے ۔انضمام الحق صاحب نے وہاب ریاض اور محمد عامر کو ولڈکپ ٹیم میں شامل کرنے کی وجہ ان کا تجربہ بتایا ہے تو سوال یہ بنتا ہے کیا جنید خان حسنین سے کم تجربہ کار ہیں؟ یا پھر صرف اور صرف پاکستان سپر لیگ کی کارکردگی کی بنیاد پر کسی کو بھی میگا ایونٹ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے؟ انضمام الحق نے حسنین کا دفاع کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس کی سپیڈ اچھی ہے اس لیے منتخب کیا گیا ہے اگر سپیڈ ہی کسی کھلاڑی کے ٹیم میں منتخب ہونے کا پیمانہ ہوتی تو اس وقت بھارت کی موجودہ ٹیم کا کوئی بھی تیز گیند باز ٹیم میں نا ہوتا۔ اس کے ساتھ ساتھ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انگلینڈ کے خلاف میچز میں کس بولر کی کارکردگی مثالی تھی؟پھر سزا صرف جنید کو ہی کیوں؟ہر مرتبہ جنید کے ساتھ ہی ناانصافی کیوں؟وہاب کی کون سی تگڑی سفارش تھی جو اسے دور سے نزدیک لے آئی؟عامر کو ہمیشہ کیوں دوسرے لڑکوں پر ترجیح دی گئ جب کہ میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے اسے ٹیم کا حصہ تک نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ اگر انگلینڈ کی سریز ولڈکپ کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب کا پیمانہ تھی تو عابد علی کو صرف ایک ہی میچ کیوں کھیلایا گیا؟
انضمام سے دوسرے سیلکیٹرز کے نسبت ذیادہ بہتر امیدیں وابستہ تھیں۔لیکن وہ بھی بورڈ کے رنگ میں رنگین ہو گیا لگتا ہے انضمام الحق پاکستان کرکٹ ٹیم کی جس سیاست کا دو دہائیوں سے حصہ تھے ابھی تک اسی طریقے پر عمل کر رہے ہیں اور شاید انہوں نے اپنے ولڈکپ میں کپتان عمران خان کی بات کو بہت سنجیدہ لیا ہے کہ جب تک کوئی انسان یو ٹرن نا لے وہ بڑا لیڈر نہیں بن سکتا اسی لیے اب انضمام الحق بھی یو ٹرن پر یو ٹرن لے رہے ہیں تا کہ وہ بڑے چیف سلیکٹر بن سکیں اور اپنے کپتان کے نقش قدم پر چل سکیں ۔ویسے جو حالات چل رہے اللہ ہی وارث ہے ٹیم کا۔دعاوں سے یہ چراغ کب تک جلیں گے ؟
اپنی رائے کا اظہار کریں