کھیل کوئی بھی ہو کھلاڑیوں کی سلیکشن سب سے مشکل اور کٹھن کام ہوتا ہے اور اگر یہ کام پاکستان جیسے ملک جہاں میرٹ کی بجائے کوٹہ سسٹم کے ساتھ ساتھ مختلف لابیاں بھی سرگرم ہوں تو یہ مرحلہ مزید مشکل ہوجاتا ہے ۔کرکٹ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے اس لئے یہ خبروں میں بھی زیادہ رہتاہے۔پاکستان کر کٹ میں شائقین کی سب سے زیادہ توجہ قومی سلیکشن کمیٹی پر مرکوز ہوتی ہے ۔پاکستان کر کٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کی جانب سے کوئی بھی فیصلہ کیا جائے اس کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے ۔اس برس ورلڈ ٹی ٹونٹی میں قومی کر کٹ ٹیم کی بد ترین کارکردگی کے بعدپی سی بی نے قومی سلیکشن کمیٹی میں تبدیلیاں کرتے ہوئے انضمام الحق کی سربراہی میں چار رکنی قومی سلیکشن کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کا پہلا امتحان دورہ انگلینڈ تھا جہاں گرین شرٹس نے ٹیسٹ سیریز میں عمدہ کار کردگی دکھائی مگر ون ڈے سیریزمیں قومی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں قومی ٹیم نے تینوں فارمیٹس میں کامیابی حاصل کی ۔
موجودہ قومی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ انضمام الحق نے چیف سلیکٹر کا عہدہ سنبھالا تو اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ا نہوں نے اعلان کیا کہ وہ میرٹ اور ڈسپلن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔لیکن اگر پاکستان کر کٹ ٹیم کی سلیکشن پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں اب تک ہمیں اس طرح میرت دکھائی نہیں دیا خاص طور پر باولرز کے انتخاب میں ہمیں تسلسل دکھائی نہیں دے رہا۔متحدہ عرب امارات کی وکٹوں پر ٹی ٹونٹی ،ون ڈے اور ٹیسٹ کر کٹ میں پانچ فاسٹ باولر شامل کر نا سمجھ سے بالاتر ہے اور اور یہ سب کچھ صرف اور صرف لابنگ اور کوٹہ سسٹم کی مرہون منت ہے ۔قومی سلیکشن کمیٹی میں میرٹ سے زیادہ لابی اور کوٹہ سسٹم کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ متحدہ عرب امارات میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے لئے قومی سکواڈ میں پانچ فاسٹ باولر ز شامل کر لئے گئے اب کوئی انضمام الحق سے یہ پوچھے کہ بھائی سیریز کے تینوں میچز شارجہ اور ابوظہبی میں کھیلے جانا ہیں چلیں موصوف نے ابوظہبی میں کر کٹ نہی کھیلی مگر شارجہ کے میدان سے تو یہ اچھی طرح واقف ہیں یہاں پانچ فاسٹ باولرز شامل کر کے ہماری سلیکشن کمیٹی کیا تجربہ کرنا چاہتی ہے ۔حالانکہ دنیا بھر کی ٹیمیں جب بھی متحدہ عرب امارات میں کھیلنے آتی ہیں تو ان کی کوشش ہو تی ہے کہ اضافی سپنرز کو ٹیم کا حصہ بنایا جائے مگر ہماری سلیکشن کمیٹی نے الٹے فیصلے کر نے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے پانچ فاسٹ با ولر ٹیم میں شامل کر دئیے ہیں۔سب سے بڑھ اگر ان پانچوں فاسٹ باولرز کی حالیہ کار کردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہاب ریاض حالیہ انگلش سیریز میں ایک میچ میں سب سے زیادہ رنز دینے کا قومی ریکارڈ اپنے نام کر چکے ہیں تو محمد عامر بھی اب تک کوئی بہت بڑی کار کردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔قومی ٹیم کے ایک سابق کپتان کی ٹیلی فون کال کے بعد پہلے دورہ انگلینڈ کے لئے ٹیسٹ سکواڈ اور پھر ویسٹ انڈیز کے خلاف ون ڈے سیریز کے لئے قومی ٹیم میں شامل ہونے والے سہیل خان ورلڈ کپ 2015 کے بعد فٹنس مسائل کے بعد مسلسل کر کٹ سے دوررہے ،سہیل خان نے اس دوران ڈومیسٹک سطح پر بھی کوئی خاص کر کٹ نہیں کھیلی اور پھر اچانک ان کو دورہ انگلینڈ کے لئے قومی ٹیسٹ سکواڈ میں شامل کر لیا گیا اور اب ان کوبلے بازوں کے لئے ساز گار وکٹوں پرقومی ون ڈے سکواڈ میں شامل کیا گیا ،کچھ ایسی ہی صورت حال راحت علی کے معاملے میں بھی ہے ٹیسٹ کر کٹ میں راحت کی عمدہ کار کردگی سیکوئی انکار نہیں مگر ان کی ون ڈے ٹیم میں شمولیت پر حیرانگی ضرور ہے۔خاص طور پر محمد عامر کو سپاٹ فکسنگ کیس کے بعد تسلسل سے ہر فارمیٹ کے لئے منتخب کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے ۔انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں جس باولر کے ساتھ سب سے زیادہ نا انصافی ہو ئی وہ عمران خان ہیں ۔اس نوجوان فاسٹ باولر نے پاکستان کے مشکل ترین دور میں بہترین کار کردگی سے پاکستان کر کٹ ٹیم کے مشکل وقت میں عمران خان نے متحدہ عرب امارات کی باولنگ کے لئے مشکل کنڈیشنز میں بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا مگر جب انگلینڈ جہاں باولرز کے لئے کنڈیشنز انتہائی مدد گار ہوتی ہیں وہاں پر عمران خان کو باہر بٹھا کر ان کی جگہ محمد عامر اور سہیل خان کو ٹیسٹ میچز کھلائے گئے جو کہ ایک باصلاحیت باولر کے ساتھ ناانصافی ہے ۔اسی طرح کچھ بات اوپنرز کی ہوجائے ویسٹ انڈیز کے خلاف ریگولر اوپنر کی بجائے اظہر علی سے اننگ کا آغاز کر وایا گیا اور جب ٹیم نیوزی لینڈ جائے گی تو وہاں ہمیں ریگولر اوپنر کی یاد ستائے گی دنیا بھر میںآسان کنڈیشنز میں نئے کھلاڑیوں کو موقع فراہم کئے جاتے ہیں تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو سکے مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آرہا ۔
قومی سلیکشن کمیٹی کے کردار کے حوالے سے سب سے حیران کن ا مر یہ ہے کہ چیف سلیکٹر انضما م الحق اپنی منتخب کردہ ٹیم کی کار کردگی کا جائزہ لینے کے لئے انگلینڈ ٹور کے دوران انگلینڈ گئے تو پھرویسٹ انڈیز کے دوران پوری کی پوری سلیکشن کمیٹی اپنی ہی منتخب کردہ ٹیم کی خامیوں اور خوبیوں کا جائزہ لینے کے لئے متحدہ عرب امارات پہنچ گئے ،ایک وقت میں جب ملک میں سب سے بڑا ڈومیسٹک کر کٹ ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی جاری ہے پوری کی پوری سلیکشن کمیٹی کا بیرون ملک جانا ان کی ڈومیسٹک کر کٹ میں دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔قومی سلیکشن کمیٹی کے اراکین کھلاڑیوں کی انٹرنیٹ پر کار کردگی دیکھ کر ان کا انتخاب کر نے کی بجائے میدان میں جاکر ان کو مختلف کنڈیشنز میں کھیلتا دیکھ کر ان کی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں ۔
پاکستان کر کٹ اس وقت ایک مشکل دور سے گذر رہی ہے اور اس مشکل دور سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ پی سی بی حکام اور خاص طور پر قومی سلیکشن کمیٹی میرٹ پر فیصلے کرے مگر موجودہ سلیکشن کمیٹی کی اب تک کی کا ر کردگی سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ہماری کرکٹ کے کرتا دھرتا لوگوں نے ورلڈ کپ 2015 اور ورلڈ ٹی ٹونٹی 2016 میں ہونے والی شکستوں سے کچھ نہیں سیکھا بلکہ ان لوگوں نے اپنی روش تبدیل کر نے پر بھی غور نہیں کیا۔گرین شرٹس کو ویسٹ انڈیز کے بعد نیوزی لینڈ ،آسٹریلیا اور جنوبی افریقا کے مد مقابل ہو نا ہے اور ان ٹیموں کا مقابلہ کر نے کے لئے ضروری ہے کہ قومی سلیکشن کمیٹی تمام تر لابیوں اور کوٹہ سسٹم کو پس پشت رکھتے ہوئے میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کرے اگر انضمام الحق اوران کی سلیکشن کمیٹی نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو پاکستان کر کٹ کو آنے والے دنوں میں مزید مشکلات کا سامنا کر نا پڑے گا
اپنی رائے کا اظہار کریں