قرض اتارے نہ جائیں تو سکون نہیں مل سکتا۔اور محبتوں کا قرض اتارنے میں تاخیر ہو جائے تو انسان شرمندہ رہتا ہے۔آفتاب بھائی کی تحریر لکھنے کے لیئے حوصلہ آفزائی انکا اعتماد اور محبتیں بھی ایسا قرض تھیں جس نے یہ تحریر لکھنے کی طرف راغب کیا۔
سکول کالج کے زمانے میں دو کھیلوں سے بہت رغبت تھی۔ہاکی اور کرکٹ۔پنجاب کلب کمپنی باغ سرگودہا میں استاد بشیر صاحب کی زیرنگرانی ٹوٹی پھوٹی ہاکی کھیلنے کی یادیں آج بھی دماغ میں معطر ہیں۔اس احساس کو اس دن مزید دوام ملا جب ہمارے کلب فیلو( اولمپیئن) شبیر احمد صاحب بھی پاکستانی ہاکی ٹیم میں منتخب ہوئے۔بلاشبہ پہلے دن سے ہی وہ ایک محنتی مستقل مزاج اور ایک پھرتیلے کھلاڑی تھے۔ہمیشہ سیکھنے کی آرزو رکھنے والا ایک اچھا اور خوش مزاج انسان۔لیکن افسوس کہ چند سال ہی کھیل کرپسند ناپسند کی نظر ہو گئے
چونکہ ہاکی کے بخار کے جراثیم باوجود “علاج” کے ختم نہ ہو سکے اس لیئے آج اسی موضوع پر اپنی پہلی تحریر سرگودہا کے قابل فخر فرزند آفتاب احمد تابی بھائی کی تیزی سے ترقی کرتی ویب سائیٹ” تابی لیکس”کے لئےبھیجنے کا سوچا۔
ایک دور تھا جب ہاکی کھیلنا تو دور کی بات ہاکی کا میچ دیکھنا اور سکول کالج جا کر دوستوں کی محفل میں اس پر تبصرہ کرنا بھی ایک بہت قابل فخر سرگرمی سمجھی جاتی تھی۔کیا خوبصورت اور بہترین دور تھا پاکستان ہاکی کا۔
اختر رسول۔منصور احمد۔احمد عالم۔شاہد علی خان۔خالد بشیر۔منظور الحسن۔رشیدالحسن۔قاسم ضیا۔قاضی محب۔جیسا مضبوط دفاع شائد ہی کبھی پھر دیکھنے کو ملا ہو ۔اس طرع عقاب کی طرع جھپٹنے والااور ہرن کی طرع تیز کھلاڑیوں کا ایک نایاب خزینہ سمیع اللہ۔کلیم اللہ۔حنیف خان۔حسن سردار۔فرحت خان۔کامران اشرف۔محمد عرفان۔عارف بھوپالی۔وسیم فیروز۔شہباز سینیئر ۔طاہرزمان۔منظور جونئیر۔ایازمحمود۔خواجہ جنید۔محمد عثمان۔کی صورت میں پاکستانی ہاکی کے چہرے پر دمکتا چمکتا رہا۔
افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے یہ کھلاڑی ریٹائرڈ ہوتے گئے۔پاکستان ہاکی بھی زوال پزیر ہوتی گئی۔
ایک دور تھا جب تمام دنیا میں آسٹریلیا ہالینڈ جیسی ٹیموں کا پاکستان سے جیتنا بیرونی دنیا کے لیئےایک اہم اور مشہور خبر ہوتی تھی اورآج یہ حال ہے کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں سے جیت پاکستانیوں کے لیئے اہم خبر ہے ۔ھال ہی میں منعقد ہونے والے ایشیا کپ میں بدترین کارکردگی بشمول 2 بار انڈیا سے ہار ملائشیا سے شکست اور چار ملکی آسٹریلیا ہاکی کپ میں جاپان سے شکست نہ صرف ارباب اختیار ہاکی کے منہ پر طمانچہ ہے بلکہ پوری پاکستانی قوم کے لیئے شرمندگی کا باعث ہے۔2000 کے بعد ہاکی میں سیاست سفارش نااہلی اور بدعنوابی کا ایسا راج ہوا کہ کھیل کو زوال آ گیا اور نااہل کرپٹ اور مفاد پرست لوگوں کو بقا مل گئی۔1984 سے اولپک جیت کے ساتھ دنیا پر دھاک بٹھانے والے آج 2017 میں ایک مزاق بن کر رہ گئے ہیں۔پچھلے 17 سالوں سے تنزلی کی جانب ہاکینکا سفر اب بس کھائی میں گرنے کو ہے۔قابل نفرت اور قابل مزمت ہیں ایسے لوگ جنھوں نے اپنے مفاد اپنی زاتی انا اپنی پسند ناپسند کو پاکستان پر ترجیح دے کر قومی کھیل کو ایمرجنسی وارڈ میں وینٹیلیٹرز پر ڈال دیا۔
آسٹریلیا میں کھیلے گئے چار ملکی ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا کے ہاتھوں 9..1 سے شکست سے پاکستان ہاکی ٹیم نے ایک بدترین ریکارڈ اپنے نام کیا۔اس سے پہلے سپین میں 2006 میں کھیلی گئی چمپیئنز ٹرافی میں ہالینڈ کے ہاتھوں 9..2 سے شکست قومی ٹیم کا مقدر بنی تھی۔نہ تو پاکستان کا دفاع کام کررہا ہے اور نہ فارورڈ لائین۔۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب تو ہاکی ٹیم بغیر ٹرائیلز کے منتخب کی جارہی ہے۔جس سے فیڈریشن کی ہاکی کے بارے میں غیر سنجیدگی کا پتہ چلتا ہے۔
ہاکی فیڈریشنز میں میرٹ کی نظراندازی ہاکی کی تباہی کی ایک وجہ ہے۔آسٹروٹرف کی کمی اور انکی مناسب دیکھ بھال نہ ہونا بھی ہاکی کے زوال کا سبب ہے۔حکومت کا اسکے ساتھ سوتیلہ پن بھی ایک نمایاں وجہ ہے۔بڑے شہروں میں کوئی ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام منعقد نہیں کیا جاتا جس سے مستقبل کے لیئے کوئی حنیف خان یا حسن سردار مل سکیں۔ایک بڑی وجہ ہاکی کی تباہی کی سابق اولپیئنز بھی ہیں۔جب یہ باہر بیٹھے ہوتے ہیں تو فیڈریشن کھلاڑیوں کوچ سیلیکٹرز پر اندھادھند تنقید کے نشتر چلا رہے ہوتے ہیں۔لیکن جیسے ہی ان کو فیڈریشن میں کوئی عہدہ ملتا ہے تو وہ مصلحت پسندی کا شکار ہو کر اور اپنے شور تنقید کے انعام کے شکرانے میں خاموش ہو جاتے ہیں اور اسی بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں جو مدتوں سے فیڈریشن میں چل رہی ہے۔لیکن جیسے ہی انکو فارغ کیا جاتا ہے انکے بولنے اور انکی تجاویز کی مشین پھر حرکت میں آ جاتی ہے۔اور صبح و شام گل پاشی شروع کر دیتی ہے۔
ابھی حال ہی میں سندھ کی حکومت کا ہاکی فیڈریشن کو 10 کروڑ کی رقم کا اعلان بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔کیا فیڈریشن نے ا نکو اس رقم کے تصرف کے لیئے کوئی پراجیکٹ دیا ہے یا یہ بھی ریوڑیوں کی طرع اپنوں میں ہی بانٹ لیئے جائیں گے۔ماضی میں بھی ان فنڈز اور امداد کا کوئی حساب کتاب نہیں ملتا۔نیب کے نوٹسز کا معاملہ بھی شاید اندر خانے کہیں دب گیا ہے۔
ضرورت ہے اہل قابل لوگوں کو سامنے لانے کی انکے ہاتھ میں فیڈریشن کی باگ دوڑ دینے کی اور میرٹ کو۔مقدم رکھنے کی۔۔پسند ناپسند کو ختم کیئے بغیر اور میرٹ کی بحالی کے بغیر پاکستان ہاکی اپنی آخری سانسیں بھی جلد پوری کر کے ہمیشہ کے لیئے دفن ہو جائے گی۔(اللہ نہ کرے) کہ وینٹیلیٹرز تو بس مصنوعی ہی سانس دے سکتے ہیں۔
اپنی رائے کا اظہار کریں