تو پھر ڈومیسٹک کرکٹ تماشے کا مقصد ؟
حال ہی میں شارجہ میں سعید اجمل کا پنجابی انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا جو خلاف توقع عالمی شہرت کی تمام حدوں کو کراس کرگیا اور ہر کسی نے وہ انٹرویو ڈاون لوڈ کرکے اپنے پیجز اور ویب سائٹس پر چلا کر خوب سستی شہرت حاصل کی ،،، بہت سے دوستوں نے مشورہ دیا کہ ان کے خلاف کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ کرو،،،،، مگر میں نے ایک ہی جواب دیا کہ میرا پیغام تو گھر گھر پہنچ رہا ہے نا ،،،،،،
اس انٹرویو میں سعید اجمل نے نہایت توجہ طلب امور پر با شگاف الفاظ میں اظہار کیا اور کہا کہ ثقلین مشتاق،توصیف احمد اور میرے ہوتے ہوئے ایک بھی معیاری آف سپنر کی عدم موجودگی کا ذمہ دار پاکستان کرکٹ بورڈ ہے کیونکہ وہ ہماری مہارت سے استفادہ حاصل نہیں کرنا چاہتے،،، ایسے حالات میں جو مرضی کر لیں آف سپنر نہیں ملے گا
میں نے جب ان سے پوچھا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کا کیا مستقبل ہے تو سعید اجمل نے کہا کہ جتنی محنتوں اور کاوشوں سے پی ایس ایل کروائی جارہی ہے اگر یہی توجہ ڈومیسٹک کرکٹ پر نہ دی گئی تو پاکستان کرکٹ کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے اور عدم توجہی کا یہی سلسلہ جاری رہا تو پی ایس ایل کے معیار پر بھی بھیانک اثرات مرتب ہونگے کیونکہ جب ڈومیسٹک کرکٹ میں اوسط درجے کے کھلاڑی سامنے آئیں گے تو پی ایس ایل کی ٹیمیں بھی کمزور ہونگیں
پی ایس ایل کے بعد کراچی میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے کھلا چاہتے ہیں اور ویسٹ انڈیز ٹیم کی کراچی آمد آمد ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی ٹیم کا اعلان کردیا گیا ہے جسکے مطابق عمدہ کارکردگی کے حامل آصف علی، حسین طلعت اور شاہین آفریدی کو قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا جبکہ سابق کپتان ٹی ٹونٹی محمد حفیظ کو خاطر خواہ کارکردگی کے باوجود توقعات کے عین مطابق ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا جبکہ کامران اکمل کو ہیروں سے جڑا بیٹ تو انعام میں دے دے گیا مگر ان سے قومی ٹیم میں کھیلنے والا بلا چھین لیا گیا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب یہ بیٹ ان کو کبھی بھی نہیں تھمایا جائے گا جبکہ محمد حفیظ کو بھی ٹیم واپسی کے لیے ایک بار پھر جہد مسلسل کرنا ہوگی
خیر یہ میرا آج کا موضوع سخن نہیں ہے بلکہ اعلان کردہ ٹیم سے ثابت ہوگیا کہ قومی ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے سرکسی کرکٹ پی ایس ایل میں کچھ کر کے دکھانا ہوگا جبکہ ڈومیسٹک کرکٹ جو کہ کسی بھی ملک کی سپریم کرکٹ ہوتی ہے میں چاہے کوئی چار من سکور بھی کرلے وہ کسی کھاتے میں نہیں آسکتا،،،، شان مسعود، فواد عالم،عابد علی اور امام الحق وہ ہونہار بلے باز ہیں کہ جنہوں نے حالیہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اتنے رن کیے ہیں کہ شاید کسی عام درجے کی ٹیم نے اتنے رنز نہ کیے ہوں،،، شان مسعود ملتان سلطانز کی ٹیم میں چنے تو گئے مگر وہ سوئنگ کے سلطان کو متاثر نہ کرسکے،،، فواد عالم کے رنزوں کے ڈھیر بھی چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ سے چیخ چیخ کر تقاضہ کررہے ہیں ” کہ میری باری کب آئے گی ؟ مگر افسوس کہ پی ایس ایل کی کسی ٹیم نے فواد عالم کو ٹیم کا حصہ نہ بنایا ،،، ہاں جب ٹیموں کے کھلاڑی خزاں کے پتوں کی طرح جڑھ رہے ہوتے تھے تو شاید کسی مینٹور یا ہیڈ کوچ کے ذہن میں آیا ہو کہ یار فواد عالم ہمارے ساتھ ہونا چاہیے تھا کہ جو وکٹ پر رکنا بھی جانتا ہے اور رنز کرنا بھی،،،،،
امام الحق بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں ڈبل سنچری وہ بھی فائنل میں کرکے بڑی تگ و دو کے بعد قومی ٹیم کا حصہ بنے اور صلاحیتوں کا لوہا سنچری بنا کر منوایا مگر المیہ ہے کہ وہ بھی نہ تو پی ایس ایل کے کسی مینٹور یا ہیڈ کوچ کو بھا سکے اور نہ ہی ویسٹ انڈیز کے خلاف چچا چیف سلیکٹر کو،،،، راولپنڈی میں ہونے والے ون ڈے کپ میں لاہور سے تعلق رکھنے والے عابد علی نے بھی ڈبل سنچری بناکر اپنا ہاتھ کھڑا کیا تھا مگر وہ بھی نہ تو کسی پی ایس ایل ٹیم کو متاثر کرسکے اور نہ ہی سلیکشن کمیٹی کو ،،، عابد علی کی یہ ڈبل سنچری محض اتفاقیہ نہیں تھی ،،، وہ تسلسل سے ڈومیسٹک کرکٹ میں مستند بلے باز ہونے کا دعوی اپنی کارکردگی سے کر رہے ہیں
یہ تو خیر سب جانتے ہیں کہ قومی ٹیم سلیکشن میں چیف سلیکٹر کے ساتھ ساتھ اس ہیڈ کوچ کی خواہش کو برابر اہمیت حاصل ہے جو اپنا ٹاسک مکمل کرتے ہی اپنے دیس کو کوچ کر جاتے ہیں اور وہ اپنی ذاتی پسند نہ پسندکے لیے اب عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں،،، اور جس کھلاڑی کے وہ ایک دفعہ خلاف ہوجائیں تو شاید وہاں چیف سلیکٹر بھی بے بس ہوجاتے ہیں،،،
آج کی تحریر لکھنے کا مقصد پی سی بی کے کڑوڑوں روپے بچانا ہے اور وہ ایسے کہ جب ڈومیسٹک کرکٹ کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی اس میں کارکردگی کسی کھلاڑی کو قومی ٹیم تک لاسکتی ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ اس تماشے کو بند کردیا جائے ،،، اور پی ایس ایل سے دو ماہ قبل فرنچائزز کے تعاون سے ایک ٹی ٹونٹی ٹورنامنٹ منعقد کروایا جائے اور اس میں کارکردگی دکھانے والے تین سو کھلاڑیوں کی لسٹ تیار کی جائے اور ڈرافٹنگ کے ذریعے پی ایس ایل ریس کے لیے گھوڑے چن لیے جائیں،،، اسی اچانک ٹورنامنٹ سے ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کے لیے بھی کھلاڑی منتخب کر لیے جائیں،،، آج سے کچھ عرصہ پہلے پی سی بی گورننگ باڈی کے اجلاس میں کسی نامعلوم ممبر نے بھی مشورہ دیا تھا کہ ڈومیسٹک کرکٹ بند کر دی جائے اور چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے بھی یہ بیان دیا تھا کہ ریجنل صدور اپنے اپنے ریجنز سے سپانسر لانے میں ناکام ہوچکے ہیں،،، یہ بیان خاصا حیران کن تھا کیونکہ پی سی بی کے پاس لاکھوں روپے بٹورنے والا شعبہ مارکیٹنگ ہے جو انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے تو سپانسرز لا سکتا ہے جو میں بھی لا سکتا ہوں مگر ڈومیسٹک کرکٹ کی باری ان کو انگلش بھی بھول جاتی ہے اور لفظی ڈرامے بازی بھی ،،،
امید کرتا ہوں کہ پی سی بی کو میرا مشورہ بہت اچھا لگے گا اور وہ جلد ہی ڈومیسٹک کرکٹ پپٹ شو بند کردیں گے اور سال کے سال ایک کاسمیٹک ٹورنامنٹ کروا کے پی ایس ایل اور قومی ٹیم کے لیے مین پاور حاصل کر لیں گے اور ویسے بھی ڈومیسٹک کرکٹ کو پاکستان میں ہوتے ہوئے بہت سال بیت گئے اور یہ اب بوڑھی اور ضعیف ہوچکی ہے اور جب بات ہورہی ہو ماڈرن ایج کرکٹ کی اور ٹیم میں جوان خون لانے کی تو ایسے میں ڈومیسٹک کرکٹ کے ساتھ وہی ہونا چاہیے جو گھر کو کھڑا کرنے والے بزرگ کا ہوتا ہے یعنی گھر کے باہر درخت کے نیچے چارپائی ،،، دستی پنکھے کی سہولت کے ساتھ
اپنی رائے کا اظہار کریں