مودی جی شائقین کرکٹ کے جزبات و لگاؤ سے نہ کھیلیں
جذبہ اور رقابت کا ایک طاقتور ذریعہ رہا ہے۔ یہ کھیل لاکھوں لوگوں کے لئے محض ایک کھیل نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے قومی فخر، جذبات اور شناخت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کئی سالوں سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچز دنیا بھر میں سب سے زیادہ منتظر کھیلوں میں سے ہیں۔ تاہم، اتنی زیادہ شائقین کی خواہش اور ان دونوں قوموں کے درمیان کرکٹ کھیلنے کی خواہش کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ بھارت گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان میں کسی بھی بائیلیٹرل کرکٹ سیریز میں شرکت نہیں کرتا۔ یہ صورتحال اس وقت کے باوجود ہے کہ دونوں طرف کے لاکھوں کرکٹ کے شائقین اس کھیل کو اپنے اپنے ملک میں دیکھنے کے لئے بے چین ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کا آغاز ان کی آزادی کے ابتدائی برسوں میں ہوا۔ دونوں ممالک کا برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت مشترکہ تاریخ تھی، اور 1947 میں ہونے والی تقسیم نے ایک ایسی مستقل تفریق پیدا کی جس کے سیاسی، ثقافتی اور سماجی اثرات تھے۔ کرکٹ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان رقابت ان سیاسی کشیدگیوں اور متنازعہ معاملات کی عکاسی کرتی ہے جو دونوں ممالک کی تشکیل کے بعد سے جاری ہیں۔
ابتدائی سالوں میں بھارت اور پاکستان نے کئی میچز کھیلے، لیکن جیسے ہی سیاسی کشیدگیاں بڑھنے لگیں، کرکٹ میچز کم ہونے لگے۔ دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد آئی۔ بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ پاکستان کے بنیاد پرستوں نے ان حملوں کی سازش کی تھی، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں کشیدگی آئی۔ یہی کشیدگی کرکٹ کے تعلقات پر بھی اثرانداز ہوئی، اور بھارت نے تب سے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کر دیا۔
پاکستان میں کرکٹ نہ کھیلنے کی سب سے بڑی وجہ سیکیورٹی سے متعلق خدشات ہیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد، بھارتی حکومت اور کرکٹ بورڈ نے کھلاڑیوں اور عہدیداروں کی حفاظت کے بارے میں خدشات کو اس بات کے طور پر پیش کیا کہ پاکستان میں میچ کھیلنا محفوظ نہیں ہوگا۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور عدم تحفظ کا احساس بھارت کے لیے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بن گیا۔
بین الاقوامی کرکٹ نے بھی اس خطے میں بڑھتی ہوئی سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر کھیلنے کے حوالے سے زیادہ محتاط رویہ اپنایا ہے، اور پاکستان خاص طور پر 2009 میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد بین الاقوامی ٹیموں کے لیے ایک محفوظ مقام کے طور پر کم ہی تسلیم کیا گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے بین الاقوامی کرکٹ کو دوبارہ اپنے ہاں لانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، لیکن بھارت سمیت کئی ممالک اب بھی پاکستان میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ کھلاڑیوں کی حفاظت ایک بڑی تشویش بنی ہوئی ہے۔
پاکستان کی سیکیورٹی کی حالت کو بہتر بنانے کے باوجود، بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) نے اب تک پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کیا ہے۔ سیاسی ماحول میں تناؤ اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتا ہے، اور بھارت کا فیصلہ کسی بھی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے عمومًا اس کے سفارتی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی تعلقات کرکٹ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگیں، سرحدی تنازعات، اور دیگر مسائل نے ان کے سیاسی رشتہ اور کرکٹ تعلقات کو متاثر کیا ہے۔ کرکٹ، جیسے دیگر بہت سے معاملات، سیاسی رقابتوں کا حصہ بن چکا ہے۔
بھارتی حکومت نے کشمیر کے تنازعہ اور سرحد پار دہشت گردی جیسے حل طلب مسائل کے سبب پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی تعلقات کے بارے میں سخت موقف اختیار کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں، بی سی سی آئی نے حکومت کے موقف کی پیروی کی، اور پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کا فیصلہ ایک سیاسی معاملہ بن گیا۔ بی سی سی آئی ایک آزاد ادارہ ہونے کے باوجود، اس کی سرگرمیاں اکثر وسیع تر سیاسی حالات سے متاثر ہوتی ہیں۔
کرکٹ بھارت اور پاکستان کے درمیان محض ایک کھیل نہیں بلکہ ایک قومی فخر کا اظہار بن چکا ہے۔ ان میچوں کا نتیجہ صرف میدان میں جیت یا ہار تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اور نظریاتی کشمکش میں ایک کامیابی یا ناکامی کی علامت بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدان کرکٹ کو سفارت کاری کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
جبکہ دونوں ممالک کے حکومتیں اور کرکٹ بورڈ اپنے موقف پر قائم ہیں، یہ اہم ہے کہ ان لاکھوں شائقین کی خواہشات کو بھی سمجھا جائے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کو دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ عام لوگوں کے لئے کرکٹ محض ایک کھیل نہیں، بلکہ ایک جذباتی ذرائع ہے۔ بھارتی اور پاکستانی کرکٹ کے شائقین کا کھیل کے لیے جذبہ اتنا مضبوط ہے کہ وہ قومی سرحدوں اور سیاسی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ دونوں طرف کے شائقین ہمیشہ کرکٹ کے ذریعے آپس میں تعلقات بہتر بنانے کی امید رکھتے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ کرکٹ دونوں قوموں کو یکجا کرنے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔
بہت سے شائقین دونوں ممالک میں کرکٹ تعلقات کے دوبارہ شروع ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، اور انہیں امید ہے کہ ایسا ہونے سے دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی آواز اکثر سیاسی رہنماؤں اور کرکٹ حکام کے فیصلوں میں دب کر رہ جاتی ہے جو اس صورتحال کو سیکیورٹی اور سفارتکاری کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) بھی اس صورتحال میں شامل ہے۔ اگرچہ آئی سی سی بین الاقوامی کرکٹ کو منظم کرنے کی ذمہ دار ہے، وہ کسی بھی ٹیم کو ایک دوسرے کے خلاف کھیلنے پر مجبور نہیں کر سکتی جب تک سیکیورٹی اور سیاسی وجوہات موجود ہوں۔ تاہم، آئی سی سی نے بھارت اور پاکستان کے درمیان نیوٹرل مقام پر کرکٹ میچز کھیلنے کی کوشش کی ہے، جیسے کہ 2011 کے ورلڈ کپ میں بھارت اور پاکستان کا میچ موہالی میں ہوا تھا، اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے میچز میں بھی ایسا کیا گیا۔ لیکن ان میچز نے بھی دونوں ممالک کے درمیان بائیلیٹرل کرکٹ تعلقات کو بحال کرنے میں کوئی مدد نہیں کی۔
مستقبل میں، یہ امید کی جا سکتی ہے کہ کھیل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور شائقین کی خواہش دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کا باعث بنے گی، لیکن موجودہ سیاسی ماحول میں یہ امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے کہ بھارت جلد پاکستان میں کرکٹ کھیلے گا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ نہ کھیلنے کی وجہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو تاریخی، سیاسی اور سیکیورٹی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے لاکھوں شائقین کرکٹ کے دوبارہ آغاز کے خواہش مند ہیں، بھارت کی حکومت اور بی سی سی آئی کی پالیسی پاکستان میں کرکٹ کھیلنے کے خلاف ہے۔ سیاسی ماحول، سیکیورٹی کے خدشات اور سفارتکاری کے اثرات نے اس کھیل کو دونوں ممالک کے درمیان ایک جیوپولیٹیکل مسئلے میں تبدیل کر دیا ہے۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوتے، بھارت کا پاکستان میں کرکٹ کھیلنا قریب مستقبل میں ممکن نظر نہیں آتا، اور شائقین کے دلوں میں یہ تمنا ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں