قومی ویمن کرکٹ ٹیم کی واپسی اور پی سی بی کی بے حسی
گزشتہ روز کھیلوں کی خبروں سے دلچسپی رکھنے والے شائقین نے ہر جگہ ایک خبر پڑھی ہوگی کہ قومی ویمن ٹیم ورلڈکپ میں بدترین کارکردگی کے بعد وطن واپس پہنچ گئی،،،،، پی سی بی کی جانب سے کوئی آفیشل یا متعلقہ ادارے کا فرد ایئرپورٹ پر موجود تھا اور نہ ہی کھلاڑیوں کے لیے پک اینڈ ڈراپ کا کوئی انتظام کیا گیا تھا،،،ورلڈکپ میں پاکستان کی جانب سے اچھی کارکردگی دکھانے والی نشرا سندھو اپنے والد کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھر روانہ ہوگئی جبکہ دیگر کھلاڑیوں نے بھی اپنی اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے اپنے اپنے انتظام کیے
یہ خبر خاصی تشویشناک ہے کہ ایک قومی ٹیم وطن واپس آئی اور اس کے لیے کسی قسم کا کوئی انتظام نہ کیا گیا اور کھلاڑی اپنے آپ کو ایئرپورٹ پر لاوارث اور تنہا محسوس کرتی رہیں،،،ایسا واقعہ مردوں کی ٹیم کے ساتھ پیش آتا تو شاید اتنی تکلیف نہ ہوتی،،، مجھے اندازہ ہے کہ خاتون کھلاڑی کرکٹ یا کوئی بھی کھیل کھیلنے کے لیے کس طرح اپنے والدین کو مناتی ہیں ،،،، ایسی بے حسی دیکھ کر کس کے والدین اپنی بچی کو سپورٹس میں حصہ لینے کی اجازت دیں گے،،، ایسا واقعہ اگر مرد ٹیم کے ساتھ ہوتا تو میڈیا پر بریکنگ نیوز چلتی اور ہر چینل بازی لے جانے کی کوشش کرتا کہ قومی ٹیم کو ایئرپورٹ پر بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا
مردوں کی کوئی ٹیم بھی اگر کہیں بری کارکردگی دکھا کر آتی ہے تو عموما کوئی ان کے استقبال کو نہیں پہنچتا مگر متعلقہ شعبہ ان کے لیے وہاں ضرور موجود ہوتا ہے،،،،چیمپیئنز ٹرافی کی فاتح ٹیم کے کھلاڑی وطن واپس آئے تو ہم نے دیکھا کہ پی سی بی اور حکومت پنجاب کے بڑے بڑے نام اپنی نیندیں قربان کرکے ایئرپورٹ پہنچے اور کیمرے میں آنے کے لیے وہ وہ جتن کیے کہ عام آدمی کی بھی ہنسی نکل جائے،،،،ورلڈکپ میں خواتین کی افسوسناک کارکردگی پہلی دفعہ ایسی نہیں تھی،،فرق صرف اتنا تھا کہ اب کی بار پوری قوم نے ٹی وی پر دیکھا کہ ہماری ویمن کرکٹ ٹیم کی اصلیت کیا ہے؟ ان میں کتنا دم خم ہے؟ شاید ہماری ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر ہی وقار یونس نے مشورہ دیا تھا کہ ویمن کرکٹ 30 اوورز تک محدود کردی جائے،،، یہ بیان دینا تھا کہ وقاریونس کو دنیائے ویمن کرکٹ سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور مجبورا ان کو وضاحتی بیان دینا پڑا کہ انہوں نے یہ تجویز اس لیے دی کہ کرکٹ میں دلچسپی برقرار رہے اور کھلاڑی اپنی اہلیت کا بھرپور مظاہرہ کرسکیں،،،، ہماری ویمن ٹیم میں رہنا چاہے آپ جتنی مرضی ٹیلنٹڈ ہیں ایک آرٹ ہے اور اتنی شدید سیاست مردانہ کرکٹ ٹیم میں نہیں جتنی ہماری خواتین اس میں ماہر ہیں،،،،سدرہ امین، انعم امین ، نداء ڈار جیسے بہت سارے نام ایسے ہیں کہ جن کو اتنی خوبصورتی سے ٹیم سے نکال باہر کیا گیا کہ کسی نے پوچھا تک نہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا،،،ویمن ٹیم کا ہیڈکوچ بھی ویمن ٹیم کی مرضی کے مطابق چلے تو قائم رہتا ہے چاہے منصور رانا ہو یا باسط علی،،،،گزشتہ دس برس میں ٹیم سے وہی آوٹ ہوا جس کو ٹیم انتظامیہ نے آوٹ کیا یا پھر وہ کہ جنہوں نے سمجھا کہ بہت ہوگئی اب گھر بسایا جائے ،،،،
اب ہوگا کیا؟ آئندہ ورلڈکپ کے موقع پر ٹیم ورلڈکپ کوالیفائر کھیلے گی اس میں کامیابی حاصل کرے گی اور میڈیا پر بریکنگ نیوز کی لائنیں لگ جائِں گی کہ ٹیم نے ورلڈکپ کے لیے کوالیفائی کرلیا،،،چیئرمین پی سی بی کی جانب سے بھی مبارکباد اور شاید انعام کا اعلان بھی کردیا جائے کہ ٹیم پاکستان ورلڈکپ کھیلنے کی اہل ہوگئی،،،،،،ورلڈکپ کوالیفائر کھیلنا کیوں پڑا؟ یہ آج تک کسی نے نہیں سوچا یا پھر سوچنے نہیں دیا گیا،،،، ٹیم کی بری کارکردگی پر ذیادہ لکھنے کی ضوررت اس لیے نہیں کہ سب نے ان کا کیا دھرا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا،،، ہر کسی کو پتہ لگ گیا کہ ویمن ٹیم کی سلیکشن اور ٹیم کا معیار کیا ہے؟ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی جس کا منہ چپ کروانا ہو اسے ویمن ٹیم کا چیف سلیکٹر بنا دیتا ہے اور سلیکشن کمیٹی وہی کرتی ہے جو اسے ٹیم منیجمنٹ کرنے کو کہتی ہے،،،، خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ ثناء میر سے کپتانی واپس لی جارہی ہے،،، میرا اندازہ ہے کہ ثناء میر ایک ذہین خاتون ہیں اور وہ خود ہی استغفی دے کر ایک سائیڈ پر ہوجائیں گی کیونکہ انہوں نے لگ بھگ ایک دہائی مکمل بااختیار کپتان کے طور پر ٹیم کو چلایا ،،،، ان کی ہر خواہش کو پی سی بی نے من و عن پورا کیا،،، دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنے لمبے عرصے کے لیے ثناء میر کو قیادت کرنے دی گئی کسی کے حصے میں اتنا لمباعرصہ نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی اتنا بااختیار کپتان ہوگا کہ جتنی ثناء میر رہیں
بات چلی تھی ویمن ٹیم کی وطن واپسی اور پی سی بی کی بے حسی کی کہ خواتین کھلاڑی وطن واپس آئیں مگر ان کو ایئرپورٹ سے لینے پی سی بی کا متعلقہ شعبہ بھی غائب تھا،،،ویمن کرکٹرز کو اپنے اپنے مقام تک پہنچنے کے لیے خود ہی انتظامات کرنے پڑے،،،خصوصا وہ کھلاڑی جنکا تعلق دوسرے شہروں سے تھا ان کو خاصی دقت کا سامنا رہا ،،،،، مگر مجھے آج کی تحریر لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی یا یوں کہہ لیجیے کہ دیکھنے میں چھوٹی سے بات نے آج کی تحریر لکھنے کو اکسایا کہ نشرا سندھو کے والد جب اپنی بیٹی کو ایئرپورٹ سے موٹر سائیکل پر گھر واپس لا رہیں ہونگے تو ان کے ذہن میں کیا کیا سوالات جنم لے رہے ہونگے کہ ان کی بیٹی ایک قومی کھلاڑی ہے اور کیا ایک قومی کھلاڑی کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ اسے ہوائی جہاز سے اتار کر گھر پہنچنے کے لیے والد کے موٹر سائیکل کا سہارا لینا پڑتا ہے
پاکستان کرکٹ بورڈ کے دعوی کسی ترقی یافتہ ملک سے بھی بڑے ہوتے ہیں مگر جیسے ویمن ٹیم واپس آئی اور جیسا ان کے ساتھ سلوک کیا گیا اس سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے بڑوں کی سنجیدگی اور پروفیشنل ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
اپنی رائے کا اظہار کریں