پاکستان کے لیے کھیلو پاکستان سے نہیں۔۔۔
پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ آہستہ آہستہ مکمل طور پر بحال ہو رہی ہے اور آج کل زمبابوے کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی ہے پاکستانی اپنی مہمان نوازی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں پاکستانیوں نے اپنے مہمانوں کا ہمیشہ اچھے طریقے سے خیال رکھا چاہیے ان کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو اس کی تازہ ترین مثال پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی زمبابوے کی کرکٹ ٹیم ہے
منگل کی شام زمبابوے کی نا تجربہ ٹیم نے راولپنڈی کے پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں میں کھیلے جانے والے تیسرے ایک روزہ انٹرنیشنل میچ میں پاکستان کو سپر اوور میں شکست دی تو دل ناداں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ مہمانوں کو بھی خوش ہونے کا موقع ملنا چاہئے مگر دماغ نے پاکستان کی اس شکست پر کچھ اور ہی کہا۔۔
اگر پاکستان کی زمبابوے کے خلاف اس سیریز کی بات کی جائے تو یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ زمبابوے کی ناتجربہ کار ٹیم نے پاکستان کی ٹیم کو ون ڈے سیریز میں ناکوں چنے چبانے پر مجبور کیا ہے اگرچہ پاکستان کی ٹیم میں بہت سے نئے کھلاڑیوں کو موقع دیا گیا مگر پاکستان کی ٹیم میں جس چیز کی حقیقت میں تبدیلی ہونی چاہیے وہ تبدیلی ابھی تک نہیں ہوئی اور وہ چیز ہے سوچ کی تبدیلی۔۔دنیا بھر میں تمام ٹیمیں ون ڈے میچز میں کم از کم 300 سے 350 رنز بنانے کا ذہن میں رکھ کر کھیلتی ہیں وہیں پر پاکستان کرکٹ ٹیم 250 سے 270 رنز بنا لینا اپنی کامیابی سمجھتی ہے جو آج کل کی ماڈرن کرکٹ کے لحاظ سے بہت کم ہے
ایسے لگتا ہے ابھی تک بہت سے پاکستانی کھلاڑی ٹیم میں ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ٹیم کا حصہ نہیں سمجھ رہے اور ان کو ڈر ہے ان کو ٹیم سے نکال نا دیا جائے جس وجہ سے وہ ٹیم کے لیے کم اور اپنے لیے زیادہ کھیلتے ہوئے نظر آ رہی ہیں زمبابوے کی نا تجربہ کار ٹیم کا پاکستان کے خلاف دو مرتبہ 250 سے زیادہ اسکور کرنا زمبابوے کی کامیابی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ٹیم کے کمبینیشن پر بھی بہت سے سوالات اٹھاتا ہے راولپنڈی میں ہونے والے ان میچز میں 4 تیز گیند بازوں کے ساتھ جانا اور کسی ریگولر آہستہ گیند بازی کرنے والے کو کھلانا سمجھ سے باہر ہے اگرچہ افتخار احمد نے دوسرے ایک روزہ انٹرنیشنل میچ میں 5 وکٹیں ضرور حاصل کیں مگر وہ ریگولر گیند بازی کرنے والے نہیں ویسے جس طرح سے ان پر مہربانیوں کا سلسلہ جاری ہے تو وہ وقت دور نہیں کہ وہ پاکستان کی ٹیم کے کپتان بھی بنا دیئے جائیں( ابھی ایسا ممکن نظر نہیں آتا مگر یہ پاکستان کرکٹ ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے ) تیسرے ایک روزہ انٹرنیشنل میچ میں افتخار احمد کو سپر اوور میں فخر زمان اور حیدر علی سے پہلے بھیجنا کافی حیران کن ہے
اس بہتر ہوتا اگر اس میچ میں کافی عرصے سے بینچ پر بیٹھے عثمان قادر اور ٹی 20 کپ کی پرفارمنس پر سلیکٹ ہونے والے عبداللہ شفیق کو موقع دیا جاتا سابق چیف سلیکٹر کی سلیکشن بھی کافی حیران کن رہی ہے ایسے لگتا ہے کچھ کھلاڑیوں کو صرف سیر کروانے کے لیے ٹیم کے ساتھ رکھا گیا ویسے سابق چیف سلیکٹر کی سخاوت کی داد دینی پڑے گی انہوں نے ہمیشہ ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا ہے جو سوائے ایک دو میچز کے کھبی پرفام نہیں کر سکے چاہیے وہ افتخار احمد ہوں یا فہیم اشرف۔۔۔انہوں نے اپنی طرف سے انہیں ہیرو بنانے کی پوری کوشش کی ہے مگر اب دیکھنا یہ ہو گا کہ نئے چیف سلیکٹر بھی کچھ مخصوص کھلاڑیوں پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھیں گے یا پھر وہ ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کریں گے جو سالوں سے ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں پاکستان کی ٹیم کو اس وقت نمبر 6 یا 7 پر ایک ایسا بیٹنگ کرنے والا کھلاڑی چاہیے جو میچ کو اچھے طریقے سے ختم کر سکے میرے خیال میں خوشدل شاہ وہ کھلاڑی بن سکتے ہیں مگر اس کے لیے انہیں پورا اعتماد اور موقع دینا ہو گا اس کے ساتھ ساتھ اب وقت آگیا کہ افتخار احمد اور فہیم اشرف کی جگہ کسی اور کو موقع دیا جائے
بات ہو رہی تھی پاکستان اور زمبابوے کی مگر کہیں اور نکل گی زمبابوے کی ٹیم نے 22 سال بعد پاکستان کو پاکستان میں ہرایا ہے جس پر ان کی تعریف کرنا لازمی بنتی ہے
زمبابوے کی ٹیم نے اس دورے میں یہ بات بھی ثابت کر دی کہ جیتنے کے لیے لازمی نہیں کہ کوچز کی ایک فوج آپ کے ساتھ ہو بلکہ اگر تمام کھلاڑی اپنی بجائے ٹیم کے لیے کھلیں تو کامیابی حاصل کرنا مشکل نہیں۔۔۔ویلڈن زمبابوے
اپنی رائے کا اظہار کریں