کالیاں آندھیاں — کل — اور — آج
ھم نے تو بابا کھیل ھی کھیل میں کرکٹ کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ضرور دیکھا ھے یقین نہ آئے تو پھلے دس روزہ ٹیسٹ سےپانچ دن پھر پچاس روزہ پھر ٹی ٹوئنٹی پھر ٹین اوورز سپرسکس تک کیا جی پھر اوورکیا اور تو اور سفید ڈریسز سے رنگ برنگی قوس قزع کے رنگ پھنے ھوئی یہ کھلاڑی سچ بھی گرگٹ بن کر گرانڈ میں دوڑتے ھوئے بھی دیکھے ھیں ویسے بھی ھمارے کھلاڑیوں کا موڈ انداز بھی رنگ بدلتے دیر نہیں کرتا حتکہ انکے کوچز ٹرینرزفزیوتھراپسٹ کو بھی اسی رنگ ڈھنگ میں اکثر ڈھلتے دیکھا گیا ہے خیر کیا زمانا تھا جب دنیائے کرکٹ میں ایک رنگ’کالی آندھی’ بن کر چھایا ھوا تھا اور ویسٹ انڈیز کا سکا ایسا جما ھوا تھا کے ساری ٹیمیں خاص کرکے انکے بالرز سے ایسی ڈری ھوتی تھی کہ بیٹسمین گراونڈ میں جانے سے پھلے گھر کے افراد اور یار دوستوں سے بھی اختتامی ملاقاتیں کرتے اور وصیتیں کرتے دکھائی دیتے تھے
ویسے کچھ’بھادر بچے’انکے سامنے کھڑے بھی ھوجاتے تھے جس میں ھماری ٹیم کے وسیم حسن راجا اور جڑواں بھائی ویسٹ انڈیز کا’قاسم عمر’ نمایاں ھوتے تھے(اس زمانے میں پی ٹی وی پر اک پروگرام ‘ففٹی ففٹی کے’خاکے آج تک بھی ان لوگوں سے نھی بھولے جب ‘دھوکا’ ھے یا سگریٹ سلگی ھوئی بیٹسمین پویلین میں ساتھی کو دے کر کھتا ھے کہ اسے سبنھالو میں یہ گیا یے آیا جیسے یادگار خاکے اس زمانے کی کالی آندھی پر بنائے گئے تھے)
ویسے کھیلوں میں سب سے زیادہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلے بھی کرکٹ نے ھی اس لئے پھلے جب کھلاڑی اپنے ھی ملک کی طرف سے کھیلتے تھےتوانکی کارکردگی پر کبھی بھی سوالیا نشان نہیں لگتا تھا مگر اک زمانا ایسا آیا جسمیں پھر’کیری پیکر’ کی دبنگ آمد ھوئی تو اس کھیل کے ساری رونقیں بدل گئی معصومیتں چھن گئی ساری وفائوں کی بولیاں لگیں،،، کھلاڑیوں کو جس طرح ‘پئسوں’ کیطرف مائل کیا اس سے تو کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان ھوا پر کھلاڑیوں کو ناقابل ترین فائدے ھوئےاُسی دور کے بعد’پڑھوگے لکھوگے بنوگے نواب کھیلوگے کودوگے بنوگے خراب ‘ کی لغت الٹی ھوگئی پھر کیا تھا دھڑادھڑا کھیلنے سے کھلاڑیوں کی فٹنس تو سوالیا نشان بن گئی پر معاھدوں کی وجہ سے کھلاڑی اپنے اپنے ملکوں کو بھی دستیاب کم ھوتے تھے پر اب جیسے کے بارھ مھینے کھلاڑی ‘بزی’ ھوتاھے تو اس کے لئے اب انتظام یے ھوتا ھے کے کوئی نہ کوئی کھلاڑی ‘بارھواں’ ضروررکھا جاتا ھے جو مشکل وقت میں کچھ اور کرے نہ کرے فیلڈنگ ضرور کرے گا تاکہ زیادھ پئسے لینے والا’کھلاڑی تھکنے’ سے بچ جائے’پاکستان سپرلیگ اختتام پزیر ھوگئی تو احساس ھوا کے بھت سے کھلاڑی ‘ریلوکٹے’ نہیں تھے اوربھت دھوپ گرمی میں اور دبئی شارجا میں کھیل کھیل کرسب کے سب’ویسٹ انڈیز’ کی ٹیم بن گئے تھے اور ھر ٹیم کا کھلاڑی ڈیرن سیمی جیسا دکھتا تھا بلکے ھمارے کمنٹیٹرز بھی ویوین رچرڈز کا سایا ھوگئے تھے پر جیسے کے ھر تماشے کے پیچھے تماشائی ھوتے ھیں جس کی کمی دور دور تک دبئی اور شارجا کے گراونڈ میں شدت سے محسوس کی گئی کیوںکہ کھلاڑی توآپ پئسوں سے لاسکتے ھیں پر؟ تماشائی تو اپنے پیسے خرچ کرکے کھیل دیکھنے آتے ھیں دیکھنا ھے کہ آگے ھمارا بورڈ کیا پلان کرتا کیوںکہ تین میچ اپنے ملک میں ھونے سے اس کا رنگ ڈھنگ ھی بدل گیا اور اب آنے والے سیریز پر سب کی نظر ھے جو ویسٹ انڈیز سے ٹی ٹوئنٹی کے تین لگاتار میچز کی ھے اور سندھ کا شھر کراچی اس دفعا اسکی میزبانی کریگا تویے یقین ھےکے ؟ تماشائی بھی ھونگے کھیل بھی خوب ھوگا اورجیت ھماری ھوگی کیوںکہ آج کی ویسٹ انڈیز کی ٹیم ‘کالی آندھی’ نہیں کے جس کے ڈرسے کوئی تتر بتر ھوجائے بلکے آج کی ویسٹ انڈیز ٹیم کو آسانی سے ھرا کر پوزیشن بھترین کرنے کا اک سنہری موقع بھی ھے پرھمیں یے بھولنا نھی چاھیئے کے؟ ھم بھی ‘وہ’ ٹیم ھیں جو جیتے ھوئی میچ بھی ھاتھ میں آئے ھوئی آسان کیچ کی طرح گرا دیتے ھیں۰۰۰۰۰۰!
اپنی رائے کا اظہار کریں