ٹیمیں تنقید سے نہیں تعریف سے ابھرتی ہیں
پاکستان ساوتھ افریقہ ٹیسٹ سیریز 2۔۔0 سے پاکستان کے نام ہوئی
پاکستان نے پہلے میچ میں 7 وکٹ سے جیت اپنےنام کی اور دوسرے میچ میں 95 رنز سے فتح سمیٹی۔
دونوں میچز میں اچھی چیز پاکستانی کھلاڑیوں کی ٹیم سپرٹ اور فائیٹ بیک تھی۔فیلڈنگ کا معیار جو ہمیشہ سے سوالیہ نشان رہا اس سیریز میں بہت بہتر نظر آیا شاندار کیچز اور دو میچز میں چار رن آوٹ فیلڈنگ کی بہتری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
بابر اعظم نے بحثیت کپتان اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔فیلڈ پلیسنگ اور بولرز کا استعمال درست اور بروقت تھا۔گراونڈ میں پلیرز کی باڈی لینگوئج یہ خبر دے رہی تھی کہ نیوزی لینڈ کی سیریز کے بعد مینجمینٹ نے کھلاڑیوں پر کافی محنت کی۔
محمد رضوان کی وکٹ کیپنگ اور زمہ دارانہ بیٹنگ اورانتہائی اہم موقع پر سینچری سکور کرنا پاکستان کو مستقبل کے عظیم وکٹ کیپر بیٹسمین کی نوید دے رہا ہے
فہیم اشرف کی صورت میں لوئر مڈل آرڈر میں پاکستان کو ایک بہترین قابل اعتماد بیٹسمین میسر آیا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ فہیم اپنی بولنگ میں بھی اسی طرع نکھار لائے جیسے بیٹنگ میں لایا۔فہیم اشرف کی نیوزی لیند کے لیئے ٹیسٹ سیریز میں انتخاب پر مصباح پر بے حد تنقید ہوئی لیکن فہیم نے اپنا انتخاب درست ثابت کیا۔اسی طرع فواد عالم نے بھی طویل مدت بعد ٹیم میں واپسی کو اپنی کارکردگی سے درست ثابت کیا۔اور فواد کی واپسی میں بھی مصباح الحق کا کردار نمایاں ہے
حسن علی کی واپسی شاندار رہی اور دوسرے میچ میں دس وکٹ لے کر وہ مرد میدان رہے۔
شاہین آفریدی کے بارے میں میرا زاتی موقف یہ ہے کہ اسے سنبھال کر دیکھ بھال کے استعمال کیا جانا چاہیئے۔خدشہ ہے کہ مسلسل ٹیسٹ میچز کہیں شاہین کی ٹی ٹوینٹی اور ون ڈے میں کارکردگی کو متاثر نہ کریں۔
مجموعی طور پر ٹیم کے ہر کھلاڑی نے بیٹنگ بولنگ فیلڈنگ سے ٹیم کی فتح میں اپنا حصہ ضرور شامل کیا۔
اوپنرز کی مسلسل ناکامی تشویش کا باعث ہے۔خاص طور پر عابد کا پچھلے چھ سات میچز میں قابل زکر سکور نہ کرنا بہت اہم مسئلہ ہے۔یوسف یونس مصباح کو دیکھنا ہو گا کہ عابد کے ساتھ کیا تکنیکی ایشو ہے۔فٹ ورک کا مسئلہ ہے۔اعتماد کی کمی ہے۔ٹائمنگ ایشو ہے یا بیٹنگ آرڈر مسئلہ ہے۔زیادہ بہتر ہوتا کہ عابد کو اس میچ میں ریسٹ دے کر اظہر سےاوپن کروائی جاتی اور سعود شکیل کو ٹیم میں شامل کیا جاتا۔اگر وننگ کمبینیشن کو توڑنے سے گریز کیا جا رہا تھا تو عابد کو مڈل آرڈر میں کھلایا جاتا اور اظہر سے اوپن کروائی جاتی۔
پی سی بی کو اس بات کی داد نہ دینا ناانصافی ہو گی جو انھوں نے کراچی اور راولپنڈی کی اچھی وکٹ بنا کر دونوں میچوں کو فیصلہ کن بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
کراچی کی وکٹ پر اگرچہہ ہمارے دونوں سپنرز کامیاب رہے لیکن تشویشناک بات یہ ہوئی کہ راولپنڈی کی وکٹ پر ہمارے دونوں سپنرز بری طرع ناکام ہو گئے دونوں کے میچ میں 74 اورز میں 200 سے ذائد سکور بنے اور پورے میچ میں دو وکٹیں ہمارے سپنرز کو ملیں۔یاسر شاہ کی بولنگ کچھ عرصہ سے کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔بیٹسمین پر وہ پریشر اور بولنگ میں وہ تسلسل نہیں ہے جو یاسر شاہ جیسے پلیئر سے متوقع تھا۔ثقلین مشتاق مشتاق احمد سعید اجمل کی خدمات سے مستفید ہو کر یاسر نعمان نواز کی بولنگ کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے
میرا ذاتی طور پر خیال ہے کہ عثمان قادر کو ہوم سیریز میں کھلانا چاہیئے تھا۔وہ ٹیلنٹڈ لڑکا ہے۔اگر ہم نئے کھلاڑیوں کو ہوم سیریز میں چانس دیں گے تو ان کا اعتماد بڑھے گا۔
آخری بات کہ ہم شائقین کو سوشل میڈیا پر اپنے ہی ملک کے کوچز اور کھلاڑیوں پر بے جا ہوٹنگ تنقید سے پرہیز کرنا چاہیئے۔نئی ٹیم ہے۔تھوڑا وقت لگے گا۔ایک دو میچ ہارنے یا ایک دو اننگز کی ناکامی پر اسکو نکالو اسکو شامل کرو فلاں سے استعفی لو۔فلاں نااہل ہے کا شور اب ختم ہونا چاہیئے اور پی سی بی اور ٹیم منیجمنٹ کے ہر فیصلے کے مستقبل کے نتائج کا تھوڑا انتظار کرنا چاہیئے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں