ہمارے لائق کوئی اور خدمت،مصباح،وقار کو خراج تحسین
پاکستان نے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں ساؤتھ افریقہ کو دوسرے اور آخری ٹیسٹ میچ میں 95 رنز سے شکست دے کر سیریز 0_2 کے مارجن سے اپنے نام کرلی۔پاکستان نے تقریباً 17 سال بعد ساؤتھ افریقہ کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دی ہے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان نے ساؤتھ افریقن ٹیم کو ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کیا ہے۔ٹیم پاکستان پہلی مرتبہ بابر اعظم کی کپتانی میں کھیلی اور دونوں ہی ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کی۔دوسرے ٹیسٹ میچ میں 10 وکٹیں حاصل کرنے والے حسن علی میچ کے بہترین جبکہ اس ٹیسٹ میچ میں اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے والے اور سیریز کی 3 اننگز میں 166 رنز سکور کرنے کرنے والے وکٹ کیپر محمد رضوان میں آف دی سیریز قرار پائے۔اس سیریز میں فواد عالم اور نعںمان علی کر پرفارمینس اور حسن علی کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں پرفارم کرکے کم بیک کرنے اور پرفارم کرنے نے ڈومیسٹک کرکٹ کو پی ایس ایل پر فتح دلادی۔ہمیں اس جیت نے بتا دیا کہ اگر ٹیسٹ کرکٹ میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو پی ایس ایل کے سحر سے باہر نکل کر ڈومیسٹک کرکٹ یعنی فرسٹ کلاس کرکٹ پر توجہ دینا ہوگی۔اس سیریز میں پاکستان کی فیلڈنگ میں حیران کن بہتری نظر ائی خاص طور سلپ کیچنگ میں عمران بٹ نے سب کو حیرت زدہ کردیا سابق کپتان وسیم اکرم نے تو یہ کہہ دیا کہ عمران بٹ ان کی نظر میں پچھلے 7 سے 8 سال میں پاکستان کو سب سے بہترین سلپ فیلڈر ملا ہے۔فہیم اشرف کی کارکردگی ایک نمایاں چیز رہی۔پاکستان کی طرف سے فہیم اشرف کریز پر سب سے زیادہ کنٹرول میں اور پر اعتماد نظر ائے۔یہ پاکستان کے لیے ایک بہت ہی مثبت پہلو رہا۔پاکستان کے باؤلرز نے اسپن اور فاسٹ باؤلنگ دونوں شعبوں میں متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔پہلا ٹیسٹ اسپنرز کے نام اور دوسرا فاسٹ باؤلرز کے نام رہا۔بیٹنگ کے شعبہ میں پاکستان ٹیم میں کافی بہتری کی گنجائش نظر آرہی ہے۔فواد عالم اور اظہر علی نے اچھا کھیلا۔کپتان بابر اعظم بڑا سکور کرنے میں ناکام رہے۔لیفٹ آرم اسپنر پر انکی کمزوریاں سامنے آئیں۔عابد علی اور عمران بٹ مکمل طور پر ناکام ہوئے۔اب ٹیسٹ کرکٹ میں ان کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگیا ہے۔لیکن مجموعی طور پر پاکستان ٹیم نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا اور سیریز اپنے نام کی۔ یہاں پر ہمیں اپنے قومی کوچز کو کریڈٹ دینا ہوگا اور ساتھ ہی نیشنل ہائی پرفارمینس سنٹر کوچز کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔جن میں محمد یوسف،ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد شامل ہیں۔قومی ہیڈ کوچ مصباح الحق،باؤلنگ کوچ وقار یونس اور بیٹنگ کوچ یونس خان نے شاندار کام کیا۔گزشتہ کچھ وقت سے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز نے دن رات قومی کوچز خاص طور پر مصباح الحق اور وقار یونس پر تنقید کے نشتر چلائے لیکن انہوں نے کسی کو بھی زبان سے جواب دینے کے بجائے کاکردگی سے خاموش کرادیا۔اب دیکھنا ہوگا کہ مصباح الحق اور وقار یونس پر تنقید کرنے والے پاکستان ٹیم کی جیت کا کریڈٹ کس انداز میں کس کو دیتے ہیں؟پاکستان ٹیم کی اس جیت سے کچھ پلیئرز کا کیرئیر بھی تقریباً اختتام پذیر ہوگیا۔ہم اپنی ٹیم کو اس شاندار تاریخی فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔اب لاہور میں 3 ٹی ٹوینٹی سیریز کھیلی جائے گی۔ہمیں مستقبل میں بھی اپنی ٹیم اور اپنے کوچز سے اچھی کارکردگی کی توقع ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں