سانپ نکلتا ہے کل پٹاری سے یا لالی پوپ
ساؤتھ افریقہ کرکٹ ٹیم تقریباً 14 سال بعد پاکستان آرہی ہے۔یہ پاکستان کے کرکٹ شائقین کے لیے ناقابل فراموش اور خوشی کا موقع ہے۔انشااللہ یہ دورہ پاکستان میں کرکٹ کے میدانوں کو آباد کرنے میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا۔ساوتھ افریقہ کی آمد سے دوسری بڑی ٹیموں کا پاکستان کی سیکیورٹی پر اعتماد بڑھے گا۔ یقیناً سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کا پاکستان میں آکر ٹیسٹ سیریز کھیلنا پاکستان کے لیے کافی سود مند ثابت ہوا اور یہ دورہ ساوتھ افریقہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے لیکن جنوبی افریقہ کی آمد بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے موجودہ انٹرنیشنل کرکٹ میں سری لنکا اور بنگلہ دیش ٹیموں کا قد جنوبی افریقہ سے کم تصور کیا جاتا ہے۔اس لیے ہم بڑے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ بحال ہونے کے بعد کسی بھی بڑی ٹیم کا پہلا دورہ پاکستان ہے۔ہماری نیک خواہشات دونوں ٹیموں کے ساتھ ہیں۔تو آئیے اب کچھ ذکر ہو جائے ہم سب کی اپنی،تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے والی بڑی لاڈلی ٹیم پاکستان کا۔تو جناب ہماری ٹیم حال ہی میں دورہ نیوزی لینڈ سے بری طرح ناکام لوٹی ہے۔چلو خیر ہے کیونکہ ہمیں توقعات بھی کچھ ایسی ہی تھیں۔اب سوشل میڈیا پر جتنے بھی فینز کھلاڑیوں اور مینجمنٹ پر بھڑاس نکال رہے ہیں وہ سارے بیچارے جذباتی فینز ہیں ان کی نسبت میرے جیسے حقیقت پسند فینز تقریباً خاموش نظرآتے ہیں۔اب کیا ہوا سارا گند دھونے اور شائقین کو دلاسہ دینے کے لیے ٹیم پاکستان اورٹیم مینجمنٹ نے ساؤتھ افریقہ کے خلاف ہوم سیریز میں کمر کس لی ہے امید ہے اب ہماری ٹیم ہمیں تم جیتو یا ہارو سننے پر مجبور نہیں کرےگی۔جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان ٹیم کا امتحان تو 26 جنوری کو کراچی میں شروع ہوگا لیکن ٹیم کے ایک سالار کا امتحان کل ہوگا۔جی ہاں میں بات کر رہا ہوں نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم اور ان کے امتحان کی کیونکہ کل وہ پہلی مرتبہ پاکستان ٹیسٹ ٹیم کا اعلان کریں گے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نئے چیف صاحب اس امتحان میں کھرے اترتے ہیں یا دل اترتے ہیں۔کل سوشل میڈیا پر اجلاس کی ایک تصویر شائع ہوئی جس میں ہیڈ کوچ مصباح الحق،وقار یونس،ثقلین مشتاق،اعجاز احمد اور ندیم خان نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم کی سربراہی میں بیٹھے تھے تو اس تصویر کو دیکھنے کے بعد میرے دل میں خیال آیا اور اس خیال نے مجھے ہنسنے پر مجبور کردیا تو چلو دوستوں وہ بات آپ سے بھی شیئر کردوں تصویر دیکھنے کے بعد خیال آیا کہ کبھی محمد وسیم نے سوچا ہوگا کہ میں ان لیجنڈز کی سربراہی کروں گا ۔وقار یونس،مصباح الحق اور ثقلین مشتاق جیسے لیجنڈز بھی میری بات غور سے سنیں گے۔یہ سب باتیں سائیڈ کردیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا نئے چیف سلیکٹر نیوزی لینڈ میں ناکام ہونے والی ٹیسٹ ٹیم پر بھروسہ کرتے ہیں یا مکمل طور پر ایک نیا سیٹ دیکھنے کو ملے گا؟؟ ہر ناکام ٹور کے بعد میڈیا اور فینز کو ڈومیسٹک پرفارمرز کی یاد ستاتی ہے ہر بندے کی زبان پر ڈومیسٹک پرفارمرز کے قصے ہوتے ہیں حال ہی میں پاکستان کے پریمئر ڈومیسٹک کرکٹ ٹورنامنٹ قائدِ اعظم ٹرافی کا اختتام ہوا۔جس میں پہلی بار ٹرافی شئیر ہوئی۔اس ٹورنامنٹ کے ٹاپ پرفارمرز میں کامران غلام جو کہ لیڈنگ رنز سکورر اور آف اسپنر ساجد خان لیڈنگ وکٹ ٹیکر تھے دونوں کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔ان کے علاوہ عثمان صلاح الدین،عادل امین،سعودشکیل،آغا سلمان اور حماد اعظم شامل تھے جبکہ باولنگ میں ساجد خان،نعمان علی،زاہد محمود،حسن علی اور وقاص مقصود کے نام نمایاں تھے۔حسن علی جو کہ مین آف دی ٹورنامنٹ کا ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے ان کا پاکستان ٹیم میں کم بیک یقینی لگ رہا اس کے علاوہ فی الحال کوئی بھی نام واضح نہیں۔اب کل سارا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا کیا آزمائے ہوئے گھوڑوں کو اس ہوم ٹریک پر دوڑا کر ان کا اعتماد بحال کیا جائے گا۔ یا پھر نوجوان خون پر داؤ کھیلا جائے گا۔
اپنی رائے کا اظہار کریں