قومی ٹیم انتہائی جانفشانی اور غرق ریزی کے باوجود کیسے ہار گئی ؟
کل مورخہ دو اکتوبر 2022 بروز اتوار دو ٹی 20 میچز ایسے ہوئے جس میں رینکنگ میں ورلڈ نمبر ایک انڈیا کا مقابلہ نمبر چار رینکنگ والی ساؤتھ افریقہ سے اور ورلڈ نمبر دو انگلینڈ کا مقابلہ ورلڈ نمبر تین پاکستان سے تھا۔دونوں میچز کی چار اننگز میں سے تین میں ڈبل سینچری سکور ہوا۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ماسوائے پاکستان کے باقی تمام ٹیمز کی پوری اننگز میں تین تین وکٹیں ہی گریں۔
دونوں میچز میں سوچ اپروچ کا واضح فرق دیکھا گیا۔
دونوں میچز میں پہلے بیٹنگ والی دونوں ٹیمز انڈیا انگلینڈ نے اپنی مخالف ٹیم کے خلاف بالترتیب 237 اور 209 رنز بنائے۔
انڈیا کے اپنے ہوم گراؤنڈ پر 237 رنز کے تعاقب میں ساؤتھ افریقہ کے ایک سکور پر دو وکٹیں گر چکی تھیں اور ساتویں اوور میں 47 پر تین۔
اس کے بعد ڈیوڈ ملر اور قینٹون کوک نے انتہائی مثبت سوچ کے ساتھ بہترین اننگز کھیلتے ہوئے اور 237 رنز کے تعاقب میں گیارہ رنز فی اوور کی اوسط سے سکور کو 221 تک پہنچا کر ثابت کیا کہ انھوں نے میچ جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی۔اور ٹی 20 کا پہاڑ جیسا ہدف سر کرنے کے قریب پہنچ گئے۔
ڈیوڈ ملر نے 47 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 106 سکور تقریباً دو سو کے سٹرائیک ریٹ سے کیا۔
ان کی اپروچ کا یہ علم تھا کہ بیسویں اوور کی آخری گیند پر جب 23 سکور جیتنے کے لئیے چاہیے تھا، کوک نے چھکا لگا کر اننگز کا اختتام کیا۔
میرا نہیں خیال ان کے کسی کرکٹ کے تبصرہ نگار اور فین نے کہا ہو کہ یہ دونوں اپنی ففٹی اور سینچری کے لیے کھیلے کیونکہ کارکردگی لگن اور نیت خود شور مچا کر سچ بتاتی ہے۔اب دوسری طرف آ جائیں
اب آ جائیں دوسرے میچ کی طرف جو ورلڈ نمبر 2 اور ورلڈ نمبر 3 انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان پاکستان کے ہوم گراؤنڈ پر ہوا۔
209 رنز کے تعاقب میں پانچ رنز پر جب دو وکٹیں گر چکی تھیں تو شان مسعود اور افتخار کریز پر تھے۔پانچ اوور میں 33 رنز پر افتخار کی پاکستان کی تیسری وکٹ گر گئی۔افتخار نے 16گیندوں پر بہت جانفشانی اور “غرق ریزی” سے 19سکور 118 کے سٹرائیک ریٹ کے ساتھ کیا اور یہ بھی ہمارے لاڈلے ہارڈ ہٹر تھے۔
اب 2022میں ہارڈ ہٹنگ میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے خوش دل اور سوشل میڈیا کی ڈیمانڈ پر ٹیم میں شامل کیے گئے شان مسعود کریز پر موجود تھے اور ان کی بدولت پاکستان کے دس اوور میں سات سے بھی کم اوسط سے 67 رنز تھے۔ مطلب اس کے بعد دس اوورز میں 14 رنز کے رن ریٹ سے جیت کے لیے سکور کرنا تھا۔13 اوور میں 86 سکور پر خوشدل کی چوتھی وکٹ گری جنھوں نے نہائیت ذمہ داری اور سنبھل سنبھل کے 25 گیندوں پر 27 سکور فرمایا تو چھکوں کے بادشاہ اور اپنی ذبانی دعوی کرنے والے کہ میں نیٹ پریکٹس میں روزانہ دو سو 200 چھکے لگاتا ہوں،آصف علی کریز پر آئے۔9 گیندوں پر 77 کے سٹرائیک ریٹ سے 7 سکور پاکستان کی اننگز میں شامل کرنے کے بعد آصف بھی ڈریسنگ روم کو پیارے ہو گئے۔اس وقت پاکستان کا سکور پندرہ اوورز کے اختتام پر ایک کم 100یعنی 99 تھا۔
میچ یہاں کیا وہ تو دس اوور سے بھی پہلے ختم ہو چکا تھا۔ لیکن شان مسعود اب “سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ شان یار پھرے” کے مصداق میدان کے بادشاہ تھے۔
انیسویں اوور میں ان کی بھی ہمت جواب دے گئی اور وہ 130کے بھاری سٹرائیک ریٹ کے ساتھ 43 گیندوں پر 56 سکور اکلوتے چھکے اور چار چوکوں کے ساتھ ٹیم کو تحفہ دینے کے بعد ڈریسنگ روم کو ہجرت فرما گئے۔
ملر نے 237 کا ٹارگٹ ذہن میں رکھ کے 47 گیندوں پر 106 سکور کیا اور شان نے 210 کا ٹارگٹ ذہن میں رکھ کر 43 گیندوں پر 56 سکور کیا۔
اب اتنا طویل کالم پڑھنے کے بعد امید ہے آپ کی ہمت بھی شان مسعود کی طرح جواب دے چکی ہو گی ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کی آصف افتخار کی طرح پہلے ہی جواب دے چکی ہو تو میں یہاں پر لکھنے کا اختتام کر کے فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ ہماری بیٹنگ لائین اور ہماری سیلیکٹڈ ٹیم کیا اپنے کھیل سے انصاف کر رہی ہے یا وہ کھیل کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے؟
پڑھنے والوں کی بوریت کا احساس نہ ہوتا تو یہاں تفصیل سے وہ وجوہات اور ان کا حل لکھتا جس بنا پر ہم ہر میچ یا بمشکل جیتتے ہیں یا فراغ دلی سے ہارتے ہیں۔ میں تو کیا میرے نابالغ بیٹے بیٹی بھی بابر کھلاڑیوں اور کوچز کی بار بار دہرائی گئی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں لیکن بات وہی ہے کہ
“ایک گل ہی نہ جانے”
اپنی رائے کا اظہار کریں