کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے
کافی دن سے سوچ رہا تھا کہ اب پاکستان کرکٹ پر کیا لکھوں کیوں کہ پاکستان کی کرکٹ اور اس کے فرسودہ نظام پر اتنا لکھا جا چکا ہے کہ اب اگر مزید کوئی بات لکھنی پڑے تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہو کیوں کہ پاکستان کی کرکٹ کے وہی مسائل ہیں جن پر ہزارہا بار بات کی جا چکی ہے اور اس کے بارے میں تجاویز پیش کی جا چکی ہیں
ایسے لگتا ہے چاہیے وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کے معاملات ہوں یا پھر امپورٹڈ ایم ڈی اور ہیڈ کوچ کا تقرر ہر کوئی اس پر اتنا کچھ لکھ اور بول چکا ہے کہ اب پاکستان کرکٹ بورڈ کو ان باتوں سے کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا مگر پھر بھی نا تو میرے جیسے کرکٹ کا کم علم رکھنے والے پاکستان کرکٹ اور کرکٹ بورڈ کی کارکردگی پر بولنے سے باز رہیں گے اور نا ہی پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم کوئی ایسا کام کرے گی جس سے ہم جیسے تنقید کی بجائے تعریف کر سکیں
پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے حال ہی میں آسٹریلیا کا دورہ کیا جہاں اس نے آسٹریلیا کی ٹیم سے ٹیسٹ اور ٹی 20 میچز کی سیریز کھیلی مگر
اس بار بھی نتیجہ وہ ہی رہا جو ہمیشہ سے رہتا آیا ہے آسٹریلیا نے پاکستان کو ٹی 20 کے بعد ٹیسٹ سیریز میں بھی دو صفر سے ہرایا دیا اور دونوں ٹیسٹ میچز میں نا صرف شکست دی بلکہ اننگز کی شکست سے دوچار کیا۔ پاکستان کی اس طرح سے بری کارکردگی پر ان سابق کھلاڑیوں نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا جو اپنے دور میں کچھ نا کر سکے انہوں نے اس ہار پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی خوب خبر لی شاید ان کے غصے کی وجہ ہار کے ساتھ ساتھ ان نوجوان کھلاڑیوں کو اپنے سے بہتر سمجھنا تھا اور وہ امید کر رہے تھے کہ جو کام ہم سے نہیں ہو سکا وہ یہ نوجوان کھلاڑی کر دیں گے جن میں اکثریت پہلی بار آسٹریلیا کا دورہ کر رہی تھی آسٹریلیا کے خلاف جو ٹیم منتخب کی گئ تھی اسے دیکھ کر ایسے لگا تھا یہ ٹیم صرف اور صرف فیس سیونگ ہے اور پھر وہ ہی ہوا اس طرح سے بری شکست کو ناتجربہ کار ٹیم کہہ کر بات کو ختم کر دیا گیا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے امپورٹڈ ایم ڈی نے پاکستانی عوام کو صبر کرنے کا مشورہ دے دیا اگر میرے ہاتھ میں کچھ ہوتا تو میں سب سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کے امپورٹڈ ایم ڈی کو ان کے دیس جانے کا پروانہ دیتا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین میں ایک ایسی تبدیلی لاتا جس کے مطابق کوئی بھی غیر ملکی پاکستان کرکٹ بورڈ کا ایم ڈی یا اس طرح کے کسی اور عہدے پر بڑا جمان نا ہو سکتا
آسٹریلیا کا دورہ ہمیشہ سے مشکل رہا ہے مگر
پاکستان کی شکست کے بعد کچھ لوگوں نے یہ تک کہہ دیا کہ ہمیں معلوم تھا پاکستان آسٹریلیا سے ہار کر ہی آئے گا اور کھبی بھی نہیں جیت سکے گا میرے خیال میں ان کو یہ بات پاکستان کرکٹ بورڈ کو ٹیم آسٹریلیا بھیجنے سے پہلے بتا دینی چاہئے تھی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو ان کی بات پر عمل کرتے ہوئے ٹیم کو آسٹریلیا بھیجنے سے انکار کر دینا چاہئے تھا اور آسٹریلیا کی ٹیم کو کہتے آپ جیت گئے اس طرح سے قوم کا وقت بھی بچتا اور پیسہ بھی اور اتنی ذلت و رسوائی کا سامنا بھی نا کرنا پڑتا
پاکستان کی کرکٹ کا باوا آدم ہی نرالہ ہے یہاں پر صرف ایک اننگز یا پرفارمنس کی وجہ سے لوگ سالوں سال کرکٹ کھیل جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو تو عمر بھر کے لیے پاکستان کرکٹ پر مسلط کر دیا جاتا ہے کچھ ایسی ہی مثال ان دنوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ، چیف سلیکٹر اور بیٹنگ کوچ مصباح الحق کی ہے ان کی کپتانی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر پر کیا آئی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس کا کریڈٹ ان کو دیتے ہوئے ایک طرح کا سیاہ و سفید کا مالک بنادیا ہے اور ایسے لگتا ہے جب تک پاکستان کی ٹیم تمام فارمیٹس میں آخری نمبر پر نا آ جائے وہ پاکستان کی ٹیم کی جان نہیں چھوڑیں گے
پاکستان کی کرکٹ ٹیم دورہ آسٹریلیا میں بیٹنگ، باولنگ اور فیلڈنگ تینوں شعبوں میں مکمل طور پر ناکام رہی جن نوجوان کھلاڑیوں کو سرپرائز پیکج کہہ کر چیف سلیکٹر نے ٹیم میں سلیکشن کی تھی وہ سرپرائز پیکج ہی رہے اور ہیڈ کوچ نے ان کو پلینگ الیون میں شامل تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جب کہ دوسری طرف پاکستان کی ٹیم کا سب سے بڑا مسئلہ کھلاڑیوں کا میرٹ پر منتخب نا ہونا ہے کسی بھی کھلاڑی کے لیے اس کے ملک کے لیے ٹیسٹ میچ کھیلنا ایک خواب ہوتا ہے مگر موجود حالات میں ٹیسٹ ٹیم کی کیپ اس طرح سے کھلاڑیوں میں تقسیم کی جا رہی ہے جیسے اندھا اپنوں میں ریوڑیاں تقسیم کرتا ہے اس وقت پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے سیاہ و سفید کے مالک مصباح الحق نے پاکستان کی ٹیم کا کھبی اچھا چاہا ہو یا نہیں مگر اپنے دوستوں کا ہمیشہ اچھا چاہا ہے اور ان ان کھلاڑیوں کو پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کھیلا دیا جن کو اس تک پہنچنے میں بہت وقت اور محنت درکار تھی
آسٹریلیا کے سابق کپتان رکی پونٹنگ نے پاکستان کی باولنگ کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ برا باولنگ اٹیک انہوں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا یہ سن کر بہت افسوس ہوا کیونکہ باؤلنگ ایک زمانے میں ہماری قوت ہوا کرتی تھی مگر اب موجودہ حالت دیکھ کر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے،خراب سلیکشن اس کی اہم وجہ ہے،افسوس پاکستانی کرکٹ دن بہ دن زوال کی جانب جا رہی ہے مگر بورڈ حکام کو کوئی فکر نہیں،نجانے آگے کیا ہوگا یاسر شاہ نے جس طرح سے بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اس سے سب پاکستانی بیٹسمینوں کو سبق حاصل کرنا چاہے مگر کاش یاسر شاہ اس طرح کی پرفارمنس گیند بازی میں بھی دکھاتےامام الحق نے اپنے پورے ٹیسٹ کیریئر میں اتنے رنز نہیں بنائے جتنے ڈیوڈ وارنر نے اس سیریز میں بنائے ۔ ڈیوڈ وارنر جہنوں نے ایشیز میں کوئی خاص پرفارمنس نہیں دکھائی پاکستانی گیند بازوں کے سامنے ایسے دکھائی دیئے جیسے وہ زندگی میں کھبی آوٹ ہی نا ہوئے ہوں پاکستانی گیند بازوں کی گیند بازی دیکھ کر ایسے لگا جیسے آسٹریلیا سے پاکستان کا مقابلہ نا ہو بلکہ کسی کلب کا مقابلہ ہو۔افتخار احمد جن کو ٹیسٹ میچز میں فواد عالم پر فوقیت دے ٹیم میں شامل کیا گیا تھا وہ بھی کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نا کر سکے اور دونوں ٹیسٹ میچز میں ایک بھی نصف سینچری نا بنا سکے اس کے ساتھ ساتھ کپتان اظہر علی بھی لگتا ہے کپتانی کے پریشر میں کچھ زیادہ ہی دب کر رہ گئے ہیں اس لیے کچھ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے پاکستان کی بیٹنگ کا سارا دارومدار صرف اور صرف ایک کھلاڑی( بابر اعظم ) پر ہوتا ہے اور جیسے ہی وہ آوٹ ہوتا ہے ایسے لگتا ہے پاکستانی بیٹنگ لائن ریت کی ایک دیوار ہے اکیلا بابر اعظم کب تک پاکستان کو میچز جیتوائے گا؟ بابر اعظم کے ساتھ ساتھ دوسرے کھلاڑیوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا پڑے گا ایک طرف آسٹریلیا کے کھلاڑی کم سکور کرنے پر اپنے آپ کو سزا دیتے ہوئے نظر آئے تو وہیں ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں صرف دو سکور کرنے والے امام الحق میچ کے اختتام پر قہقہے لگاتے ہوئے نظر آئے اس سے آپ پاکستانی کھلاڑیوں کے سنجیدہ ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں بہت سے لوگوں نے امام الحق کے
اس طرح سے قہقہے لگانے کو ویرات کوہلی کے چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستانی ٹیم کے
ہاتھوں شکست کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ خوش گپیوں سے تشبیہ دی حالانکہ چیمپئنز ٹرافی میں بھارت کی ٹیم اس طرح سے نہیں ہاری تھی اور اس میں ویرات کوہلی کی اپنی کارکردگی اتنی بری نہیں تھی جس طرح اپنے چچا کے بل بوتے پر ٹیم میں منتخب ہونے والے امام الحق کی اس سریز میں تھی امام الحق اپنے چچا کی وجہ سے ٹیم میں شامل تو ہوگئے ہیں مگر ایسے لگتا ہے ان کا کام صرف اور صرف لمبی لمبی ہانکنا ہے اور جب کارکردگی دکھانے کا موقع آتا ہے تو کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے والا حساب ہو جاتا ہے اگر ان کا یہ ہی رویہ رہا تو وہ بہت جلدی گمنامی کے اس سمندر میں چلے جائیں گے جہاں اور بہت سے ایسے کھلاڑی چلے گئے جو سمجھ رہے تھے ان کے بغیر ٹیم نا مکمل ہے
پاکستان کے موجودہ وزیراعظم خود بھی ایک کھلاڑی رہے ہیں اگر ان کے ہوتے ہوئے پاکستان کرکٹ کا یہ حال ہے کہ دن بدن یہ زوال کی طرف جا رہی ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے مجھے ڈر ہے کہ بہت جلد پاکستان میں کرکٹ کا حال بھی ہاکی جیسا نا ہو جائے میری وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف کی حثیت سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے معاملات کا ازسر نو جائزہ لیں اور پاکستان کرکٹ کو تباہی سے دوچار ہونے سے بچایا جائے
اپنی رائے کا اظہار کریں