دعا ہم نے کی ،،، بے دوا ہوگئی
اگر آپ کی ٹیم کا کپتان بزدل اور ڈر پوک ہو تو وہ کھبی بھی درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جس کی وجہ سے پوری ٹیم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے کچھ یہ ہی صورت حال اس وقت پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ 2019 ولڈکپ میں درپیش ہے
اگر ہم ماضی کے جھڑونکوں میں جھانکیں تو یہ ولڈکپ 2015 کی بات ہے پاکستان اپنا پہلا میچ ویسٹ انڈیز کے ساتھ کھیلتا ہے اور پاکستان کی ٹیم منیجمنٹ ریگولر وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کی بجائے عمر اکمل سے کیپنگ کی ذمہ داری ادا کرواتی ہے اور پاکستان کی ٹیم یہ میچ ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں ہار جاتی ہےمیچ کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں سرفراز احمد کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے مگر پاکستان کی ٹیم مینجمنٹ کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیتی پھر اگلے دو میچز میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور سرفراز احمد کو موقع نہیں دیا جاتا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اپنے چوتھے میچ میں جنوبی افریقہ کے مدمقابل آتی ہے میڈیا ،سابق کھلاڑیوں کے دباؤ اور ناصر جمشید کی خراب پرفارمنس کی وجہ سے سرفراز احمد پر اس بار ٹیم منیجمنٹ کی نظر کرم پڑتی اور ان کو احمد شہزاد کے ساتھ اننگز کے آغاز کے لیے بھیجا جاتا ہے سرفراز احمد اس میچ میں اچھا کھیل پیش کرتے ہیں اور پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں پھر جب جب سرفراز احمد بیٹنگ کے لیے آتے یا میدان میں ہوتے تو سب کو ایسے لگتا کہ اس کھلاڑی میں کچھ کر دکھانے کی بھوک ہے اور پاکستانی کرکٹ کے لیے یہ کھلاڑی بہت اہم ہے۔ وقت گزرتا گیا اور پھر قسمت کی دیوی ایسی مہربان ہوئی اور وہ سرفراز احمد جس کو ولڈکپ 2015 میں ٹیم مینجمنٹ پلینگ الیون میں شامل کرنے سے گریز کرتی تھی وہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا کپتان بن گیا مگر پھر وہ ہی ہواجو اکثر و پیشتر ہوتا آیا ہے سرفراز احمد کپتان کیا بنے ان کی اپنی کارکردگی نیچے سے نیچے گرتی گئ اور اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ وہ سرفراز احمد جو اننگز کا آغاز کیا کرتے تھے ساتویں اور آٹھویں نمبر کے بعد بیٹنگ کے لیے آنا پسند کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کی فٹنس دن بدن گرتی جا رہی ہے اور اب تو کچھ سابق کھلاڑیوں نے کھل کر ان کی فٹنس پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے فٹنس نا ہونے کی وجہ سے سرفراز احمد وہ کیچ بھی نہیں پکڑ پاتے جو ایک وکٹ کیپر کو لازمی پکڑنا چاہیے۔جب سرفراز احمد کو کپتان بنایا گیا تو کرکٹ کے پنڈتوں نے ان کو ایک بہترین اور بہادر کپتان قرار دیا تھا مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ سرفراز احمد اب تک پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بزدل اور بےوقوف ترین کپتان ثابت ہو رہے ہیں۔ ویسے سرفراز احمد نے مکی آرتھر اور اظہر محمود کے ساتھ مل کر جس طرح سب سینیئر کھلاڑیوں کو کھڈے لائن لگایا اور ٹیم سلیکشن میں میرٹ کا قتل عام کروایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جس انداز سے شاہد آفریدی، اظہر علی، جنید خان اور دوسرے کھلاڑیوں کو دودھ میں سے بال کی طرح باہر نکال دیا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ نشہ کسی بھی طرح کا ہو وہ آدمی کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ نشہ کپتانی کا ہو تو وہ اس کھلاڑی کے ساتھ ساتھ ٹیم کے لیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے اور اس وقت لگتا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کپتانی کے نشے میں اتنے کھو گئے ہیں کہ وہ اپنی کارکردگی اور فٹنس سب کچھ بھول چکے ہیں وہ سرفراز احمد جس میں کچھ کر دکھانے کا جوش ہوا کرتا تھا وہ کہیں ماضی میں کھو گیا ہے وہ دلیری اب کہیں نظر نہیں آتی۔
اب اگر ہم ولڈکپ 2019 کی بات کریں تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس وقت اپنے روایتی پن کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے اور حسب روایت اگر مگر کی جگہ پر پہنچ چکی ہے۔ ابھی تک ولڈکپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا کھیل متاثر کن نہیں رہا اور ایسے لگتا ہے پاکستان کی ٹیم اس دفعہ ولڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہے گی ابھی تک کھیل کے تینوں شعبوں میں پاکستانی کھلاڑی ناکام رہے ہیں اور صرف اپنے لیے کھیلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ محمد حفیظ کے سوا کوئی بھی بلے باز ابھی تک کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔ جس انداز سے امام الحق کھیل رہے ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف اپنا سکور بہتر کرنے کی کوشش میں ہیں ان کو پاکستان کی جیت سے کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آ رہی ۔سب سے زیادہ تجربہ کار اور مستند بیٹسمین شعیب ملک بھی ابھی تک کسی خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے ۔ولڈکپ سے پہلے انگلینڈ کے خلاف ایک میچ میں پچاس رنز کرنے کی وجہ سے ٹیم میں آنے والے آصف علی لگتا ہے ابھی تک ذہنی دباؤ کا شکار ہیں جب آپ ملک کے لیے کوئی خدمت سر انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو ذہنی اور جسمانی ہر لحاظ سے فٹ ہونا چاہیے اگر آصف ذہنی طور پر فٹ نہیں تھے ( ابھی تک ایسا ہی لگ رہا ہے) تو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اور خود اپنا نام واپس لے لیتے جس انداز سے وہ فیلڈنگ میں کیچ چھوڑ رہے ہیں اور ان کے چہرے کے جو تاثرات ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی تک ذہنی تناؤ کا شکار ہیں
پاکستان کی ٹیم نے جس انداز سے انگلینڈ کی مضبوط ٹیم کو اس ولڈکپ میں شکست دی اس سے تھوڑی ہمت بندھی تھی کہ شاید اب پاکستان کی ٹیم 90 کی دہائی والے روایتی انداز کو ختم کر کے موجودہ دور کے انداز کو اپنائے گی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا پاکستانی ٹیم نے وہی روایتی انداز برقرار رکھا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی گیند باز اور فیلڈرز بھی پاکستان کو شکست دلوانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شامل واحد ریگولر سپن باؤلر شاداب خان کو باہر بٹھانا بھی کافی حیران کن تھا لگتا ایسے ہے جیسے پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ذہنی طور پر اپنےآپ کو پہلے سے اس چیز کے لیے تیار کر رکھا ہے کہ وہ سیمی فائنل میں نہیں پہنچ سکتے۔
پاکستان ولڈکپ میں اپنا اگلا میچ 16 جون کو روایتی حریف بھارت کے خلاف کھیلے گا جس نے ابھی تک اس ٹورنامنٹ اس ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جب کہ دوسری طرف پاکستان کی ٹیم کو اگر ولڈکپ میں سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنا ہے یہ میچ جیتنا پڑے گا پاکستان کو اس میچ میں 90 کی دہائی والی کرکٹ کو خیرباد کہہ کر اٹیکنگ کرکٹ کھیلنا پڑے گی بصورت دیگر بھارت کی کرکٹ ٹیم کو ہرانا کافی مشکل ہو گااس کے ساتھ حسب روایت اس میچ کے لیے بھی پاکستانی عوام کی دعا ہو گی کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم یہ میچ جیت جائے اور ولڈکپ میں بھارت سے ہارنے کی تاریخ کو نا دہرایا جائے مگر اس کے لیے عوام کی دعا کے ساتھ ساتھ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بھی دوا کرنی پڑے گی وگرنہ خالی دعاوں سے جیت ملنا مشکل ہی نظر آ رہا ہے
اپنی رائے کا اظہار کریں