دنیا کو اب کیا سمجھائیں – کیا جیتے؟ کیا ہار گئے ہم
کینگروز کے دیس میں پاکستان کرکٹ ٹیم ایک اور سیریز کی شکست سے دوچار ہو گئی۔ کینگروز کے دیس میں مسلسل چوتھے دورے پر پہلے ٹیسٹ سیریز ہاتھ سے گنوائی اور پھر ایک روزہ سیریز بھی ہار گئے۔ آسٹریلیا کے تین سو تریپن رنز کے تعاقب میں پاکستانی ٹیم چھیاسی رنز سے شکست کھا گئی۔ خیر گرین ٹیم سے اس نتیجے کے برعکس توقع بھی نہیں کی جا رہی تھی۔
شرجیل خان کی طرح باقی کھلاڑی کب نڈر ہو کر کھیلیں گے؟
یہ تو بھلا ہو شرجیل خان کا جسکی بلےبازی میں جارحیت کا خاصہ عنصر موجود ہے اور مقابل بالر کوئی بھی ہو وہ کسی خوف کا خاطر میں نہیں لاتا۔ شرجیل خان نے اننگز کی شروعات اچھے طریقے سے کیں اور آغاز سے ہی کھیل کو تیز رکھا جسکے باعث پاکستان ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں شعیب ملک،محمد حفیظ اور بابر اعظم کو بھی قوت اور خود اعتمادی میسر آئی۔ لیکن کوئی بھی کھلاڑی اپنی اننگز کو بڑی اننگز میں نہ بدل سکا اور یہی ایک بنیادی فرق ہے پاکستانی اور آسٹریلین کرکٹ کے مزاج میں۔
شعیب ملک، محمد حفیظ، بابر اعظم ٹیم کے کلائمیکس کریکٹرز ہیں
ایک روزہ سیریز پر تبصرے سے قبل ، پہلے تھوڑی بات ٹیسٹ کرکٹ پر کر لی جائے۔ پاکستان کی تین ٹیسٹ میچز کی سیریز میں آسٹریلیا کے ہاتھوں تواتر سے شکست کوئی نئی بات تو نہیں لیکن اس مرتبہ کینگروز کی ٹیم ماضی کے برعکس کہیں ذیادہ کمزور اور پاکستانی سکواڈ خاصہ مضبوط تھا۔ توقع تھی پاکستان ٹیم کینگروز کو انکے دیس میں شکست دے دے گی۔ گذشتہ تین دوروں کے مقابلے میں اس دفعہ پاکستان نے پہلے دو ٹیسٹ میچز میں ہمت دکھائی،مزاحمت بھی ضرور کی لیکن جیتنا تو دور کی بات پاکستان ٹیم کوئی ٹیسٹ ڈرا بھی نہ کر سکی۔ پہلے دو ٹیسٹ میچز مین شکست کے بعد سڈنی ٹیسٹ پاکستان ٹیم کے لئے محض ایک رسمی کارروائی تھا۔ اس ٹیسٹ میں گرین شرٹس کو صرف ایک ریٹنگ پوائنٹ مل سکتا تھا لیکن سڈنی ٹیسٹ میں بھی شکستوں کے آسیب نے ٹیم پاکستان کا پیچھا نہ چھوڑا اور پاکستان ٹیم کینگروز سے ٹیسٹ سیریز تین صفر سے ہار گئی۔
اظہر علی ٹیسٹ کے سورما، ون ڈے کی کپتانی خطرے میں
آسٹریلیا میں ہار ہوئی تو حسب روایت کچھ ایسے سابق کرکٹرز نے بھی ٹیم پر تنقید اور کپتان کی تبدیلی کا مطالبے دہرائے جو اپنے عہد میں کینگروز کی سرزمین پر اس سے بھی بدترین کھیل کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ تنقید برائے اصلاح کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن ٹیم کے ہارنے کے بعد ذاتییات پر اتر جانا، تکنیکی مسائل کو صرف نظر کرتے ہوئے بے جا تنقید برائے تنقید کرنے سے شائقین کرکٹ کے دلوں میں کرکٹ سے نفرت پیدا ہوتی ہے جس کا بالاخر پاکستان کرکٹ کو ہی نقصان ہوتا ہے۔
گذشتہ کچھ سالوں سے ٹیسٹ کرکٹ میں بالخصوص کنڈیشنز کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ٹیسٹ کرکٹ کنڈیشنز کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہی آسٹریلین ٹیم یو اے ای میں پاکستان کیخلاف کھیلے تو ہار جاتی ہے۔ دو ہزار بارہ میں انگلینڈ نمبر ون ٹیم ہونے کے باوجود یو اے ای میں پاکستان کے ہاتھوں کلین سویپ کی ہزیمت سے دوچار ہو چکی ہے۔ یہی نہیں ، تین سال بعد یو اے ای میں ہی ہونے والی سیریز بھی ہار چکی ہے۔ بھارت آسٹریلیا میں کھیلے تو ہارتا ہے، انگلینڈ میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلے تو ہارتا ہے لیکن انگلینڈ بھارت میں جا کے کھیلے تو کلین سویپ ہو جاتا ہے۔ آسٹریلیا جیسی مضبوط ٹیم مہیلا جے وردنے اور کمارا سنگاکارا کی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک نئی سری لنکن ٹیم کے خلاف سری لنکا میں کھیلے تو کلین سویپ ہو جاتی ہے۔ کھلاڑی اچھا پرفارم نہیں کر سکے، لیکن ناقدین کو پرفارمنس کے ساتھ ساتھ اچھے کھیل کے دیگر عناصر بھی مد نظر رکھنے چاہئیں۔
ٹی وی پر بیٹھے کرکٹ ناقدین ذاتیات کے بجائے اصلاحی تنقید پر زور دیں
آسٹریلیا میں ہونے والی گذشتہ چھ سالہ ٹیسٹ کرکٹ کا جائزہ لیا جائے تو کرکٹ کے ان
تجزیہ نگاروں کی یاداشت پر ضرب ضرور لگے گی کہ جنوری دو ہزار گیارہ سے جنوری دو ہزار سترہ تک آسٹریلیا میں نو ٹیسٹ ٹیموں نے کینگروز کیخلاف سیریز کھیلی۔ اپنی ٹیموں کی قیادت کرنے والے گیارہ کپتانوں میں سے صرف جنوبی افریقہ کے فاف ڈوپلیسی واحد کپتان ہیں جنہوں نے کینگروز کو ان کے دیس میں شکست دی۔باقی کپتانوں میں گریم سمتھ اور روز ٹیلر صرف ایک ایک میچ میں فتح سمیٹنے میں کامیاب ہوئے۔ مہندر سنگھ دھونی،الیسٹر کک اور برینڈن میکلم جیسے دیگر آٹھ بڑے بڑے کپتان بھی آسٹریلیا کیخلاف سیریز جیتنے میں ناکام رہے۔
ایک روزہ سیریز پر تبصرہ سے پہلے خود کو با اختیار ترین اور ہر دباؤ سے بالا چیف سلیکٹر سمجھنے والے انضمام الحق سے ایک اہم سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آسٹریلیا جیسے ملک میں مشکل کرکٹ ہونے کے باوجود جب سرفراز احمد پاکستان واپس آئے تو آؤٹ آف فارم محمد رضوان کے بجائے ان فارم کامران اکمل کو کیوں پاکستانی سکواڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا؟ محمد رضوان کی پرفارمنس کا ایسا کونسا پہلو تھا کہ انہیں ٹیم میں کھلایا گیا۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں بھرپور پرفارم کرنے کے باوجود اگر کامران اکمل کو ٹیم میں شامل نہیں کرنا تو ان پر واضح کیوں نہیں کر دیا جاتا کہ نہ تو پی سی بی کو انکی مزید ضرورت ہے اور نہ ہی وہ انکے فیوچر پلان کا حصہ ہیں تاکہ کامران اکمل ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی زور آزمائی سے پرہیز کریں۔ دوسری جانب غیر سنجیدہ رویے کے باعث شہرت یافتہ عمر اکمل کو کس پرفارمنس کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کیا گیا؟ جب ٹیم کی سلیکشن میں ہی اتنے شکوک و شبہات ہوں گے تو پھر کھلاڑیوں کی پرفارمنس بپر اٹھتے سوالات اور تنقید کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
اظہر علی کی ایک روزہ سکواڈ کی کپتانی پر بات کی جائے تو ابھی تک نہ تو انکی پرفارمنس نظر آئی ہے اور نہ ہی ان میں ون ڈے کرکٹ والا ٹیمپرامنٹ ہے کہ وہ ٹیم کو لے کے چل سکیں۔ پی سی بی کو اس حوالے سے بھی غور کرنا ہو گا کہ ایسا کپتان بنایا جائے جو ٹیم کو میدان میں لڑوا سکے اور بطور فرنٹ مین لیڈ کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ اظہر علی ایک اچھے ٹیسٹ کرکٹر ہیں اور انہیں ٹیسٹ کرکٹ تک محدود رکھنا ہی عقلمندی ہے۔ اگر ون ڈے ٹیم میں انکی موجودگی انتہائی ضروری ہے تو انہیں اوپنر کے بجائے مڈل آرڈر میں کھلایا جائے جہاں ایسے بلے بازوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
بابر اعظم کو ذرا سی مستقل مزاجی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی فارم کا لحاظ کرتے ہوئے تیس پینتیس رنز کی اننگز کو بڑی اننگز میں بدل سکیں۔ شعیب ملک پاکستان کے کپتان ضرور رہے ہیں لیکن انکی بلے بازی نے پاکستان کو کس میچ میں فتح دلوائی، مجھے یاد نہیں پڑتا۔ ہاں دو ہزار بارہ کے اواخر اور دو ہزار تیرہ کے اوائل میں انکے سسرال میں ہونے والی سیریز میں انکی میچ وننگ اننگز مجھے یاد ہیں۔
پاکستان کرکٹ کا شاندار مستقبل ہوم گراؤنڈ پر بین الاقوامی کرکٹ سے مشروط ہے۔ جب تک پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہوگی ہمیں مسائل کا سامنا رہے گا۔ بطور پروفیشنل کرکٹرز قومی کھلاڑی پہلے بھی واضح کر چکے ہیں اور آئندہ بھی کرنا ہو گا کہ پاکستانی ٹیم دنیا کی واحد ٹیم ہے جو آٹھ سال سے اپنے ملک میں کرکٹ نہ کھیلنے کے باوجود ٹیسٹ کرکٹ میں نمبر ون تک پہنچی۔ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ یہی ٹیم ون ڈے اور ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں بھی دنیا کی ٹاپ ٹیموں میں جگہ نہ بنا سکے۔
کھلاڑیوں کی پرفارمنس کے ساتھ ساتھ بورڈ کے ذمہ داران پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ویسے تو چئیرمین پی سی بی کے آرام کرنے کی عمر ہے لیکن اگر انہوں نے اس عمر میں بھی کام کرنا ہے تو میری ان سے گذارش ہے کہ بورڈ کے معاملات پر خصوصی توجہ دیں۔ یہی نہیں پی سی بی ایگزیکٹو کمیٹی کے چئیرمین اور وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب کے لاڈلے نجم سیٹھی کو بھی مستعد اور ذاتی پسند نا پسند سے بالا تر ہو کر کام کرنا پڑے گا ورنہ شکیل شیخ جیسے لوگ پاکستان کرکٹ کا نقصان کرتے رہیں گے۔ پاکستانی کرکٹ، پی سی بی ، گرین شرٹس اور پرفارمنس کے معاملات پر لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن بحث سمیٹتے ہوئے ماہرین کرکٹ،تجزیہ کاروں اور شائقین کرکٹ کے گوش گذار ایک درخواست چھوڑے جا رہا ہوں کہ مختلف چینلز پر بیٹھ کر کرکٹ اور کرکٹرز پر بے جا تنقید اور تبصرے سے قبل ذرا سا سوچ لیا جائے کہ انہیں کھیل کے سفیر کے طور پرپاکستان اور پاکستان سے باہر کرکٹ کے شائقین کیلئے کھیل سے محبت پیدا کرنی ہے تو پاکستانی کرکٹ بہت بہتر ہو سکتی ہے۔
اپنی رائے کا اظہار کریں