More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس
Latest news
سابق کپتان اظہر علی پاکستان کرکٹ بورڈ کے یوتھ ڈیولپمنٹ کے سربراہ۔ یہ رول اظہرعلی کی موجودہ ذمہ داریوں کی توسیع ہو گی، اسوقت وہ قومی سلیکشن کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ مستقبل کے اسٹارز کی تشکیل میں گراس روٹ کرکٹ کی ترقی کا اہم کردار ہے۔ اظہرعلی اظہرعلی کا تجربہ اور وژن پاکستان میں نوجوانوں کی کرکٹ کی ترقی اور کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ پی سی بی بلاوائیو قومی کرکٹ سکواڈ کل مقامی وقت کے مطابق 1:30 سے 4:30 تک پریکٹس کرے گا پاکستانی ٹیم کوئینز سپورٹس کلب میں پریکٹس کرے گی پاکستان اور زمبابوے کے درمیان پہلا ون ڈے میچ 24 نومبر کو ہوگا ⁩ٹکرز - سمیر احمد آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے ٹورنامنٹ ڈائریکٹر مقرر لاہور ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر سمیر احمد سید آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے ٹورنامنٹ ڈائریکٹر مقرر۔ سمیراحمد ایک غیر معمولی منظم پروفیشنل ہیں جن میں انتظامی مہارت کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے لیے غیر متزلزل جذبہ بھی موجود ہے۔ پی سی بی چیئرمین محسن نقوی۔ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 پاکستان کی عالمی معیار کی کرکٹ کی میزبانی کی صلاحیت کو ظاہر کرے گی۔ محسن نقوی۔ دنیا بھر سے کھلاڑیوں اور شائقین کے لیے یہ ایک خوبصورت تجربہ ہوگا کہ وہ کھیل کے لیے اس ملک کے جذبے اور مشہور مہمان نوازی کو دیکھ سکیں گے۔ محسن نقوی ۔ میں اس ٹورنامنٹ کے لئے یہ اہم ذمہ داری سنبھالنے کے لئے ُپرجوش ہوں اور اسے اعزاز سمجھتا ہوں ۔ سمیر احمد سید۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے پچھلے ایڈیشنز میں جو معیار مقرر کیے گئے تھے ان معیار کو مزید بہتر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ سمیر احمد سید۔ زمبابوے قومی کرکٹ سکوارڈ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز کے لیے بلاوائیو پہنچ گیا پاکستان اور زمبابوے کے درمیان تین تین میچز پر مشتمل ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز کھیلی جائیں گی پاکستان کرکٹ ٹیم کل آرام کرے گی پاکستان اور زمبابوے کے درمیان پہلا ون ڈے میچ 24 نومبر کو ہوگا ٹکرز قائداعظم ٹرافی ۔ --------------------------------------------------------------- لاہور ۔ قائداعظم ٹرافی میں امام الحق ۔ بسم اللہ خان اور اویس ظفر کی سنچریاں ۔ امام الحق نے اس ٹورنامنٹ میں تیسری سنچری اسکور کی ہے۔ لاہور بلوز کے محمد عباس کی عمدہ کارکردگی کا سلسلہ جاری ، فاٹا کے خلاف 39 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں۔ لاڑکانہ کے مشتاق کلہوڑو کی لاہور وائٹس کے خلاف 103 رنز کے عوض 6 وکٹیں۔ بہاولپور کے عمران رندھاوا کی کراچی وائٹس کے خلاف 28 رنز دے کر 6 وکٹیں۔ فاٹا کے آفاق آفریدی کی لاہور بلوز کے خلاف 56 رنز دے کر6 وکٹیں پاکستان انڈر 19 نے افغانستان انڈر 19 کو تیرہ رنز سے شکست دے دی دبئی، 20 نومبر 2024: پاکستان انڈر 19 نے افغانستان کی انڈر 19 ٹیم کو دلچسپ مقابلے کے بعد 13 رنز سے شکست دے دی۔ پاکستان کی ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا ۔ پاکستان کی ٹیم نے 244 رنز بنائے ، اوپنرز نے شاندار کھیل پیش کیا ، شاہ زیب نے 78 اور عثمان خان نے 77 رنز کی اننگز کھیلی۔ افغانستان کی ٹیم مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی اور پوری ٹیم 46.4 اوورز میں 231 رنز بنا سکی ۔ پاکستان کی طرف سے علی رضا نے چار وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کا آئی سی سی اکیڈمی میں ٹریننگ سیشن۔ کھلاڑیوں نے کوچز کی نگرانی میں تین گھنٹے بیٹنگ، بولنگ اور فلیڈنگ سیشنز میں حصہ لیا۔ پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کل مقامی وقت کے مطابق صبح 11 بجے سے دوپہر دو بجے تک ٹریننگ سیشن میں حصہ لے گی۔ پاکستان انڈر 19 ٹیم تین ملکی ٹورنامنٹ میں اپنا تیسرا میچ افغانستان کے خلاف 20 نومبر کو کھیلے گی۔ پاکستان ٹیم نے ٹورنامنٹ میں میزبان یو اے ای کو دس وکٹوں سے شکست دیدی جبکہ اسے افغانستان سے اپنے دوسرے میچ میں شکست ہوئی تھی۔ اہم ترین قذافی سٹیڈیم اپ گریڈیشن پراجیکٹ پر کام تیز مجموعی طور پر 60 فیصد منصوبہ مکمل۔ فلورز کا کام آخری مرحلے میں نئی نشتوں کے سٹرکچر کی تعمیر بھی شروع چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کا قذافی سٹیڈیم کا تفصیلی دورہ چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے پراجیکٹ پر پیش رفت کا جائزہ لیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے مین بلڈنگ۔ انکلوژرز میں جاری تعمیراتی کاموں کا معائنہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے نئی لائٹس کی تنصیب کے کام کا معائنہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے فلورز پر جاری تعمیراتی کاموں کا مشاہدہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے تیار کردہ کمروں کا معائنہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی کا منصوبے کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار تعمیراتی کاموں میں اعلی معیار کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ محسن نقوی چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ سے قبل پراجیکٹ کو ہر قیمت پر مکمل کیا جائے گا۔ محسن نقوی پوری ٹیم محنت سے کام کر رہی ہے۔ پراجیکٹ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ محسن نقوی منصوبے پر پیش رفت کی خود نگرانی کر رہا ہوں۔ محسن نقوی چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے منصوبے کی بروقت تکمیل کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایات دیں ایف ڈبلیو او کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے منصوبے پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دی ایڈوائزر عامر میر۔ بلال افضل۔ چیف آپریٹنگ آفیسر سید سمیر احمد۔ ڈائریکٹرز انفراسٹرکچر۔ ڈومیسٹک کرکٹ۔ نیسپاک۔ ایف ڈبلیو او کے حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ٹکرز قائداعظم ٹرافی ۔ ---------------- لاہور ۔ قائداعظم ٹرافی میں کراچی بلوز نے ڈیرہ مراد جمالی کو اننگز اور 56 رنز سے ہرادیا۔ کراچی بلوز کے محمد حمزہ کی میچ میں 10 وکٹیں۔ اسلام آباد نے حیدرآباد کو اننگز اور 2 رنز سے شکست دے دی۔ محمد موسی کی میچ میں12 وکٹیں لاہور بلوز کے محمد سلیم اور عمر صدیق کی سیالکوٹ کے خلاف ڈبل سنچری پارٹنرشپ۔ ٹکرز ۔پاکستان شاہینز بمقابلہ سری لنکا اے ---------------------------- راولپنڈی ۔ پاکستان شاہینز کے خلاف سری لنکا اے پہلے چار روزہ میچ کی پہلی اننگز میں 115 رنز پر آؤٹ ۔ کاشف علی اور خرم شہزاد کی عمدہ بولنگ ۔کاشف علی نے 31 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔ خرم شہزاد نے 32 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ پاکستان شاہینز کے پہلی اننگز میں 2 وکٹوں پر 66 رنز۔

پی سی بی ،، مچھلیاں نہیں، مگر مچھ بدلو

پی سی بی ،، مچھلیاں نہیں، مگر مچھ بدلو
آفتاب تابی
آفتاب تابی

پاکستان کی ٹیم نے جمعہ کے روز ہونے والے اپنے آخری میچ میں بنگلہ دیش کی ٹیم کو 94 رنز سے شکست تو دی مگر اس فتح کے باوجود
پاکستان کی ٹیم کا اس میگا ایونٹ میں سفر اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم بہترین رنز اوسط کی وجہ سے بھارت، انگلستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے ساتھ سیمی فائنل میں پہنچ گئ اور پاکستان کی ٹیم 2015 کی طرح اس دفعہ بھی سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔اس میچ میں پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچنےکے لیے بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کو ایک بھاری مارجن سے شکست دینا تھی اور میچ سے ایک روز پہلے ہونے والے پریس کانفرنس میں سرفراز احمد نے اس بات کا اشارہ بھی دیا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس میچ میں کم از کم پانچ سو رنز بنانے کی کوشش کرے گی اور سیمی فائنل میں پہنچ جائے گی مگر جب پاکستان بلے باز (افتتاحی ) میدان میں اترے تو ایسا لگا کہ وہ پاکستان کی بجائے اپنے لیے کھیل رہے ہیں اور آ کی کوشش صرف اتنی ہے کہ وہ اپنے لیے ایک اچھا سکور کر سکیں۔
اس ولڈکپ میں پاکستان کی ٹیم نے کوئی بہت خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا مگر وہ کارکردگی نا دکھا سکی جس کارکردگی کی پاکستانی ٹیم کے چاہنے والے امید کر رہے تھے۔ولڈکپ سے تقریبا دو ماہ پہلے انگلستان میں اپنے ڈیرے ڈالنے والی پاکستان کی کرکٹ ٹیم ولڈکپ شروع سے ہونے سے پہلے ہی مشکلات میں گھری ہوئی نظر آئی اور اس کو انگلستان کی ٹیم ( جو اس وقت آئی سی سی رینکنگ میں پہلے نمبر پر موجود ہے ) نے چار صفر سے ہرایا۔ پاکستان کی ٹیم کی انگلستان کے ہاتھوں ہار کیا ہوئی پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کو ایسے لگا ولڈکپ میں یہ ٹیم کچھ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے گی اور انضمام الحق نے ولڈکپ سے کچھ دن پہلے اپنی ہی منتخب کردہ ٹیم کو تبدیل کر دیا
پاکستان نے ولڈکپ میں اپنا سفر شروع کیا تو ماضی میں اپنے بہتر تیز گیند بازوں کی وجہ سے کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے ایسی عبرت ناک شکست سے دوچار کیا کہ پاکستان کی ٹیم پورے ٹورنامنٹ میں اس شکست کے زخم کو بھر نا سکی ( یہ شکست پاکستان کے ولڈکپ سے باہر ہونے کی وجہ بھی بنی)۔ اگر دیکھا جائے تو اس ولڈکپ میں بھی پاکستانی کھلاڑی انفرادی کھیل پیش کرتے نظر آئے جبکہ ان میں ایک ٹیم کی طرح مل کر کھیلنا یا جیت کا وہ جذبہ کہیں نظر نہیں آیا جو ماضی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی طرف سے دیکھنے کو ملتا تھا۔ پاکستانی کھلاڑی میدان میں بجھے بجھے اور تھکن سے چور نظر آئے۔ لگتا ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم ابھی تک 1980 کی دہائی کی کرکٹ سے باہر نہیں آ سکی جہاں پر دوسرےممالک کی ٹیمیں کم از کم 300 یا اس سے زیادہ سکور بنا کر بھی مطمئن نہیں ہوتیں وہیں پر پاکستان کے کھلاڑیوں کی کوشش صرف دو سو یا دو سو پچاس رنز بنانا ہوتی ہے
کسی بھی ٹیم کی ہار جیت میں ڈاٹ بالز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے اگر کوئی بیٹسمین بیس گیند میں دس سے پندرہ ڈاٹ بالز کھیل کر ایک چوکا یا چھکا لگا دیتا ہے تو اس سے وہ کھلاڑی زیادہ اہم اور اچھا ہے جو بیس گیندوں میں صرف دو یا تین ڈاٹ بالز کھیلتا ہے۔ پاکستان کی ولڈکپ میں ناکامی کی ایک وجہ کھلاڑیوں کا بہت زیادہ ڈاٹ بالز کھیلنا اور پھر آوٹ ہو جانا ہے۔پاکستان کی ٹیم نے پورے ولڈکپ کے دوران پہلے پاور پلے میں 65.2 فیصد ڈاٹ بالز کھیلی جس کا مطلب ہے پاکستانی ٹیم نے ولڈکپ کے تمام میچوں کے پہلے پاور پلے میں (پہلے دس اوورز ) اوسط 20.88 گیندوں پر سکور بنائے جو موجودہ دور کی ون ڈے کرکٹ کے لحاظ سے بہت کم ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم اور اس کی منیجمنٹ ابھی تک کس طرح کا دفاعی انداز اپنائے ہوئے ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے کچھ کھلاڑیوں کا اتنی زیادہ ڈاٹ بالز کھیلنےکے بعد آوٹ ہونا بھی ہماری ناکامی کا باعث بنا۔
اگر پاکستانی کھلاڑیوں کی فیلڈنگ کی بات کی جائے تو پاکستان کی ٹیم نے پورے ولڈکپ میں 15 سے زائد بار کیچ چھوڑے جو کہ کسی بھی ٹیم کی طرف سے ابھی تک اس ولڈکپ میں سب سے زیادہ ہیں اس کے علاوہ فیلڈنگ میں جس طرح پاکستانی کھلاڑیوں نے رن آؤٹ کے مواقع ضائع کیے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں
پورے ولڈکپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ کا سارا دارومدار صرف اور صرف بابر اعظم پر رہا جیسے ہی بابر اعظم آوٹ ہوتے ایسا لگتا جیسے پاکستان کے کھلاڑی بیٹنگ کرنا ہی بھول گئے ہیں۔پاکستان کی طرف سے اس ولڈکپ میں بابر اعظم اور امام الحق سینچری بنانے میں کامیاب رہے۔ بابر اعظم نے اس ولڈکپ میں 67.71 کی اوسط سے 474 رنز بنائے جو کہ کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کا ولڈکپ میں سب سے زیادہ سکور ہے بیٹنگ میں کپتان سرفراز احمد بھی کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے اور 8 میچز میں 28.60 کی اوسط سے صرف 143 رنز بنا سکے جس میں صرف ایک پچاس سے زیادہ سکور تھا
اگر پاکستانی باؤلنگ کی بات کی جائے تو آخری لمحات میں ٹیم میں شامل ہونے والے محمد عامر سب سے کامیاب باؤلر رہے جہنوں نے 17 وکٹیں حاصل کیں جب کہ اٹھارہ سالہ نوجوان فاسٹ باؤلر شاہین آفریدی نے 16 وکٹیں لے کر اپنا لوہا منوایا۔
اگر دیکھا جائے تو انفرادی طور پر پاکستانی ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں کی کارکردگی بہت اچھی رہی مگر مجموعی طور پر اور بحیثیت ٹیم کارکردگی اتنی خاص نہیں رہی۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی ٹیم میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں لگے رہے (بنگلہ دیش کے خلاف آخری میچ میں اس چیز کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا) اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے زیادہ اپنے لیے کھیلتے نظر آئے جس کا اندازہ سب دیکھنے والوں کو بھی ہوا۔
میرے کچھ دوست احباب کا خیال ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم بہت بدقسمت رہی اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم صرف اور صرف خوش قسمتی کی وجہ سے ولڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جب کہ میرے خیال میں ایسا بالکل بھی نہیں پاکستان کی کرکٹ ٹیم بدقسمتی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے برے اور مفاد پرست کھلاڑیوں کی وجہ سے ولڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پاکستان سے بہتر کھیل پیش کیا اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ پاکستان کی ٹیم افغانستان جیسی ٹیم سے کم سکور کا میچ بہت مشکل سےجیت سکی جب دوسری طرف نیوزی لینڈ کی ٹیم نے افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو باآسانی شکست دی ۔
جب مکی آرتھر نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری سنبھالی تو انہوں نے بہت سے کھلاڑیوں کی فٹنس کو جواز بنا کر ٹیم میں شامل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں صرف وہ ہی کھلاڑی شامل ہوں گے جو مکمل طور پر فٹ ہوں گے اور اس چیز پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا جو بظاہر ایک اچھا اقدام تھا مگر جیسے وقت گزرتا گیا مکی آرتھر بھی پاکستانی ٹیم کے رنگ میں رنگ گئے اور اب یہ وقت ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی فٹنس پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ہمیشہ کسی بھی بڑے ٹورنامنٹ سے پہلے پاکستان آرمی کے زیراہتمام پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے فٹنس کیمپ لگاتا ہے جس سے کچھ عرصہ کے لیے تو کھلاڑیوں کی فٹنس میں اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں مگر اس کے بعد پھر وہی صورت حال ہو جاتی ہے جیسے پہلے تھی کیونکہ پاکستانی کھلاڑی ٹورنامنٹ شروع ہونے کچھ عرصہ پہلے تو کافی محنت کرتے ہیں مگر جیسے ہی ٹورنامنٹ ختم ہوتا ہے وہ اپنی ٹریننگ بھول جاتے ہیں پاکستانی کھلاڑیوں کی ناکامی کی وجہ ان کا اس حد تک فٹ نا ہونا بھی ہے جو آج کل کی کرکٹ کے لیے ضروری ہے
اگر دیکھا جائے تو میرے نزدیک پاکستان کی اس کارکردگی کا ذمہ دار کسی ایک کھلاڑی کو یا منیجمنٹ کے بندے کو نہیں کہا جا سکتا بلکہ پاکستان کی اس کارکردگی کا ذمہ دار وہ نظام ہے جس کی بدولت چند لوگوں نے پاکستان کی کرکٹ کو یرغمال بنا رکھا ہے اور ہر عہدہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا فیصلہ ان چند لوگوں کی طرف گھومتا رہتا ہے ۔ پاکستان کی ہر شکست کے بعد صرف چہرے تبدیل کیے جاتے ہیں اور ان ہی کچھ مفاد پرست لوگوں میں یہ تبدیلی کا کھیل کھیلا جاتا ہے جو پچھلی کافی دہائیوں سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو نقصان پہچانے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ میں ہمیشہ سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رہا ہے ہر شکست کے بعد انکوائری کمیٹیاں بھی قائم کی گئیں اور کھلاڑیوں کو جرمانے بھی کیےگئے مگر کیا نہیں گیا تو اس افسردہ نظام کا خاتمہ جس کی بدولت جنید ضیاء جیسا کھلاڑی تو راتوں رات پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل جاتا ہے مگر انور علی جیسا ہونہار کھلاڑی جو اپنی پرفارمنس سے تن تنہا انڈر 19 ولڈکپ کا فائنل پاکستان کو جیتواتا ہے اسے پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنانے کیلئے سالوں انتظار کرنا پڑتاہے۔ پاکستان کی شکست کا اصل ذمہ دار وہ نظام ہے جس کےتحت امام الحق پر تو چیف سلیکٹر کی نظر پڑ جاتی ہے مگر فواد عالم، اعزاز چیمہ اور کامران اکمل جیسے کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز اور وکٹوں کے انبار لگانے کے باوجود ٹیم سے باہر رہتے ہیں ۔ یہ وہ فرسودہ نظام ہے جس میں جنید خان جیسے کھلاڑی کو منہ پر ٹیپ باندھ کر احتجاج کرنا پڑتا ہے محمد حسنین کو پاکستان سپر لیگ میں صرف تیز گیند بازی کی وجہ سے ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے مگر سہیل خان پاکستان سپر لیگ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کے باوجود ٹیم سے باہر رہتا ہے۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ جب تک یہ ذاتی پسند ،نا پسند اور پرچی کا نظام نہیں بدلا جائے گا تب تک چہرے بدلنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دوسرے ممالک کی ٹیمیں ان نوجوان کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں منتخب کرتی ہیں جو انڈر 19 اور اس طرح کی کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں ان کھلاڑیوں کو اول تو شامل ہی نہیں کیا جاتا اور اگر ان کو شامل بھی کیا جاتا ہےتو اس عمر میں جس عمر میں دوسرے ممالک کے کھلاڑی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لیتے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس وقت بھی عملی طور پر شکیل شیخ، سبحان احمد، ذاکر خان اور ہارون رشید جیسے لوگوں کے زیر اثر ہے اور یہ مفاد پرست لوگوں کا وہ ٹولہ ہے جس نے پاکستان کی کرکٹ کو نقصان پہچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ جو بھی نیا بندہ اس نظام میں آتا ہے یا تو وہ اسے کام نہیں کرنے دیتے یا اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں
یقینا ولڈکپ کی اس کارکردگی پر بھی ایک انکوائری کمیٹی بنائی جائے گی اور اس میں ان کھلاڑیوں کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا جن کا کرکٹ کیریئر تقریبا اختتام پذیر ہو چکا ہے اور ان کھلاڑیوں کو بچایا جائے گا جو کپتان اور سلیکشن کمیٹی کے لاڈلے ہیں ہو سکتا ہے کپتان، کوچ اور چیف سلیکٹر کو بھی تبدیل کر دیا جائے ( میرے نزدیک ان سب کو تبدیل ہونا چاہیے بشمول بالنگ کوچ، بیٹنگ کوچ ) مگر ان سب چیزوں کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک اس فرسودہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا جس کے تحت میرٹ پر کھلاڑی ٹیم میں شامل نہیں کیے جاتے۔
اللہ آپ سب کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرے اور آپ کو آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں