پی سی بی ،، مچھلیاں نہیں، مگر مچھ بدلو
پاکستان کی ٹیم نے جمعہ کے روز ہونے والے اپنے آخری میچ میں بنگلہ دیش کی ٹیم کو 94 رنز سے شکست تو دی مگر اس فتح کے باوجود
پاکستان کی ٹیم کا اس میگا ایونٹ میں سفر اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور نیوزی لینڈ کی ٹیم بہترین رنز اوسط کی وجہ سے بھارت، انگلستان اور آسٹریلیا کی ٹیموں کے ساتھ سیمی فائنل میں پہنچ گئ اور پاکستان کی ٹیم 2015 کی طرح اس دفعہ بھی سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔اس میچ میں پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچنےکے لیے بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کو ایک بھاری مارجن سے شکست دینا تھی اور میچ سے ایک روز پہلے ہونے والے پریس کانفرنس میں سرفراز احمد نے اس بات کا اشارہ بھی دیا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس میچ میں کم از کم پانچ سو رنز بنانے کی کوشش کرے گی اور سیمی فائنل میں پہنچ جائے گی مگر جب پاکستان بلے باز (افتتاحی ) میدان میں اترے تو ایسا لگا کہ وہ پاکستان کی بجائے اپنے لیے کھیل رہے ہیں اور آ کی کوشش صرف اتنی ہے کہ وہ اپنے لیے ایک اچھا سکور کر سکیں۔
اس ولڈکپ میں پاکستان کی ٹیم نے کوئی بہت خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا مگر وہ کارکردگی نا دکھا سکی جس کارکردگی کی پاکستانی ٹیم کے چاہنے والے امید کر رہے تھے۔ولڈکپ سے تقریبا دو ماہ پہلے انگلستان میں اپنے ڈیرے ڈالنے والی پاکستان کی کرکٹ ٹیم ولڈکپ شروع سے ہونے سے پہلے ہی مشکلات میں گھری ہوئی نظر آئی اور اس کو انگلستان کی ٹیم ( جو اس وقت آئی سی سی رینکنگ میں پہلے نمبر پر موجود ہے ) نے چار صفر سے ہرایا۔ پاکستان کی ٹیم کی انگلستان کے ہاتھوں ہار کیا ہوئی پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کمیٹی کو ایسے لگا ولڈکپ میں یہ ٹیم کچھ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے گی اور انضمام الحق نے ولڈکپ سے کچھ دن پہلے اپنی ہی منتخب کردہ ٹیم کو تبدیل کر دیا
پاکستان نے ولڈکپ میں اپنا سفر شروع کیا تو ماضی میں اپنے بہتر تیز گیند بازوں کی وجہ سے کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے ایسی عبرت ناک شکست سے دوچار کیا کہ پاکستان کی ٹیم پورے ٹورنامنٹ میں اس شکست کے زخم کو بھر نا سکی ( یہ شکست پاکستان کے ولڈکپ سے باہر ہونے کی وجہ بھی بنی)۔ اگر دیکھا جائے تو اس ولڈکپ میں بھی پاکستانی کھلاڑی انفرادی کھیل پیش کرتے نظر آئے جبکہ ان میں ایک ٹیم کی طرح مل کر کھیلنا یا جیت کا وہ جذبہ کہیں نظر نہیں آیا جو ماضی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی طرف سے دیکھنے کو ملتا تھا۔ پاکستانی کھلاڑی میدان میں بجھے بجھے اور تھکن سے چور نظر آئے۔ لگتا ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم ابھی تک 1980 کی دہائی کی کرکٹ سے باہر نہیں آ سکی جہاں پر دوسرےممالک کی ٹیمیں کم از کم 300 یا اس سے زیادہ سکور بنا کر بھی مطمئن نہیں ہوتیں وہیں پر پاکستان کے کھلاڑیوں کی کوشش صرف دو سو یا دو سو پچاس رنز بنانا ہوتی ہے
کسی بھی ٹیم کی ہار جیت میں ڈاٹ بالز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے اگر کوئی بیٹسمین بیس گیند میں دس سے پندرہ ڈاٹ بالز کھیل کر ایک چوکا یا چھکا لگا دیتا ہے تو اس سے وہ کھلاڑی زیادہ اہم اور اچھا ہے جو بیس گیندوں میں صرف دو یا تین ڈاٹ بالز کھیلتا ہے۔ پاکستان کی ولڈکپ میں ناکامی کی ایک وجہ کھلاڑیوں کا بہت زیادہ ڈاٹ بالز کھیلنا اور پھر آوٹ ہو جانا ہے۔پاکستان کی ٹیم نے پورے ولڈکپ کے دوران پہلے پاور پلے میں 65.2 فیصد ڈاٹ بالز کھیلی جس کا مطلب ہے پاکستانی ٹیم نے ولڈکپ کے تمام میچوں کے پہلے پاور پلے میں (پہلے دس اوورز ) اوسط 20.88 گیندوں پر سکور بنائے جو موجودہ دور کی ون ڈے کرکٹ کے لحاظ سے بہت کم ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم اور اس کی منیجمنٹ ابھی تک کس طرح کا دفاعی انداز اپنائے ہوئے ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے کچھ کھلاڑیوں کا اتنی زیادہ ڈاٹ بالز کھیلنےکے بعد آوٹ ہونا بھی ہماری ناکامی کا باعث بنا۔
اگر پاکستانی کھلاڑیوں کی فیلڈنگ کی بات کی جائے تو پاکستان کی ٹیم نے پورے ولڈکپ میں 15 سے زائد بار کیچ چھوڑے جو کہ کسی بھی ٹیم کی طرف سے ابھی تک اس ولڈکپ میں سب سے زیادہ ہیں اس کے علاوہ فیلڈنگ میں جس طرح پاکستانی کھلاڑیوں نے رن آؤٹ کے مواقع ضائع کیے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں
پورے ولڈکپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی بیٹنگ کا سارا دارومدار صرف اور صرف بابر اعظم پر رہا جیسے ہی بابر اعظم آوٹ ہوتے ایسا لگتا جیسے پاکستان کے کھلاڑی بیٹنگ کرنا ہی بھول گئے ہیں۔پاکستان کی طرف سے اس ولڈکپ میں بابر اعظم اور امام الحق سینچری بنانے میں کامیاب رہے۔ بابر اعظم نے اس ولڈکپ میں 67.71 کی اوسط سے 474 رنز بنائے جو کہ کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کا ولڈکپ میں سب سے زیادہ سکور ہے بیٹنگ میں کپتان سرفراز احمد بھی کوئی خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے اور 8 میچز میں 28.60 کی اوسط سے صرف 143 رنز بنا سکے جس میں صرف ایک پچاس سے زیادہ سکور تھا
اگر پاکستانی باؤلنگ کی بات کی جائے تو آخری لمحات میں ٹیم میں شامل ہونے والے محمد عامر سب سے کامیاب باؤلر رہے جہنوں نے 17 وکٹیں حاصل کیں جب کہ اٹھارہ سالہ نوجوان فاسٹ باؤلر شاہین آفریدی نے 16 وکٹیں لے کر اپنا لوہا منوایا۔
اگر دیکھا جائے تو انفرادی طور پر پاکستانی ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں کی کارکردگی بہت اچھی رہی مگر مجموعی طور پر اور بحیثیت ٹیم کارکردگی اتنی خاص نہیں رہی۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی ٹیم میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں لگے رہے (بنگلہ دیش کے خلاف آخری میچ میں اس چیز کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا) اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم سے زیادہ اپنے لیے کھیلتے نظر آئے جس کا اندازہ سب دیکھنے والوں کو بھی ہوا۔
میرے کچھ دوست احباب کا خیال ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم بہت بدقسمت رہی اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم صرف اور صرف خوش قسمتی کی وجہ سے ولڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جب کہ میرے خیال میں ایسا بالکل بھی نہیں پاکستان کی کرکٹ ٹیم بدقسمتی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے برے اور مفاد پرست کھلاڑیوں کی وجہ سے ولڈکپ کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پاکستان سے بہتر کھیل پیش کیا اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ پاکستان کی ٹیم افغانستان جیسی ٹیم سے کم سکور کا میچ بہت مشکل سےجیت سکی جب دوسری طرف نیوزی لینڈ کی ٹیم نے افغانستان کی کرکٹ ٹیم کو باآسانی شکست دی ۔
جب مکی آرتھر نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری سنبھالی تو انہوں نے بہت سے کھلاڑیوں کی فٹنس کو جواز بنا کر ٹیم میں شامل کرنے سے انکار کر دیا اور کہا پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں صرف وہ ہی کھلاڑی شامل ہوں گے جو مکمل طور پر فٹ ہوں گے اور اس چیز پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا جو بظاہر ایک اچھا اقدام تھا مگر جیسے وقت گزرتا گیا مکی آرتھر بھی پاکستانی ٹیم کے رنگ میں رنگ گئے اور اب یہ وقت ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی فٹنس پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ہمیشہ کسی بھی بڑے ٹورنامنٹ سے پہلے پاکستان آرمی کے زیراہتمام پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے فٹنس کیمپ لگاتا ہے جس سے کچھ عرصہ کے لیے تو کھلاڑیوں کی فٹنس میں اچھے نتائج حاصل ہوتے ہیں مگر اس کے بعد پھر وہی صورت حال ہو جاتی ہے جیسے پہلے تھی کیونکہ پاکستانی کھلاڑی ٹورنامنٹ شروع ہونے کچھ عرصہ پہلے تو کافی محنت کرتے ہیں مگر جیسے ہی ٹورنامنٹ ختم ہوتا ہے وہ اپنی ٹریننگ بھول جاتے ہیں پاکستانی کھلاڑیوں کی ناکامی کی وجہ ان کا اس حد تک فٹ نا ہونا بھی ہے جو آج کل کی کرکٹ کے لیے ضروری ہے
اگر دیکھا جائے تو میرے نزدیک پاکستان کی اس کارکردگی کا ذمہ دار کسی ایک کھلاڑی کو یا منیجمنٹ کے بندے کو نہیں کہا جا سکتا بلکہ پاکستان کی اس کارکردگی کا ذمہ دار وہ نظام ہے جس کی بدولت چند لوگوں نے پاکستان کی کرکٹ کو یرغمال بنا رکھا ہے اور ہر عہدہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا فیصلہ ان چند لوگوں کی طرف گھومتا رہتا ہے ۔ پاکستان کی ہر شکست کے بعد صرف چہرے تبدیل کیے جاتے ہیں اور ان ہی کچھ مفاد پرست لوگوں میں یہ تبدیلی کا کھیل کھیلا جاتا ہے جو پچھلی کافی دہائیوں سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو نقصان پہچانے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ میں ہمیشہ سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رہا ہے ہر شکست کے بعد انکوائری کمیٹیاں بھی قائم کی گئیں اور کھلاڑیوں کو جرمانے بھی کیےگئے مگر کیا نہیں گیا تو اس افسردہ نظام کا خاتمہ جس کی بدولت جنید ضیاء جیسا کھلاڑی تو راتوں رات پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل جاتا ہے مگر انور علی جیسا ہونہار کھلاڑی جو اپنی پرفارمنس سے تن تنہا انڈر 19 ولڈکپ کا فائنل پاکستان کو جیتواتا ہے اسے پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنانے کیلئے سالوں انتظار کرنا پڑتاہے۔ پاکستان کی شکست کا اصل ذمہ دار وہ نظام ہے جس کےتحت امام الحق پر تو چیف سلیکٹر کی نظر پڑ جاتی ہے مگر فواد عالم، اعزاز چیمہ اور کامران اکمل جیسے کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز اور وکٹوں کے انبار لگانے کے باوجود ٹیم سے باہر رہتے ہیں ۔ یہ وہ فرسودہ نظام ہے جس میں جنید خان جیسے کھلاڑی کو منہ پر ٹیپ باندھ کر احتجاج کرنا پڑتا ہے محمد حسنین کو پاکستان سپر لیگ میں صرف تیز گیند بازی کی وجہ سے ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے مگر سہیل خان پاکستان سپر لیگ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کے باوجود ٹیم سے باہر رہتا ہے۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ جب تک یہ ذاتی پسند ،نا پسند اور پرچی کا نظام نہیں بدلا جائے گا تب تک چہرے بدلنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ دوسرے ممالک کی ٹیمیں ان نوجوان کھلاڑیوں کو اپنی ٹیم میں منتخب کرتی ہیں جو انڈر 19 اور اس طرح کی کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں ان کھلاڑیوں کو اول تو شامل ہی نہیں کیا جاتا اور اگر ان کو شامل بھی کیا جاتا ہےتو اس عمر میں جس عمر میں دوسرے ممالک کے کھلاڑی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لیتے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس وقت بھی عملی طور پر شکیل شیخ، سبحان احمد، ذاکر خان اور ہارون رشید جیسے لوگوں کے زیر اثر ہے اور یہ مفاد پرست لوگوں کا وہ ٹولہ ہے جس نے پاکستان کی کرکٹ کو نقصان پہچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ جو بھی نیا بندہ اس نظام میں آتا ہے یا تو وہ اسے کام نہیں کرنے دیتے یا اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں
یقینا ولڈکپ کی اس کارکردگی پر بھی ایک انکوائری کمیٹی بنائی جائے گی اور اس میں ان کھلاڑیوں کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا جن کا کرکٹ کیریئر تقریبا اختتام پذیر ہو چکا ہے اور ان کھلاڑیوں کو بچایا جائے گا جو کپتان اور سلیکشن کمیٹی کے لاڈلے ہیں ہو سکتا ہے کپتان، کوچ اور چیف سلیکٹر کو بھی تبدیل کر دیا جائے ( میرے نزدیک ان سب کو تبدیل ہونا چاہیے بشمول بالنگ کوچ، بیٹنگ کوچ ) مگر ان سب چیزوں کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک اس فرسودہ نظام کو تبدیل نہیں کیا جاتا جس کے تحت میرٹ پر کھلاڑی ٹیم میں شامل نہیں کیے جاتے۔
اللہ آپ سب کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرے اور آپ کو آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق دے
اپنی رائے کا اظہار کریں