اعتماد کا فقدان, مکی آرتھر کی نا اہلی کا اعتراف یا کچھ اور ۔۔۔
جیسے جیسے ایشیا کپ آگے بڑھتا جا رہا ہے پاکستان کی ٹیم کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔23 ستمبر کو ہونے والے ایشیا کپ کے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے سپر فور مقابلے کا نتیجہ بھی 19 ستمبر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے مقابلے جیسا ہی رہا اور بھارت کو ٹیم نے پاکستان کو بآسانی نو وکٹوں سے شکست دے دی اور ایشیا کپ کے فائنل میں جگہ بنا لی۔ایشیا کپ شروع ہونے سے پہلے بھارت کی ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے آرام کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے فیصلے بعد اور ان کے ٹیم میں نا ہونے کے باوجود بھارتی ٹیم کی پرفارمنس شاندار رہی۔
کسی بھی کھلاڑی کی خود اعتمادی میں اس کی اپنی انفرادی کارکردگی بہت اہم کردار ادا کرتی اور اس کی کارکردگی ہی اس کے ٹیم میں ہونے کی وجہ ہوتی ہے اور پاکستانی کھلاڑیوں کی موجودہ صورتحال میرے خیال میں ان کی انفرادی کارکردگی نا ہونے کی وجہ سے بھی ہے
بھارت کے خلاف کھیلے جانے والے 23 ستمبر کے میچ میں پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی باڈی لینگویج دیکھ کر لگتا تھا پاکستانی ٹیم میں اعتماد کی انتہائی کمی ہے اور پاکستانی کھلاڑی تھکے تھکے نظر آئے۔تقریبا پچھلے دس سال سے پاکستانی ٹیم یو اے ای میں کھیل رہی ہے اور اس وقت ایشیا کپ میں حصہ لینے والی ٹیموں میں یو اے ای میں کھیلنے کا سب سے زیادہ تجربہ رکھتی ہے
پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس میں ہر گزرنے والے میچ کے ساتھ کمی آتی جا رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ کھلاڑیوں میں اعتماد کی کمی قرار دیا جا سکتا ہے ۔جس طرح سے پاکستانی کپتان سرفراز احمد کے چہرے پر پریشانی اور گھبراہٹ نظر آ رہی ہے اس سے ہم سب اندازہ کر سکتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم میں اس وقت اعتماد کی کتنی کمی نظر آ رہی ہے۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں مگر ایک اہم وجہ پاکستانی کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی ہے۔ پاکستانی ٹیم کے سپر اسٹارز سمجھے جانے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی دن بدن تنزلی کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ چاہیے وہ محمد عامر ہوں، حسن علی ہوں ،شاداب خان ہوں یا پھر ان سب سے بڑھ کر کپتان سرفراز احمد ہوں ۔کسی بھی کھلاڑی کی پرفارمنس ایسی نہیں جس سے ٹیم میچ جیت سکے۔اگر آپ کی انفرادی کارکردگی اچھی نہیں ہوتی تو اس سے آپ کے اعتماد میں بھی کمی آتی ہے جو گزرنے والے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید کمی آتی ہے ۔
کپتان بننے سے پہلے اور کپتان بننے کے بعد اگر ہم سرفراز احمد کی باڈی لینگویج کا موازنہ کریں تو ہم کو اس میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے ۔سرفراز احمد ہمیشہ سے اٹیکنگ کھلاڑی پر مشہور رہے ہیں مگر ایشیا کپ کے میچز میں ان میں وہ چستی اور تیز رفتاری نظر نہیں آ رہی ۔ اس کی ایک وجہ ان کی اپنی حالیہ پرفارمنس بھی ہے۔سرفراز احمد کے کپتان بننے کے پاکستان کچھ اہم ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے جس میں چیمپئنز ٹرافی بھی شامل ہے مگر ان سب کے باوجود سرفراز احمد کی اپنی پرفارمنس نا ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے وہ انتہائی پریشر میں ہیں اور میرے خیال میں اس وقت وہ ٹیم میں صرف اور صرف کپتان ہونے کی وجہ سے ہیں۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کل کو سرفراز احمد کو سلیکشن کمیٹی کچھ عرصے کے لیے آرام دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو کون سا ایسا کھلاڑی ہے جن ان کی جگہ ٹیم میں شامل ہو گا ؟ ( میرے خیال میں محمد رضوان ان کی جگہ لے سکتے ہیں ) سرفراز احمد کے لیے میرا مشورہ ہے کہ جتنی تیزی سے ان کی میدان میں زبان چلتی اتنی ہی تیزی سے اپنا بلا بھی چلائیں تو ان کے ساتھ ساتھ پاکستانی ٹیم کے لیے بھی بہتر ہو گا
اگر مزید پاکستانی بیٹسمینوں کی بات کی جائے تو لگتا ہے فخر زمان کو کوچ اور کپتان ان مرضی کے مطابق نہیں کھیلنے دے رہے اور ان کے قدرتی انداز کو روکا جا رہا جس کی وجہ سے وہ انتہائی پریشر میں کھیل رہے ہیں اور ان سے سکور بالکل نہیں ہو رہا ۔آج کل کی جدید کرکٹ میں جب تمام ٹیمیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے منصوبوں میں تبدیلی کرتے ہیں پاکستانی منجمنٹ وہ ہی 1980 اور 90 کی کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہے ۔ بجائے اوپر کے کھلاڑیوں کو اٹیکنگ کرکٹ کا مشورہ دینے کے ان کو روکنے کا کہا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ٹیم ایک بڑا سکور کرنے میں ناکام رہتی ہے ۔
پاکستانی ٹیم کی مشکلات کی سب سے بڑی وجہ پاکستانی باؤلرز کی ناقص کارکردگی ہے۔ محمد عامر کی کارکردگی 2018 میں ابھی تک کوئی تسلی بخش نہیں رہی۔ حسن علی بھی اس طرح کی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے جس کی ان سے امید کی جا رہی تھی۔ میرے خیال میں حسن علی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل کے بعد بہت زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کی بجائے دوسری سرگرمیوں پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دی جس کی وجہ سے ان کی بولنگ میں وہ برق رفتاری نظر نہیں آ رہی جس کی وجہ سے وہ شہرت رکھتے ہیں ۔
کپتان اور ٹیم منجمنٹ اس وقت پلینگ الیون چناؤ میں بھی مشکلات کا شکار نظر آ رہے ہیں ۔ ایسے لگتا ہے وہ ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ٹیم میں کتنے بیٹسمین ہوں اور کتنے باؤلرز ؟یہاں پر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے اگر پاکستانی ٹیم میں اعتماد کی کمی ہے تو اتنی بھاری بھاری تنخواہیں لینے والے ٹیم منجمنٹ کے ارکان کس مرض کی دوا ہیں اور وہ ٹیم کے ساتھ کیا کر رہے ہیں ۔ اور کیا بڑا نام ہونا ہی ٹیم میں شامل ہونے کی ضمانت ہے؟ اور ان کھلاڑیوں کا کیا قصور ہے جو ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی پرفارمنس دے رہے ہیں؟ میں پہلے بھی اس بات کا ذکر کر چکا ہوں جب تک ٹیم کا انتخاب ذاتی پسند نا پسند پر ہو گا اور کارکردگی دیکھانے والے کھلاڑیوں سے ناانصافی ہوتی رہے گی تو ہم کو اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ افغانستان جیسی ٹیم کے خلاف پاکستان کی ٹیم اتنے مشکل سے جیتی۔ خدا را پاکستان کی طرف سے کھیلیں ۔پاکستان کے ساتھ مت کھلیں ۔
اپنی رائے کا اظہار کریں