ورلڈکپ جیتنا ہے یا کپتان کا دل ؟
پاکستان کی کرکٹ ٹیم جو ان دنوں زمبابوے کے دورے پر موجود ہے اس نے اتوار کے روز ہونے والے تیسرے اور آخری ٹی 20 انٹرنیشنل میچ میں زمبابوے کو شکست دی تو دل نے سکون کا سانس لیا
اگرچہ پاکستان کی ٹیم نے یہ سیریز تو جیت لی مگر زمبابوے کے خلاف پاکستان کی ٹیم کو اس سیریز کے دوسرے میچ میں عبرت ناک شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ پاکستان کی ٹیم سیریز کے دوسرے میچ میں صرف ننانوے رنز بنا سکی تھی اگر پاکستان کی زمبابوے کے خلاف اس سیریز کو اس سال بھارت میں ہونے والے ٹی 20 ولڈکپ کی تیاری کہا جائے تو اس سیریز نے پاکستان کرکٹ کے ارباب اختیار کے لیے خطرے کی گھنٹی لازمی بجا دی ہے اگرچہ پاکستان کی ٹیم نے اس سیریز میں کچھ نئے کھلاڑیوں ( دانش عزیز اور ارشد اقبال ) کو موقع لازمی دیا مگر ان تینوں میچوں میں جس طرح کی ٹیم کھلائی گئ وہ بھی کافی حیران کن ہے
اکثر دیکھا گیا ہے پہلے میچ میں جیت کے بعد اس ٹیم کو تبدیل نہیں کیا جاتا مگر پاکستان نے پاکستان نے پہلا میچ جیتنے کے بعد اب تک انٹرنیشنل کرکٹ میں مکمل طور پر ناکام رہنے والے آصف علی کو ٹیم میں شامل کیا اور وہ اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے صرف ایک ہی اسکور بنانے میں کامیاب ہو سکے اگرچہ آصف علی نے آخری پانچ میچوں میں 30 رنز بھی نہیں بنائے مگر قسمت کی دیوی ان پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہے
اگر تیسرے ٹی 20 میچ کی بات کی جائے تو پاکستان کی ٹیم سلیکشن کو دیکھ کر ایسے لگا
جیسے یہ بہت جلدی میں کی گئی ہو اس ٹیم میں ایک نہیں،دو نہیں بلکہ چار چار اوپنر بیٹسمین موجود تھے جو کافی حیران کن بات ہے اس کے علاوہ دو وکٹ کیپر بھی موجود تھے دانش عزیز جہنوں نے دوسرے میچ میں قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ان کو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا
پاکستان کی ٹیم میں اس وقت گیند باز مشکلات کا شکار نظر نہیں آتے اور پاکستان کی ٹیم کا اس وقت اصل مسئلہ مڈل آرڈر بیٹنگ کا ہے اگر محمد رضوان اور بابر اعظم پہلے نمبروں پر اچھا اسکور نا کریں تو مڈل آرڈر بیٹسمین اس کا پریشر برداشت نہیں کر سکتے جو پاکستان کی ٹیم کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث ہے میرے خیال میں محمد حفیظ کے ساتھ اس وقت شعیب ملک کا ٹیم میں ہونا بہت ضروری ہے شعیب ملک ایک ایسا کھلاڑی ہے جو اننگز کو لے کر چلتا ہے اور میچ کا اختتام اچھے انداز میں کرتا ہے
پاکستان کی کرکٹ ٹیم اس وقت بیٹنگ میں مکمل طور پر محمد رضوان اور بابر اعظم پر انحصار کر رہی ہے اگر ان کے ساتھ محمد حفیظ اور شعیب ملک ٹیم میں شامل ہوں تو ایک ایسی ٹیم سامنے آ سکتی ہے جو ولڈ کپ میں اچھا کھیل پیش کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
میرے خیال میں زمبابوے کے خلاف اگر سرفراز احمد کو تینوں میچوں میں پلینگ الیون کا حصہ بنایا جاتا تو ان کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا اور محمد رضوان سے بھی تھوڑی ذمہ داری کم ہوتی مگر شاید ٹیم مینجمنٹ ابھی بھی سرفراز احمد سے خوش نہیں اور انہیں اہم میچز میں ٹیم کا حصہ نہیں بنانا چاہتے اگر آئی سی سی کی رینکنگ میں نمبر 12 پر موجود زمبابوے کی ٹیم سے پاکستان اتنی مشکل سے سیریز جیتنے میں کامیاب ہوا ہے تو یقینا یہ پاکستان کرکٹ کے لیے لمحہ فکریہ ہے
اب وقت آگیا ہے کہ آصف علی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے اور ان کی جگہ کسی ایسے کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کیا جائے جو حقیقت میں میچ کا اختتام کرنا جانتا ہو۔اس کے ساتھ ساتھ حیدر علی کو بھی اب پرفامنس دینا پڑے گی کیونکہ اس ٹیلنٹ کا کوئی فائدہ نہیں جو آپ کی ٹیم کے کام نا آ سکے
اب جب کہ باقی تمام ممالک کی ٹیمیں ولڈ کپ کے لئے اپنی حکمت عملی تیار کر چکی ہیں پاکستانی ٹیم لگتا ہے ابھی بھی ڈنگ ٹپاو پالیسی اپنائے ہوئے ہے اگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے اس سال بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو انہیں یاری دوستی سے ہٹ کر اور اپنی ذاتی انا اور کسی کی خوشنودی حاصل کرنے کی چاہ کو پیچھے چھوڑ کر پاکستان کے لیے فیصلے کرنے ہوں گے
اپنی رائے کا اظہار کریں