کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں کپتان کی اہمیت دوسرے تمام کھیلوں سے قدرے زیادہ ہوتی ہےلہذا اہمیت زیادہ ہے تو توقعات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔تمام ٹیمز اور انکے فینز چاہتے ہیں کہ انکا کپتان ایک ایسا کھلاڑی ہو جو ٹیم کو فرنٹ سے لیڈ کر کے اپنی صلاحیتوں سے کامیابیاں دلوائے۔دنیائے کرکٹ میں بہت سے ایسے کپتان گزرے ہیں جن کو آج بھی انکی کپتانی کی وجہ سے عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان میں ویسٹ انڈیز کو مسلسل دو مرتبہ عالمی چیمپئن بنانے والے کائیو لائیڈ،بھارت کو پہلی مرتبہ ورلڈکپ جتوانے والے کپیل دیو،پاکستان کے ماتھے پر ورلڈ چیمپئن کا ٹیکہ سجانے والے عمران خان، سری لنکا کے ہیرو ارجونا رانا ٹونگا،آسٹریلیا کو دو مرتبہ عالمی کپ جتوانے جتوانے والے رکی پونٹنگ اور بھارت کرکٹ میں نئی روح پھونکنے والے ساروو گنگولی کے نام شامل ہیں۔ اور اب بات کرتے ہیں پاکستان کرکٹ میں کپتانی کی تو پاکستان کے پہلے کپتان عبد الحفیظ کاردار تھے جن کی قیادت میں 16 اکتوبر 1952 دہلی میں بھارت کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔پاکستان کرکٹ میں کپتانی ہمیشہ سے ہی ایک دلچسپی کا باعث رہی ہے۔پاکستان کرکٹ میں کپتانی کو پاوور گیم سمجھا جاتا ہے لہذا اسی وجہ سے چند ایک ناموں کو چھوڑ کر کوئی بھی کپتان اپنی پوزیشن کے بارے میں پر سکون نظر نہیں آیا۔ پاکستان کرکٹ میں کپتان کے خلاف گروپنگ تلخ صحیح لیکن حقیقت رہی ہے۔ عمران خان پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں سرفہرست کپتان ہیں وہ ایک خود مختار اور با اختیار کپتان تھے۔عمران خان کے بعد یہ پوزیشن مختلف پلیئرز سے تبدیل ہوتی رہی پھر وسیم اکرم کا دور آیا اس وقت کپتانی کچھ مستحکم ہوئی۔وسیم اکرم کے بعد بھی کھینچا تانی چلتی رہی۔انضمام الحق نے بھی کافی عرصہ اس عہدہ کو اپنے پاس رکھا انکی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان کو اس معاملات میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بہت سے گھوڑوں کو اس ریس میں دوڑایا گیا لیکن زیادہ تر ناکام لوٹے۔اور تب آتا ہے پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب جب پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان انگلینڈ کی سرزمین پر اپنے دو ساتھی کھلاڑیوں سمیت میچ فکسنگ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے بیرون ممالک کے میڈیا میں یہ خبر ہیڈلائنز بن جاتی ہے۔ پاکستان کرکٹ کو دنیا بھر میں ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اور پھر پاکستان کے لیے ایک اچھا دور شروع ہوتا ہے وہ کہتے ہیں ناں کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔اس نئے دور میں کپتانی کی باگ ڈور مصباح الحق کو دی جاتی ہے۔مصباح الحق پاکستان کے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچ جیتنے والے کپتان بنتے ہیں۔ساوتھ افریقہ میں ون ڈے سیریز جیتنے والے پہلے ایشائی کپتان بنتے ہیں۔انڈیا کو اس کے گھر میں ون ڈے سیریز ہراتے ہیں۔مختلف ٹیسٹ سیریز میں آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی بڑی ٹیموں کو وائٹ واش کرتے ہیں۔پاکستان ٹیم کو ٹیسٹ میں نمبر 1 رینکنگ پر لا کھڑا کیا۔پھر مصباح الحق نے بھی کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔تب ایک نام سامنے آیا وہ تھا سرفراز احمد۔جب اس کھلاڑی کو پاکستان ٹیم کی قیادت کی ذمہ داری دی گئی تو محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان ٹیم نے نئی بلندیوں کو ٹچ کیا۔پاکستان ٹیم نے سرفراز احمد کی قیادت میں 2017 میں چیمپئنز ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ٹی20 کرکٹ میں مسلسل سب زیادہ سیریز جیتنے والی ٹیم کا اعزاز دلوایا۔ٹیم کو ٹی20 رینکنگ میں نمبر ون بنایا اور اپنے پورے دوور میں نمبر ون پوزیشن اپنے پاس رکھی۔لیکن سرفراز احمد ٹیسٹ کرکٹ میں ایک ناکام کپتان ثابت ہوئے۔سری لنکا نے2019 میں پاکستان کا رخ کیا۔پاکستان نے ون ڈے سیریز میں کامیابی حاصل کی اسکے بعد ٹی20 سیریز میں پاکستان کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اس شکست کے بعد پاکستان کرکٹ میں ایک بھونچال سا آگیا سرفراز کو تمام طرز کی کپتانی سے فارغ کردیا گیا ساتھ ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو بھی گھر بھیج دیا گیا۔سرفراز کی جگہ بابا اعظم کو ون ڈے اور ٹی20 کا کپتان مقرر کیا گیا۔بابر اعظم بلاشبہ اس وقت پاکستان کے سب سے بہترین بلے باز ہیں لیکن ابھی تک وہ بلکل ناکام کپتان کے طور پر سامنے آئے ہیں۔انکی کپتان میں پاکستان نے ٹوٹل 6 ٹی20 انٹرنیشنل کھیلے ہیں جن میں سے صرف ایک جیت پاکستان کو مل سکی ہے جبکہ 3 میں شکست اور دو میچ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئے۔ یاد رہے بہت سے عظیم پلیئرز اچھے کپتانی میں ناکام ہوئے ہیں جن میں سچن ٹنڈولکر،جاوید میانداد اور سنتھ جے سوریا کے نام شامل ہیں۔ بابر اعظم اب زمبابوے کے خلاف اپنے ون ڈے انٹرنیشنل میں کپتانی کا آغاز کررہے ہیں۔ہم سب انکی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔انہی لمحات میں پاکستان کرکٹ بورڈ ٹیسٹ کپتان اظہر علی کو بھی تبدیل کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ کیونکہ اظہر علی فی الحال ٹیسٹ ٹیم کو خاطر خواہ کامیابی نہیں دلوا سکے۔اظہرعلی کے متبادل کے طور پر محمد رضوان،شان مسعود اور بابر اعظم کے نام سامنے آئے ہیں۔اب سلیکٹرز سے چند معصومانہ سوال یہ ہیں کہ کیا ہم رضوان اور شان مسعود کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان بنا سکتے ہیں کیونکہ ابھی ان دونوں کی اپنی سو فیصد جگہ ٹیسٹ میں نہیں ہے۔دونوں کھلاڑیوں کا ٹیسٹ کیریئر بھی کچھ قابل ذکر نہیں ہے ماسوائے چند ایک اننگز کے۔اس بات کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہمیں ان دونوں کی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں کیونکہ شان نے پی ایس ایل 2020 میں ملتان کو ابھی تک ٹاپ پوزیشن پر برقرار رکھا ہوا ہے اور یہ معمولی بات نہیں ساتھ ہی رضوان ابھی نیشنل ٹی20 کپ کے چیمپئن بنے ہیں لیکن کیا ہم ان ٹی20s ایونٹس میں کامیابیوں کی بنیاد پر ٹیسٹ ٹیم کی قیادت ان کے حوالے کرسکتے ہیں؟اب آتے ہیں بابر اعظم کی طرف تو ذرائع کی اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ بابر کو ٹیسٹ کپتان بنانے کا فیصلہ کرچکا ہے۔بابر اعظم پہلی بار عوام کو انڈر19 ورلڈکپ 2012 میں کپتانی کرتے ہوئے نظر آئے تھے جہاں کوارٹر فائنل میں انہیں بھارت کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہوا تھا۔پچھلے نیشنل ٹی20 کپ میں بابر اعظم کو سینٹرل پنجاب کی قیادت کی ذمہ داری گئی تھی جہاں انکی ٹیم سیمی فائنل کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کرسکی تھی۔
اپنی رائے کا اظہار کریں