ٹیم کی ناقص کارکردگی اور فٹنس – این سی اے کی افادیت مشکوک
چار جون کو پاک بھارت میچ اس لحاظ سے تاریخی رہے گا کہ اس میں باولنگ کرنے والی پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی پویلین کو لوٹتے رہے، پہلے فاسٹ باولر محمد عامر نے بھارتی بلے بازوں کے عزائم بھانپتے ہوئے باہر جانے میں عافیت جانی اور اس کے بعد بھارتی بلے بازوں کی وحشیانہ بلے بازی سے نیم مردہ وہاب ریاض کو سہارے سے باہر لانے کے مناظر کل عالم نے دیکھے اور دونوں کو پاکستانی کی سپیڈ گنز کہا جاتا ہے یہ الگ بات کہ وہاب ریاض پانی والی پلاسٹک کی پستول ثابت ہوئے اور محمد عامر چالاک مکارانہ ذہنیت کا باولر
باولنگ چھوڑیے، بلے بازی چھوڑیے بھارت کے خلاف بوکھلاہٹ کا شکار ہماری فیلڈنگ سائیڈ کچھ ایسی حرکات کرتی دکھائی دی کہ جیسے بم دھماکے کی اطلاع ملنے پر جیسے ہجوم بے مہار بھاگتا ہے، ایسے ہمارے فیلڈر دائیں بائیں بھاگتے اور گرتے دکھائی دیے، یہ پندرہ کھلاڑی صرف بین الاقوامی کرکٹ میں تین سے چار رنگ باز گوروں کے ہتھے چڑھتے ہیں اور یہ کوچز مختلف مداریوں والے کرتب دکھاکر کچھ ایسا تاثر پیش کرتے ہیں کہ ان سے بڑا پڑھا لکھا اور پر مہارت کوچ ہی کوئی نہیں، مگر نتائج بڑی ٹیموں کے خلاف ایسے ہیں کہ جن پر محض کہا جا سکتا ہے I am Sorry
کسی بھی درجے کی ٹیم جو پاکستان کے لیے بنتی ہے، ان سب کھلاڑیوں کو نیشنل کرکٹ اکیڈیمی لاہور لایا جاتا ہے جہاں مقصد ہوتا ہے ان کی نوک پلک درست کرنا، ان کی فٹنس، بیٹنگ باولنگ کے ساتھ ساتھ پہننے، بولنے اور کھانا کھانے کے آداب سکھانا،،،، میں یہ مانتا ہوں کہ انڈر19 کی حد تک ان تمام شعبوں میں تبدیلی لانے میں یقینا کچھ نتائج حاصل ہوتے ہیں اور اس کی وجہ محض یہ کہ انڈر19 تک کھلاڑی مودب اور کچھ سیکھنے کا متلاشی ہوتا ہے،،،،مگر سکھانے والوں کی اہلیت پر سوالیہ نشان اس وقت لگ جاتا ہے جب ہماری قومی ٹیم کہ جس کے لیے یہ سب پاپڑ بھیلے جاتے ہیں ،،،،بڑے میچوں میں ٹھس ہوجاتی ہے
پہلے تھوڑی سی معلومات آپ کو دیتا چلوں کہ قزافی اسٹیڈیم کے باہر دنیا کی جدید ترین اکیڈیمی ہے، قزافی اسٹیڈیم میں مستقل عیاشیوں کے حامل اعلی عہدیداران نے یہ ادارہ قائم کر رکھا ہے کہ جب کوئی بحرانی صورت حال پیدا ہو،،،،قوم کا اور موقع پرست سابق ٹیسٹ کرکٹرز کا منہ چپ کروانے کے لیے اسے اکیڈیمی میں تعینات کر دیا جاتا ہے، چاہے اس کی قابلیت اس ادارے میں نوکری کرنے کی ہو یا نہ ہو،،،جیسے نجم سیٹھی صاحب پہلے اپنے عزیز ایزد سید کو ڈائریکٹر اکیڈیمیز بنایا اور ہارون رشید کو چلتا کیا گیا،،،،قومی ٹیم کی بدترین کارکردگی پر شور مچا تو چیئرمین پی سی بی دوبئی جاکر بیٹھ گئے اور اس وقت تک نہیں واپس آئے جب تک مدثر نزر مان نہیں گئے کہ وہ ڈائریکٹر اکیڈیمیز ہیں،،،،مدثر نزر کے ساتھ عاقب جاوید بھی لاہو رآبسے اور لاہور قلندرز کی کمان سنبھال لی،،،مگر ہم نے بعد میں دیکھا کہ لاہور قلندرز کی ٹیم کو نیشنل کرکٹ اکیڈیمی لاہور کے اندر پریکٹس کرنے سے انکار کردیا گیا،،،کیوں کیا گیا؟ تو یہ الگ کہانی ہے جو پھر کبھی سہی،،،مختصرا یہ کہ لاہور قلندرز،،پی ایس انتظامیہ کی پسندیدہ ٹیم نہیں ہے
یا یوں کہہ لیجیے کہ قومی ٹیموں سے گراونڈ کیے گئے افراد کو ٹھکانے لگانے والی عمارت کا نام این سی اے ہے،،،،مدثر نزر سمیت جو بھی آیا اس نے بڑھکیں ذیادہ ماریں مگر نزر آنے والا کام کوئی بھی کرنے سے معزور رہا،،،ایزد سید ڈائریکٹر اکیڈیمیز بنے تو انہوں نے مجھ سے ڈان ٹی وی کے لیے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ تین ماہ میں این سی اے کے اندر بائیومکینکس لیب پر کام ہوتا سب دیکھیں گے اور ہم نے دیکھا کہ وہ دور این سی اے کے ناکام ترین ادوار میں سے ایک رہا،،،کیونکہ ایک ادارے کا سربراہ جب بعد از دوپہر دفتر آئے گا تو اچانک کوچز کی تو موجیں لگی رہیں گی نہ،،،خیر بائیومکینکس بنی بھی تو لمز یونیورسٹی میں اور وہ بھی چیئرمین پی سی بی شہریار خان کی ذاتی کاوشوں سے،،،،،،یہ وقت بتائے گا کہ اس لیب کا ذیادہ فائدہ پاکستان کرکٹ کو ہوتا ہے یا اس یونیورسٹی کو،،مدثر نزر کرکٹ میں ایک قابل احترام نام ہیں اور انہوں نے بھی کئی بار فنڈز کی عدم دستیابی کو ان کے پروگرامز میں رکاوٹ کا باعث قرار دیا ہے مگر حیران ہوں کہ بیرون ملک دوروں کے لیے کبھی بھی فنڈز کی کمی آڑے نہیں آئی
این سی اے کے جڑے تمام کوچز سے میری اچھی شناسائی ہے کیونکہ 2005 میں مجھے بھی یہاں سے لیول ٹو کوچنگ کورس کرنے کا اعزاز حاصل ہوا،،،،ریجنز ہوں یا این سی اے کے کوچز،،،،سب کے پیچھے پیچھے کسی نہ کسی کا ہاتھ ہے اور کئی کے پیچھے تو باقاعدہ کندھا ہے اور کچھ بڑے کھلاڑیوں کے بچوں کو بڑی محنت سے کرکٹ سکھا کر بڑے بڑے دفتروں میں بیٹھے نظر آتے ہیں ،،،یہاں کے کوچز اچھی پریکٹس کروانے کی حد تک تو قابل تعریف ہیں یعنی لیبر جتنی مرضی کروا لیں مگر مہارت سے عاری بارات ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے،،،جو جی حضوری کرنے کا جتنا ماہر ہے اسے اتنا بڑا کوچ ہونے کا اعزاز حاصل ہے،،،،ریجنز میں کوچز ریجنل صدور کے ماتحت کے علاوہ کچھ بھی نہیں،،،،اور سب حسب حصہ ٹیموں میں من پسند کھلاڑی شامل کروا کے تنخواہ کے علاوہ بھی بہت کچھ جوڑ لیتے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ نیشنل کرکٹ اکیڈیمی کو سب سے بڑا دھوکہ ریجنل صدرو اور کوچز دے رہے ہیں کہ جو ٹیلنٹڈ کھلاڑیوں کو یہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیتے اور ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں
نیشنل کرکٹ اکیڈیمی کے ساتھ ایک اور المیہ بھی ٹائم ٹو ٹائم رہا ہے کہ یہاں بیک وقت دو مکاتب فکر کو بٹھایا گیا،،،،جیسے آج کل نیشنل کرکٹ اکیڈیمی میں ایک دھڑا چیف سلیکٹر انضمام الحق سے جڑا ہے جو کوچ کا تعلیم یافتہ ہونے کو اتنی اہمیت نہیں دیتا،،،جبکہ دوسرا دھڑا مدثر نزر کی نظر ہے جنکے پاس مہارت کم مگر تعلیم یافتہ سب ہیں اور ایک سے ایک ذہین اور باکمال کوچ ہونے کا دعویدار،،،،،ہر سال کڑوڑوں جھونک دیے جاتے ہیں مگر نتائج آپ سب کے سامنے ہیں کہ ہمارے کھلاڑی کسی بھی بڑے بلے باز کو باولنگ اور کسی بھی ورلڈکلاس بلے باز کو باولنگ کروانے سے گھبراتے ہیں اور بہانے سے باہر آنے میں عافیت سمجھتے ہیں،،،،فیلڈنگ میں تو شاید ہم افغانستان سے بھی بدتر ٹیم ہیں،،،جو یہ ثابت کرتی ہے کہ ہمارے ریجنز اور این سی اے اپنا کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اور مزے کی بات ہے کہ کرکٹ کا یہ واحد ادارہ ہے کہ جس میں احتساب نام تک نہیں ہے،،،،وہی کوچز جو پچھلے دس سال سے پاکستان کرکٹ کو چمٹے ہیں وہی مختلف اشکال میں ہمارے کھلاڑیوں کو دستیاب ہوتے ہیں
اپنی رائے کا اظہار کریں