T20 Cup نے پاکستان کے روشن مستقبل کی گرین لائٹ آن کر دی
نیشنل ٹی 20 اختتام پزیر ہوا۔
محمد رضوان کی زیر قیادت خیبر پختونخواہ کی ٹیم نے شروع سے آخر تک تسلسل کے ساتھ بہترین پرفارمنس دیتے ہوئے ٹرافی اپنے نام کی۔
یہاں شان مسعود کی زیر قیادت کھیلنے والی جنوبی پنجاب کی ٹیم کو داد نہ دینا بھی ناانصافی ہو گی۔بہت عمدہ طریقےسے محنت و عزم سے ٹیم نے سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔اور بہت زبردست مقابلہ کیا۔خاص طور پر حسین طلعت خوشدل شاہ صہیب مقصود اور خود شان مسعود کی پرفارمنسز نے سدرن پنجاب کو فائنل تک رسائی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ناردن کی ٹیم اگر چہہ صرف دو شکستوں کے ساتھ سولہ 16 پوائینٹس کے ساتھ پوائینٹس ٹیبل ہر پہلے نمبر پر تھی لیکن سیمی فائینل میں مخالف ٹیم کے کپتان شان مسعود زیشان اشرف اور ذاہد محمود کی عمدہ کارکردگی کی بدولت وہ فائنل سے باہر ہو گئی۔
مجموعی طور پر یہ ٹورنامنٹ کھلاڑیوں کی کارکردگی جانچنے نئے ٹیلنٹ کو پرکھنے اور ملک میں کرکٹ کی پروموشن اور کھلاڑیوں کا خون گرمانے کے لیئے ایک بہترین کوشش تھی۔
اس ٹورنامنٹ کی خوبصورتی مزید نکھر جاتی اگر کرونا وبا کی وجہ گراونڈ میں تماشائیوں کے داخلے پر پابندی نہ ہوتی۔
رنز کے اعتبار سے فخر زمان (37 کی اوسط سے 420 رنز)خرم منظور (37 کی اوسط سے408) صہیب مقصود (32 کی اوسط سے 393) محمد رضوان (39 کی اوسط سے389) اور امام الحق (53 کی اوسط سے 375 رنز ) پہلی پانچ پوذیشنز حاصل کرنے میں کامیاب رہے
فخر زمان سب زیادہ نصف سینچریز (5) بنانے والے بھی کھلاڑیوں میں نام لکھوانے میں بھی کامیاب رہے۔
اگر اوسط دیکھی جائے تو محمد عمران (6 میچز میں 99) بابر اعظم (پانچ میچز میں 91) دانش عزیز (9 میچز میں 73) امام الحق( 9 میچز میں 53) اور عبداللہ شفیق (10 میچز میں 45) کی اوسط سے ٹاپ 5 میں شامل ہوئے
ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ چھکے لگانے میں پہلی پوذیشنز ان کھلاڑیوں کے حصہ میں آئیں
خوشدل شاہ(25) صہیب مقصود (20) اعظم خان (19) فخر زمان (17) حیدر علی (16)
بولنگ میں شاہین آفریدی (20) حارث روف ( 18) وہاب ریاض (16) شاداب خان (15) سہیل خان (15) ٹاپ 5 بولرز میں نام لکھوانے میں کامیاب ہوئے
وکٹ کیپنگ کے شعبہ میں سب سے کامیاب وکٹ کیپر کامران اکمل رہے اور انکے بعد بسمہ اللہ خان۔
فیلڈنگ کے شعبہ میں افتخار احمد نے ٹورنامنٹ میں 10 کیچز لے کر پہلی پوذیشن حاصل کی
بیٹنگ کے شعبہ میں نئے ٹیلنٹ میں خوشدل شاہ حیدر علی ذیشان ملک عبداللہ شفیق اور دانش عزیز نے متاثر کن کارکردگی دکھائی
بلاشبہ آنے والے وقت میں اگر ان کھلاڑیوں کو ماضی کی طرع پسند ناپسند اور سیاست کی نظر نہ کیا گیا تو یہ یقینی طور پر پاکستان کے مستقبل کے سٹارز ہوں گے انشا اللہ۔
آل راونڈرز کی فہرست میں ماسوائے شاداب خان کے اس ٹورنامنٹ میں کوئی قابل زکر کھلاڑی نظر نہیں آیا۔
اس شعبہ میں بہت توجہ اور محنت کی ضرورت ہے۔
بولنگ میں بھی لمحہ فکریہ ہے کہ نئے ٹیلنٹ کا فقدان ہے۔
سپن کے شعبہ میں عثمان قادر اور ذاہد محمود مستقبل کی امید ضرور ہیں لیکن ان پر بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے محمد الیاس بھی وقار یونس جیسے کوچز کی توجہ کے محتاج ہیں
اس ٹورنامنٹ کی ٹی وی پر براہ راست کوریج کی گئی اور پی سی بی کے کمینٹیٹرز کے پینل کی تعریف بھی ضروری ہے جنھوں نےدیکھنے والوں کو اپنی کمنٹری سے مایوس نہیں کیا۔بلاشبہ یہ ایک بہترین انتخاب تھا۔
تازہ خبریں یہ ہیں کہ اظہر علی کو ٹیسٹ کپتانی سے ہٹانے کا سوچا جا رہا ہے اور ان کی جگہ مخلتف آپشنز زیر غور ہیں جن میں بابر رضوان اور شان مسعود شامل ہیں۔اگر اس میں شاداب کو بھی شامل کر لیا جائے تو وہ بھی برا انتخاب نہیں بہت عمدگی سے انھوں نے پی ایس ایل اور اب نیشنل 20 میں ٹیم کی قیادت کر کے اپنی قائدانہ صلاحتیوں کو منوایا۔اظہر علی بلاشبہ اس وقت یونس اور مصباح کے بعد ٹیسٹ میچز کے بہترین بیٹسمین ہیں لیکن ان کی قائدانہ صلاحتیوں اور خاص طور پر ان کی بہت زیادہ دفاعی حکمت عملی پر سوالیہ نشان ضرور ہے۔اور ساتھ کپتانی کا پریشر بھی میچ میں ان پرصاف نظر آتا ہے
دوسری خبر مصباح الحق کے چیف سلیکٹر کا عہدہ چھوڑنے کی ہے۔یہ مصباح نے اچھا فیصلہ کیا۔لیکن میرا نہیں خیال کہ مصباح الحق اب ذیادہ دیر تک اپنا کوچ کا عہدہ بھی بچا سکیں۔یونس خان کی صورت میں ان کے لیئے ایک بڑا چیلنج ٹیم میں ہی موجود ہے۔
مصباح سے پی سی بی کی کچھ اختلافات کی خبریں بھی زیر بحث ہیں عمومی طور پر مصباح خاموش طبع مصلحت پسند اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شخص ہے۔لیکن بعض اوقات ماضی میں بھی پی سی بی کے کوچز سیلیکٹرز پر بے جا پریشر اور ان کو ریموٹ کنٹرول بنانے پر کئی لوگوں کے اختلافات اور جھگڑے رہے ہیں اور یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ٹیم کی بہتری اسی میں ہے کہ اگلے تین چار سال یونس خان اور مصباح الحق ٹیم کے ساتھ بحثیت بیٹنگ کوچ رہیں۔
جلد ہی ذمبابوے کے ساتھ سیریز شروع ہونے والی ہے۔یہ ایک بہترین موقعہ ہے کہ آزمائے ہووں کو دوبارہ آزمانے کے بجائے فریش ٹیلنٹ کو چانس دیا جائے۔یہاں یہ بات ضروری ہے کہ ٹیم انتظامیہ کو کسی بھی نئے پلئیر کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیئے اسے کم از کم مسلسل دس میچز کھلانے چاہیئں۔اسکے بعد اسکی پرفارمنس اسکی اوسط دیکھ کراسے مستقل بنیادوں پر ٹیم کے ساتھ رکھنے نہ رکھنےکا فیصلہ کیا جائے
اپنی رائے کا اظہار کریں