ملتان بنی سلطان
آخر کار پاکستان سپر لیگ 2021 کا بھی اختتام ہو گیا اور ملتان سلطانز کی ٹیم نے پاکستان زلمی کو 47 رنز سے شکست دے کر اپنے آپ کو پاکستان سپر لیگ 2021 کا سلطان بنوا دیا
پاکستان سپر لیگ کے دوسرے مرحلے کا جب ابو ظہبی میں آغاز ہوا تو اس وقت ملتان سلطانز کی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا ملتان سلطانز کی ٹیم کا پاکستان سپر لیگ 2021 کے اس سیزن میں سفر بہت جلد اختتام کو پہنچ جائے گا مگر پھر ایسا ہوا ملتان سلطانز کی ٹیم نے اپنے آپ کو ایک دفعہ پھر یکجا کیا اور اپنے ناقدین کو اپنی شاندار کارکردگی سے جواب دیا جس طرح سے ملتان سلطانز کی ٹیم نے پاکستان سپر لیگ کے چھٹے سیزن میں کم بیک کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے اگر محنت کی جائے اور ہار نا مانی جائے تو کچھ بھی ناممکن نہیں
محمد رضوان کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے محمد رضوان حقیقت میں وہ کھلاڑی ہیں جو اپنی ناکامی کا ذمہ دار کسی اور کو نہیں ٹھہراتے بلکہ ناکامی میں مزید محنت کرتے ہیں اور جب کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کامیابی کو اللہ کی طرف سے قرار دیتے ہیں کل تک محمد رضوان کی ٹی20 میچز میں شمولیت پر جو لوگ تنقید کرتے تھے آج وہ ہی لوگ محمد رضوان کے گن گانے پر مجبور ہیں جس طرح سے طرح سے محمد رضوان نے ملتان سلطانز کی ٹیم کی قیادت کی اور پاکستان سپر لیگ کا فائنل جتوایا اس کے بعد یقینا پاکستان سپر لیگ کی ایک فرنچائز یہ لازم سوچے گی کہ جب محمد رضوان ان کی ٹیم کا حصہ تھے تو کیا واقعی محمد رضوان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی تھی یا ان کو ضائع کیا گیا تھا؟ اتنے لیجنڈز ان کی ٹیم کے ساتھ تھے مگر پھر بھی وہ محمد رضوان کو اپنی ٹیم کے لیے گروم کیوں نا کر سکے؟پی ایس ایل کے اس سیزن میں فتح حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ محمد رضوان نے اپنے آپ کو ایک اچھا کپتان بھی ثابت کیا ہے اور جس انداز میں گیند بازی کے وقت محمد رضوان چوکا یا چھکا لگنے پر اپنے گیند بازوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے وہ یقینا ایک قابل تحسین عمل ہے اور اس سے محمد رضوان کے ذہنی طور پر ایک مظبوط کپتان ہونے کا اشارہ بھی ملتا ہے
ملتان سلطانز کی فتح کسی ایک کھلاڑی کی مرہون منت نہیں بلکہ ہر کھلاڑی نے ملتان سلطانز کی ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا چاہے وہ سہیل تنویر ہوں یا صہیب مقصود، عمران طاہر ہوں یا پھر شاہ نواز دہانی سب نے ملتان سلطانز کی فتح میں اہم کردار ادا کیا اور ملتان سلطانز کی ٹیم حقیقت میں ایک ٹیم ہو کر کھیلتی نظر آئی اگرچہ سابق کپتان اور سب کے دلوں کی دھڑکن سمجھے جانے والے بوم بوم شاہد آفریدی ابو ظہبی میں ملتان سلطانز کی ٹیم کا حصہ نہیں تھے مگر ملتان سلطانز کی ٹیم نے ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دی
ٹورنامنٹ کے بہترین بلے باز ، گیند باز اور وکٹ کیپر کا اعزاز بھی ملتان سلطانز کی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ملا جو اس چیز کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر آپ نے کامیاب ہونا ہے تو ہر کھلاڑی کو اپنے اپنے شعبے میں اپنا کردار نبھانا ہو گا پھر ہی کامیابی آپ کا مقدر بن سکتی ہے
دوسری جانب اگر پاکستان سپر لیگ 2021 کے فائنل میں جگہ بنانے والی دوسری ٹیم پشاور ذلمی کی بات کی جائے تو پشاور زلمی نے بھی اس سیزن میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا اور ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو فائنل تک پہنچایا مگر پشاور ذلمی اور ملتان سلطانز کے درمیان جو واضح فرق تھا وہ اس چیز کا تھا کہ پشاور ذلمی کی ٹیم فائنل میچ میں حضرت اللہ ززئی پر بہت زیادہ انحصار کر رہی تھی اور بدقسمتی سے فائنل میں وہ اچھا پرفارم نا کر سکے فیلڈنگ میں انہوں نے صہیب مقصود کا ایک آسان کیچ چھوڑا جس کے بعد صہیب مقصود نے ملتان سلطانز کی جانب سے ایک لمبی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوئے جب کہ بیٹنگ میں بھی حضرت اللہ ززئی کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے
پشاور زلمی کی جانب سے شعیب ملک نے اس پورے سیزن میں انتہائی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی فٹنس اور فارم کو ثابت کیا ہے میرے خیال میں اگر شعیب ملک کی حالیہ پرفارمنس اور فٹنس کو دیکھتے ہوئے انہیں ٹی 20 ولڈکپ میں شامل نہیں کیا جاتا تو ان کے ساتھ کافی زیادتی ہو گئی
اگرچہ پاکستان سپر لیگ میں پشاور ذلمی نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا ہے مگر دوسری طرف اگر ڈسپلن کی بات کی جائے تو پاکستان سپر لیگ کے اس سیزن میں پشاور ذلمی کے کھلاڑی اپنے ڈسپلن کی وجہ سے کافی خبروں کا حصہ رہے اور اسی وجہ سے فائنل سے پہلے نوجوان بیٹسمین حیدر علی اور تیز گیند باز عمید آصف کو ٹیم سے باہر ہونا پڑا حیدر علی کی پرفارمنس کچھ عرصہ سے اتنی اچھی نہیں تھی اور پھر اس طرح کی حرکت اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف تھی اور ایسا ہی ہوا حیدر علی جو دورہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز میں پاکستان کی ٹیم کا حصہ تھے ان کو اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور ان کی جگہ پاکستان سپر لیگ کے اس سیزن میں بہترین کارکردگی دکھانے والے صہیب مقصود کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا حیدر علی کو اس بات چیز کو بہت سنجیدگی سے لینا پڑے گا اور اپنے ڈسپلن میں بہتری لانا پڑے گی ورنہ ہم نے ایسے ایسے کھلاڑی بھی دیکھے ہیں جن ٹیلنٹ تو کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا مگر ڈسپلن نا ہونے کی وجہ سے وہ تاریخ کے اندھیروں میں ایسے کھوئے کہ ان کا نام بھی کسی کو یاد نہیں لگتا ایسے ہے پشاور ذلمی کی ٹیم کو آنے والے دنوں میں اپنے کھلاڑیوں کے ڈسپلن کو بہتر بنانے کے لئے کافی کام کرنا پڑے گا۔۔
اپنی رائے کا اظہار کریں