مصباح، یونس – آخری گیت بھی تم دونوں کو خود ہی گانا ہوگا
آپ میں اکثر نے ایک لفظ “سوان سونگ سن رکھا ہوگا مگر شاید چند ہی کو پتہ ہوکہ یہ سوان سانگ ہوتا کیا ہے اور اس کو سوان سانگ کہتے کیوں ہیں؟ تو جناب سوانگ سانگ کسی گلوکار کی زندگی کا گایا ہوا آخری گیت کو کہا جاتا ہے، والیم پہ والیم محض اس لیے بک جاتے ہیں کہ یہ فلاں گلوکار کی زندگی کا آخری والیم ہے
اب آپ سوچیں گے کہ یہ سوان سانگ کا لفظ اختراع کہاں سے اور کیسے ہوا؟ سوان ایک بگلے نما پرندے کا نام ہے جو اپنی زندگی کا ذیادہ تر حصہ ساحل سمندر پر گزار دیتا ہے اور اسی کو اپنا مقصد حیات سمجھتا ہے، کہتے ہیں کہ سوان جب سو سال کا ہوجاتا ہے تو ساحل سمندر پر تنکے اکٹھے کرکے ایک گھونسلہ نما مقتل تیار کرتا ہے اور اس پر بیٹھ کر ایسا سر لگاتا ہے کہ تنکوں میں آگ لگ جاتی ہے اور سوان اسی آگ میں جل کر راکھ ہوجاتا ہے
جی مجھے پتہ ہے کہ آپ پوچھیں گے کہ تابی میاں کہاں سوان ؟ کہاں مصباح الحق، کہاں یونس خان ؟
ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلا ٹیسٹ جیت کر مصباح الحق نے اسے ٹیم کی جانب سے تحفہ قرار دیا اور کہا کہ یہ جیت بھی مجھے اپنی زندگی میں حسین یاد کی طرح مچلاتی رہے گی
مگر شاید مصباح الحق کا مچلنا قبل از وقت تھا کہ کیوں ان کے علم میں نہیں تھا کہ دوسرے ٹیسٹ میں کیا ہونے جارہا ہے، پھر آپ سب نے دیکھا کہ دوسرے ٹیسٹ میں شطرنج جیسی ایسی ایسی چالیں نظر آئیں کہ شاید اتنے پلٹے کسی اور ٹیسٹ میں دیکھنے کو ملے ہوں جتنے بارباڈوس ٹیسٹ میں دیکھنے کو ملے، بنا گھاس کی پچ پر محسوس ہو رہا تھا کہ فاسٹ باولرز یہاں کچھ نہیں کر پائیں گے، بلے بازوں کی موج ہوگی اور سپنرز کو چند وکٹیں نصیب ہونگیں اور ویسٹ انڈیز کی پہلی اننگ کا سکور دیکھ اندازہ ہونے لگا کہ شاید یہ میچ ڈرا کی جانب جائے گا، مگر کرکٹ میں پاکستان کی عزت و تکریم کے تمام ناموں جنمیں یونس خان، اظہر علی، یاسر شاہ اور مصباح الحق نے اپنا حق ادا کردیا جبکہ مستقبل کے یونس خانوں اور مصباح الحقوں نے وہی کیا کہ جس کی ان سے توقع رہی ہے اور وہ اس پر پورا اترتے رہے ہیں، ویسٹ انڈیز کی آخری اننگ کی یاسر شاہ نے ایسی حجامت بنائی کہ پاکستان جیتنے کے لیے محض ایک سو اٹھاسی رنز کا ہدف ملا، پویلین میں بیٹھے مصباح الحق کو کیا اندازہ تھا کہ کرکٹ میں اس وقت کی کمزور ترین ٹیم کے فاسٹ باولر ان کے شاہینوں کے لیے کسی عربی سے کم ثابت نہیں ہونگے اور ان کا چن چن کر ایسا شکار کریں گے کہ تارِِیخ یاد رکھے گی، پہلی اننگ میں نوبالز کا انبار لگانے والے شینن گبریئل محض ایک نو بال کرتے ہوئے مستقبل کے پانچ یونس خانوں اور مصباح الحقوں کو پویلین کی راہ دکھا دے گا، خیر اس بات سے تو آپ بھی رضا مند ہونگے کہ ہمارے شاہینوں کی طرح قوم بھی یہی آس لگائے بیٹھی ہوتی ہے کہ مصباح الحق اور یونس خان ہیں نا،،،،،،،، یعنی یہ دونوں ناکام تو سمجھو کایا پلٹ
جی ہاں مصباح الیون اکاسی جسی انگلش میں ایٹی ون کہتے ہیں پر آوٹ ہوگئی یا یوں کہہ لیجے کہ اس دن ہماری ٹیم کو ناشتے میں ایٹی ون کی گولیاں کھلا دی گئی ہوں اور ویسٹ انڈیز جیسی پھٹیچر ٹیم کے ہاتھوں دنیائے ٹیسٹ کرکٹ کی ممتاز ٹیم کو بڑے مارجن سے شکست ہوگئی اور مصباح الحق کا مچلنا جلنے میں تبدیل ہوگیا
خیر جلنا کڑھنا، کیے کرائے پہ پانی پھرنا مصباح الحق اور یونس خان درجنوں پر دیکھ چکے ہیں اور ان دونوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ ان کی کشتی میں بیٹھے اکثر ایسے ہیں جنکو تیرنا بھی نہیں آتا لہذا کشتی کو دیکھ بھال کے اس پار لگانا ہوگا، کم ہی دیکھنے کو ملا کہ ان دونوں نے بیٹنگ میں کچھ نہ کیا تو کسی اور نے آکر چپو سنبھال لیے ہوں، اکثر نے اگر کچھ کیا بھی تو اس وقت جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اس کے شانہ بشانہ کھڑا تھا، مجھے پتہ ہے آپ کے ذہن میں آرہا ہے کہ آفتاب صاحب ویسٹ انڈیز کے خلاف ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میں یہ دونوں نہیں تھے تو بھی پاکستان نے فتح حاصل کی تو اس بحث میں چیمپیئنز ٹرافی تک نہیں پڑتے اور اپنے آج کے عنوان سے نہیں ہٹتے
دس مئی کو ڈومینیکا میں وہ میدان لگنے جارہا ہے جب کرکٹ کی خوبصورتی اور پیچ و خم کو سمجھنے والے بجھے دل کے ساتھ ٹی وی آن کریں گے ، بجھے دل کے ساتھ اس لیے کہ یہ مصباح الحق اور یونس خان کا بین الاقوامی کرکٹ میں آخری میچ ہوگا
یہ ہے وہ گراونڈ کہ دو دفعہ ننانوے رنز پر آوٹ ہوکر عالمی ریکارڈ بنانے والے مصباح الحق آخری بار ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے ٹاس کریں گے، کرکٹ سمجھنے والوں کو اس کیفیت کا خوب اندازہ ہے جو اس وقت مصباح الحق کی ہوگی، شاید مجھے بھی وہ الفاظ نہیں مل رہے کہ آپ کے لیے وہ سماں باندھ سکوں جب مصباح الحق ٹاس کررہے ہونگے، ہاں اگر چند آنسووں کی کسک کو آپ سمجھتے ہیں تو وہ اس وقت میری آنکھوں میں ضرور ہیں
کیا وہ منظر ہوگا جب یہ دو عہد ساز کھلاڑی اپنی ٹیم سے ٹیسٹ شروع ہونے والی رات کو ٹیم میٹنگ میں اپنی ساتھیوں سے یہ کہیں گے کہ ہم کو ذیادہ خوشی ہوگی اگر آپ اپنی کارکردگی سے یہ یادگار ٹیسٹ میچ جیت کر دیں، ان دونوں کی خواہش ہوگی کہ تمام کھلاڑی نیت صاف رکھتے ہوئے ان کو ایسی سلامی دے جائیں کہ تمام عمر ان کے سینے فخر سے تنے رہیں،
پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جیسے ہمارے مستقبل کے یونس خان اور مصباح الحق آوٹ ہوئے ، اس کا جتنا دباو یونس خان اور کپتان پر ہوگا اور کسی پہ نہیں ہوگا، پچ کی جانب جاتے ہوئے کیا کیا خیالات ان اونچے قد والے کھلاڑیوں کے ذہن میں ابھر رہے ہوں گے کہ کاش وہ آج سنچری اور وہ بھی ایسی بنا کر واپس لوٹیں کہ جو فتح پر ختم ہو
لکھنے کو ابھی بہت ذیادہ دل کر رہا ہے مگر آج کے قاری یعنی آپکے مزاج کو بھی ذہن میں رکھ کر لکھنا ہوتا ہے کیونکہ آپ کے جلد بور ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے
تو مصباح الحق اور یونس خان آپ پاکستان کرکٹ کے وہ سوان ہو کہ جنکی فتح کے سر پاکستانی شائقین کرکٹ دجنوں مرتبہ سن چکے اور اس سے اتنا محظوط ہوئے کہ آپ کے تالیاں تو بج سکتی ہیں انگلیاں نہیں اٹھ سکتی، اس سوان ٹیسٹ میں آپ دونوں کو اپنی زندگی کی حسین اننگز سے تنکے چننے ہونگے اور پھر ڈومینیکا کے گراونڈ پر خوبصورت بیٹنگ کے وہ سر بکھیرنے ہونگے کہ جس سے پاکستان بھی پہلی بار ویسٹ انڈیز کو اس کے گھر شکست دینے کا اعزاز حاصل کرلے اور آپ دونوں بھی امر ہوجاو، آپ دونوں 3 جون کے بعد کبھی بین الاقوامی کرکٹ میں نظر نہیں آو گے مگر جاتے جاتے وہ سوان اننگز کھیل جاو کہ دنیائے کرکٹ اس کے سحر میں مدتوں مدہوش رہے
مصباح الحق ، یونس خان میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ جنت کے لیے خود مرنا پڑتا ہے
تو شیرو یقین رکھو فتح کا یادگار تحفہ تم دونوں نے مل کر اپنے لیے سمیٹنا ہے، ہم سب بھی یہی چاہتے ہیں کہ آپ دونوں ونڈسر پارک ڈومینیکا کچھ ایسا کر جاو کہ جو کرکٹ کے نصابوں میں پڑھایا جائے اور تحریروں میں مثال کے طور پر پیش کیا جائے
میرے لیے یہ اعزاز رہے گا کہ میں جب بھی لکھا کروں گا تو سینہ تان کر لکھا کروں گا کہ میں اس عہد کا چشم دید ہوں کہ جس میں یونس خان اور مصباح الحق کھیلا کرتے تھے
اپنی رائے کا اظہار کریں