More share buttons
اپنے دوستوں کے ساتھ اشتراک کریں

پیغام بھیجیں
icon تابی لیکس
Latest news
ڈسٹرکٹ پولیس لائنز/قومی ہیروز بنے لاہور پولیس کے مہمانِ خصوصی ورلڈ سنوکر چیمپئین 2024 محمد آصف'سابق ہاکی اولمپئین شہباز سنئیر کی پولیس لائنز قلعہ گجر سنگھ آمد ایس پی ہیڈ کوارٹر احمد زنیر چیمہ نے قومی ہیروز کا استقبال کیا پھولوں کے گلدستے پیش کئے ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر نعیم یاسین۔ریزرو انسپکٹر لائن بابراشرف۔انچارج سپورٹس انسپکٹر مسعودالرحمن بھی موجود قومی ہیروز کا پرتپاک استقبال ریڈ کارپٹ پر استقبال کیا گیا'پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں قومی ہیرو محمدآصف نے حال ہی میں 2024 ورلڈ سنوکر چیمپئین شپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا 03 بار ہاکی ورلڈ چیمپئن کا ٹائٹل جیتنے والے سابق اولمپئین شہباز سنئیر بھی مہمان خصوصی قومی ہیرو ورلڈ چیمپئین سنوکر محمد آصف نے پولیس لائن میں سنوکرکے نئے سنوکر کلب کا افتتاح کیا پاکستان کا نام روشن کرنے والے کھلاڑی ہمارا فخر ہیں۔ایس پی احمد زنیر چیمہ سنوکر کے کھیل کو فروغ دینے کیلئے پنجاب پولیس کا بہت اچھا اقدام ہے۔ورلڈ چیمپئین محمد آصف کھیلوں کے فروغ کیلئے لاہور پولیس کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔ہاکی اولمپئین شہباز سنئیر ایس پی ہیڈ کوارٹر احمد زنیر چیمہ نے ورلڈ سنوکر چیمپئین محمد آصف۔ہاکی اولمپئین شہباز سنئیر کی آمد پر انکا شکریہ ادا کیا قومی ہیروز نے لاہور پولیس کی محبتوں اور پرتپاک استقبال کا شکریہ ادا کیا ملک و قوم کی سربلندی کیلئے پاکستان کا جھنڈا پوری دنیا میں لہراتے رہیں گے۔قومی ہیروز سنوکر ٹورنامنٹس۔سنوکر کے نئے ٹیلنٹ کو نکھارنے میں لاہور پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔سنوکر ورلڈ چیمپئین محمد آصف ایس پی ہیڈ کوارٹر احمد زنیر چیمہ نے قومی ہیروز کو اعزازی شیلڈز پیش کیں کھیلوں کے فروغ کیلئے ہر ممکن اقدام لیں گے۔ایس پی ہیڈ کوارٹر احمد زنیر چیمہ سابق کپتان اظہر علی پاکستان کرکٹ بورڈ کے یوتھ ڈیولپمنٹ کے سربراہ۔ یہ رول اظہرعلی کی موجودہ ذمہ داریوں کی توسیع ہو گی، اسوقت وہ قومی سلیکشن کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ مستقبل کے اسٹارز کی تشکیل میں گراس روٹ کرکٹ کی ترقی کا اہم کردار ہے۔ اظہرعلی اظہرعلی کا تجربہ اور وژن پاکستان میں نوجوانوں کی کرکٹ کی ترقی اور کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ پی سی بی بلاوائیو قومی کرکٹ سکواڈ کل مقامی وقت کے مطابق 1:30 سے 4:30 تک پریکٹس کرے گا پاکستانی ٹیم کوئینز سپورٹس کلب میں پریکٹس کرے گی پاکستان اور زمبابوے کے درمیان پہلا ون ڈے میچ 24 نومبر کو ہوگا ⁩ٹکرز - سمیر احمد آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے ٹورنامنٹ ڈائریکٹر مقرر لاہور ۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر سمیر احمد سید آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے ٹورنامنٹ ڈائریکٹر مقرر۔ سمیراحمد ایک غیر معمولی منظم پروفیشنل ہیں جن میں انتظامی مہارت کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے لیے غیر متزلزل جذبہ بھی موجود ہے۔ پی سی بی چیئرمین محسن نقوی۔ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 پاکستان کی عالمی معیار کی کرکٹ کی میزبانی کی صلاحیت کو ظاہر کرے گی۔ محسن نقوی۔ دنیا بھر سے کھلاڑیوں اور شائقین کے لیے یہ ایک خوبصورت تجربہ ہوگا کہ وہ کھیل کے لیے اس ملک کے جذبے اور مشہور مہمان نوازی کو دیکھ سکیں گے۔ محسن نقوی ۔ میں اس ٹورنامنٹ کے لئے یہ اہم ذمہ داری سنبھالنے کے لئے ُپرجوش ہوں اور اسے اعزاز سمجھتا ہوں ۔ سمیر احمد سید۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے پچھلے ایڈیشنز میں جو معیار مقرر کیے گئے تھے ان معیار کو مزید بہتر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ سمیر احمد سید۔ زمبابوے قومی کرکٹ سکوارڈ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز کے لیے بلاوائیو پہنچ گیا پاکستان اور زمبابوے کے درمیان تین تین میچز پر مشتمل ون ڈے اور ٹی ٹونٹی سیریز کھیلی جائیں گی پاکستان کرکٹ ٹیم کل آرام کرے گی پاکستان اور زمبابوے کے درمیان پہلا ون ڈے میچ 24 نومبر کو ہوگا ٹکرز قائداعظم ٹرافی ۔ --------------------------------------------------------------- لاہور ۔ قائداعظم ٹرافی میں امام الحق ۔ بسم اللہ خان اور اویس ظفر کی سنچریاں ۔ امام الحق نے اس ٹورنامنٹ میں تیسری سنچری اسکور کی ہے۔ لاہور بلوز کے محمد عباس کی عمدہ کارکردگی کا سلسلہ جاری ، فاٹا کے خلاف 39 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کیں۔ لاڑکانہ کے مشتاق کلہوڑو کی لاہور وائٹس کے خلاف 103 رنز کے عوض 6 وکٹیں۔ بہاولپور کے عمران رندھاوا کی کراچی وائٹس کے خلاف 28 رنز دے کر 6 وکٹیں۔ فاٹا کے آفاق آفریدی کی لاہور بلوز کے خلاف 56 رنز دے کر6 وکٹیں پاکستان انڈر 19 نے افغانستان انڈر 19 کو تیرہ رنز سے شکست دے دی دبئی، 20 نومبر 2024: پاکستان انڈر 19 نے افغانستان کی انڈر 19 ٹیم کو دلچسپ مقابلے کے بعد 13 رنز سے شکست دے دی۔ پاکستان کی ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا ۔ پاکستان کی ٹیم نے 244 رنز بنائے ، اوپنرز نے شاندار کھیل پیش کیا ، شاہ زیب نے 78 اور عثمان خان نے 77 رنز کی اننگز کھیلی۔ افغانستان کی ٹیم مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی اور پوری ٹیم 46.4 اوورز میں 231 رنز بنا سکی ۔ پاکستان کی طرف سے علی رضا نے چار وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کا آئی سی سی اکیڈمی میں ٹریننگ سیشن۔ کھلاڑیوں نے کوچز کی نگرانی میں تین گھنٹے بیٹنگ، بولنگ اور فلیڈنگ سیشنز میں حصہ لیا۔ پاکستان انڈر 19 کرکٹ ٹیم کل مقامی وقت کے مطابق صبح 11 بجے سے دوپہر دو بجے تک ٹریننگ سیشن میں حصہ لے گی۔ پاکستان انڈر 19 ٹیم تین ملکی ٹورنامنٹ میں اپنا تیسرا میچ افغانستان کے خلاف 20 نومبر کو کھیلے گی۔ پاکستان ٹیم نے ٹورنامنٹ میں میزبان یو اے ای کو دس وکٹوں سے شکست دیدی جبکہ اسے افغانستان سے اپنے دوسرے میچ میں شکست ہوئی تھی۔ اہم ترین قذافی سٹیڈیم اپ گریڈیشن پراجیکٹ پر کام تیز مجموعی طور پر 60 فیصد منصوبہ مکمل۔ فلورز کا کام آخری مرحلے میں نئی نشتوں کے سٹرکچر کی تعمیر بھی شروع چئیرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کا قذافی سٹیڈیم کا تفصیلی دورہ چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے پراجیکٹ پر پیش رفت کا جائزہ لیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے مین بلڈنگ۔ انکلوژرز میں جاری تعمیراتی کاموں کا معائنہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے نئی لائٹس کی تنصیب کے کام کا معائنہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے فلورز پر جاری تعمیراتی کاموں کا مشاہدہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے تیار کردہ کمروں کا معائنہ کیا چئیرمین پی سی بی محسن نقوی کا منصوبے کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار تعمیراتی کاموں میں اعلی معیار کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔ محسن نقوی چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ سے قبل پراجیکٹ کو ہر قیمت پر مکمل کیا جائے گا۔ محسن نقوی پوری ٹیم محنت سے کام کر رہی ہے۔ پراجیکٹ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ محسن نقوی منصوبے پر پیش رفت کی خود نگرانی کر رہا ہوں۔ محسن نقوی چئیرمین پی سی بی محسن نقوی نے منصوبے کی بروقت تکمیل کے لیے متعلقہ حکام کو ہدایات دیں ایف ڈبلیو او کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے منصوبے پر ہونے والی پیش رفت کے بارے میں بریفنگ دی ایڈوائزر عامر میر۔ بلال افضل۔ چیف آپریٹنگ آفیسر سید سمیر احمد۔ ڈائریکٹرز انفراسٹرکچر۔ ڈومیسٹک کرکٹ۔ نیسپاک۔ ایف ڈبلیو او کے حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ٹکرز قائداعظم ٹرافی ۔ ---------------- لاہور ۔ قائداعظم ٹرافی میں کراچی بلوز نے ڈیرہ مراد جمالی کو اننگز اور 56 رنز سے ہرادیا۔ کراچی بلوز کے محمد حمزہ کی میچ میں 10 وکٹیں۔ اسلام آباد نے حیدرآباد کو اننگز اور 2 رنز سے شکست دے دی۔ محمد موسی کی میچ میں12 وکٹیں لاہور بلوز کے محمد سلیم اور عمر صدیق کی سیالکوٹ کے خلاف ڈبل سنچری پارٹنرشپ۔

سب کچھ مصباح، آخر کیوں ؟

سب کچھ مصباح، آخر کیوں ؟
آفتاب تابی
آفتاب تابی

بدھ کی شام پاکستان اور سری لنکا کے مابین لاہور میں ہونے والے تیسرے ٹی 20 کا نتیجہ بھی پہلے دونوں میچز کی طرح ہی رہا اور سری لنکا نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو اس میچ میں ہرا کر پاکستانی شائقین کرکٹ کے دلوں کے ساتھ ساتھ ٹی 20 سریز بھی تین صفر سے جیت لی اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو وائٹ واش سے دوچار ہونا پڑا ویسے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کرکٹ کا کھیل بھی عجیب کھیل ہے جس میں منہ کالا کروانے کو وائٹ واش کہا جاتا ہے بظاہر ہلکی سمجھی جانے والی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم ٹی 20 رینکنگ میں پہلے نمبر پر موجود پاکستان کی کرکٹ ٹیم پر بھاری ثابت ہوئی
سری لنکا کی نسبتا کم تجربہ رکھنے والی ٹیم کے ہاتھوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی شکست کے بعد بہت سے شائقین کرکٹ نے نئے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا جو میرے خیال میں بہت ناانصافی ہے کیونکہ تنقید اس شخص پر کی جانی چاہیے جس نے مصباح الحق کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا ہے مصباح الحق پر تنقید تب جائز ہے جب ہمیں معلوم ہو کہ وہ اس کام کا اہل ہے جب ہمیں معلوم ہے وہ ان سب کاموں کو ایک ساتھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا (خاص کر چیف سلیکٹر کے عہدے کے لیے ) اور آج تک بحثیت کپتان کچھ خاص کھلاڑیوں کو نوازنے میں مگن رہا ہے تو پھر تنقید کیسی ؟ ویسے بھی اکیلا مصباح الحق کیا کیا کر لے گا بحیثیت کپتان اور کھلاڑی ہمیشہ مصباح الحق اکیلا وکٹ پر موجود رہتا اور کوئی اس کا ساتھ نہیں دیتا تھا اور شاید پاکستان کرکٹ بورڈ کے امپورٹڈ ایم ڈی کو یہ بات اتنی اچھی لگی اورانہوں نے سوچا جب ایک بندہ بحیثیت کھلاڑی اکیلے اتنا سب کچھ کر سکتا ہے تو کیوں دس لوگوں کو نوکری پر رکھ کر جھنجٹ پالنا اکیلے مصباح الحق ہی کو پاکستان کی کرکٹ کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیتے ہیں بندہ پڑھا لکھا بھی ہے ویسے بھی تنقید برداشت کرنے کا ماہر ہے اگر کوئی تنقید کرے گا تو خود سنبھال لے گا – مجال ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے خلاف ایک لفظ بھی کھبی بولا ہو جب اتنی ساری قابلیت ایک بندے میں موجود ہو تو پھر اس سے بہتر انتخاب کوئی نہیں ہو سکتا مگر شاید مصباح الحق کو منتخب کرنے والے اس بات کو بھول گئے تھے کہ یہ پاکستان کی کرکٹ ہے کوئی جنرل اسٹور نہیں جس میں ایک ہی بندے سے ہر طرح کا کام کروایا جا سکتا ہے دوسری طرف اگر ایک بندے کو پاکستان کی کرکٹ کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا جائے اور ساتھ مہینے کا تیس لاکھ( کم و بیش ) پاکستانی روپیہ تنخواہ بھی ملے تو کیا وہ انکار کرے گا ؟ لہذا مصباح الحق پر تنقید کیسی اس نے تو وہ ہی کیا جو صاحب بہادر نے کہا اور اب وہی کرے گا جو صاحب بہادر چاہیں گے اور صاحب بہادر تو صاحب بہادر ہیں ان سے کبھی کوئی پوچھ سکتا ہے کیا کہ اس بندے کو کس بنیاد پر لائے؟
اگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی اس سریز میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور ان دنوں پاکستان کی ٹیم کے سیاہ و سفید کے مالک مصباح الحق کو الٹا لینے کے دینے پڑ گئے ہیں جس انداز میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو پاکستان کرکٹ کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اگر کوئی بھی شخص ہمارے پاس نوکری کے لیے آتا ہے تو ہم سب سے پہلے اس کا تجربہ دیکھتے ہیں اور اس تجربے کی بنیاد پر اس کا انتخاب کرتے ہیں اگر اس نوکری کے لیے اسی شخص کا انتخاب ہماری ضد ہو تو کچھ عرصہ ہم اس کو کسی سینئر یا تجربہ رکھنے والے شخص کے ساتھ کام کرنے کو کہتے ہیں اور جب شخص مطلوبہ تجربہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کو وہ ذمہ داری دی جاتی ہے مگر بغیر تجربہ حاصل کیے اس کو کسی بھی کمپنی کے سیاہ و سفید کا مالک نہیں بنایا جاتا جبکہ میرے نزدیک مصباح الحق جیسا کھلاڑی جس نے کسی انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم کی تو کیا کسی کلب کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ بھی نا کی ہو  وہ ہیڈ کوچ کی ذمہ داری ہو ، بیٹنگ کوچ کے لیے تقرری ہو ، یا پھر چیف سلیکٹر بنایا جانا وہ کسی بھی لحاظ سے کسی بھی تقرری کے لیے مناسب انتخاب نہیں تھے اور پھر جس بھونڈے انداز میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس تقرری کا دفاع کیا اس سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنا مذاق خود بنوایا
مصباح الحق کا پہلا امتحان سری لنکا کے خلاف پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی تقریبا دس سال بعد پاکستان میں ہونے والی سریز تھی اور مصباح الحق نے جس انداز میں ٹیم کا انتخاب کیا اس سے ایسے لگ رہا تھا جیسے بہت سے کھلاڑیوں کو سری لنکا کی کمزور ٹیم کے خلاف اپنا کیرئیر بچانے کا موقع دیا گیا ہے تا کہ وہ سری لنکا کی کمزور ٹیم کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد ایک بار پھر ٹیم میں اپنی جگہ پکی کر سکیں اس میں سب سے حیران کن بات عمر اکمل اور احمد شہزاد کی ٹیم میں شمولیت تھی کیونکہ بحیثیت کپتان مصباح الحق نے ہمیشہ ان دونوں کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے سے گریز کیا مگر جیسے ہی ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بنے سب سے پہلے ان دونوں کھلاڑیوں کو ٹیم میں منتخب کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے پاکستان کی کرکٹ آگے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہی ہے
ولڈکپ کے اختتام پذیر ہوتے ہی بہت سے دوسرے ممالک کی کرکٹ ٹیموں میں ان کے سنیئر کھلاڑیوں کو آرام دے کر نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا جا رہا ہے تا کہ مستبقل کے لیے ان پاس ایسے کھلاڑی تیار ہوسکیں جو ان ٹیموں کے لیے لمبے عرصے تک کھیل سکیں مگر نا جانے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ان دنوں سیاہ و سفید کے مالک مصباح الحق کے دماغ میں کیا بات آئی انہوں نے بجائے ان کھلاڑیوں کو موقع دینے کے جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ان کھلاڑیوں کو موقع فراہم کیا جو مسلسل ناکامی کا سبب بن رہے ہیں ۔ مصباح الحق نے آصف علی جیسے کھلاڑی کو کارکردگی کم اور یاری دوستی کی بنیاد پر زیادہ ٹیم میں شامل کیا۔ سری لنکا کی کمزور ٹیم کے خلاف سرفراز احمد اور شاداب خان کو آرام کی بجائے دوبارہ موقع دیا گیا تا کہ وہ اس کم تجربہ کار ٹیم کے خلاف کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد اپنے ناقدین کا منہ بند کر سکیں مگر ایسا نا ہو سکا اور بجائے ان کی کارکردگی اچھی ہونے کے مزید خراب رہی۔
میرے خیال میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ دونوں عہدے دے کر بہت بڑا رسک لیا ہے جو آنے والے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے مہنگا ثابت ہو گا چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کی ذمہ داری ایک شخص کے لیے نبھانا بہت مشکل ہے ایک اچھا چیف سلیکٹر کھلاڑیوں کی کارکردگی کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیتاہےاس کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کے میچز کو خود جا کر غور سے دیکھتا ہے کیونکہ کئی دفعہ جو کارکردگی کاغذوں میں نظر آتی ہے اس میں اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے مثال کے طور پر ایک کھلاڑی بہت اچھی بالنگ کا مظاہرہ کرتا ہے مگر اس کی گیند پر کیچز چھوٹنے کی وجہ سے وہ کم وکٹیں لیتا ہے تو اسکور کارڈ میں اس بات کا ذکر نہیں ہو گا کہ اس کی گیندوں پر اتنے کیچڑ بھی چھوتے جبکہ دوسری طرف ایک کھلاڑی کے بیٹنگ کے دوران چار سے پانچ کیچ چھوڑے جاتے ہیں اور وہ کھلاڑی ستر یا اسی سکور کر لیتا ہے تو اسکور کارڈ میں اس بات کا ذکر نہیں ہو گا کہ اس کے اتنے کیچ چھوڑے  گئے جبکہ دوسری طرف ہیڈ کوچ کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں جا کر کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا بہت مشکل ہے اور اگر اس کے ساتھ ساتھ جب سلیکشن کمیٹی میں سوائے چیف سلیکٹر کے کوئی خاص ممبر شامل نا ہو تو میرے خیال میں مستقبل میں ٹیم کا انتخاب صرف اور صرف کاغذی کارگردگی پر ہی ہو گا کوچ اور کھلاڑیوں کے درمیان ایک استاد شاگرد کا رشتہ ہوتا ہے جس سے اس کے شاگرد اپنے مشکلات کا حل پوچھتے ہیں مگر وہ ہی کوچ اگر چیف سلیکٹر بھی ہو تو کیا کھلاڑی اس سے اپنی مشکلات کا ذکر کر سکیں گے یہ ایک بہت سوالیہ نشان ہے میرا پاکستان کرکٹ بورڈ کے باہر سے امپورٹڈ کیے گئے ایم ڈی کو مشورہ ہے کہ ابھی بھی وقت ہے پاکستان کی کرکٹ پر تھوڑا رحم فرمائیں اور کوچ اور چیف سلیکٹر دو الگ الگ بندوں کو بنایا جائے ویسے بھی ایم ڈی صاحب تو کچھ عرصے بعد واپس اپنے وطن لوٹ جائیں گے مگر اس  وقت تک پاکستان کی کرکٹ کا بیڑہ غرق ہو چکا ہو گا۔ کیونکہ سری لنکا کے لگائے چھوٹے چھوٹے زخم آسٹریلیا بہت بڑے کر دے گی اور مصباح الحق پر گولہ باری عروج پر پہنچ جائے گی

adds

اپنی رائے کا اظہار کریں