سب کچھ مصباح، آخر کیوں ؟
بدھ کی شام پاکستان اور سری لنکا کے مابین لاہور میں ہونے والے تیسرے ٹی 20 کا نتیجہ بھی پہلے دونوں میچز کی طرح ہی رہا اور سری لنکا نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو اس میچ میں ہرا کر پاکستانی شائقین کرکٹ کے دلوں کے ساتھ ساتھ ٹی 20 سریز بھی تین صفر سے جیت لی اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو وائٹ واش سے دوچار ہونا پڑا ویسے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کرکٹ کا کھیل بھی عجیب کھیل ہے جس میں منہ کالا کروانے کو وائٹ واش کہا جاتا ہے بظاہر ہلکی سمجھی جانے والی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم ٹی 20 رینکنگ میں پہلے نمبر پر موجود پاکستان کی کرکٹ ٹیم پر بھاری ثابت ہوئی
سری لنکا کی نسبتا کم تجربہ رکھنے والی ٹیم کے ہاتھوں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی شکست کے بعد بہت سے شائقین کرکٹ نے نئے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کو تنقید کا نشانہ بنایا جو میرے خیال میں بہت ناانصافی ہے کیونکہ تنقید اس شخص پر کی جانی چاہیے جس نے مصباح الحق کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا ہے مصباح الحق پر تنقید تب جائز ہے جب ہمیں معلوم ہو کہ وہ اس کام کا اہل ہے جب ہمیں معلوم ہے وہ ان سب کاموں کو ایک ساتھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا (خاص کر چیف سلیکٹر کے عہدے کے لیے ) اور آج تک بحثیت کپتان کچھ خاص کھلاڑیوں کو نوازنے میں مگن رہا ہے تو پھر تنقید کیسی ؟ ویسے بھی اکیلا مصباح الحق کیا کیا کر لے گا بحیثیت کپتان اور کھلاڑی ہمیشہ مصباح الحق اکیلا وکٹ پر موجود رہتا اور کوئی اس کا ساتھ نہیں دیتا تھا اور شاید پاکستان کرکٹ بورڈ کے امپورٹڈ ایم ڈی کو یہ بات اتنی اچھی لگی اورانہوں نے سوچا جب ایک بندہ بحیثیت کھلاڑی اکیلے اتنا سب کچھ کر سکتا ہے تو کیوں دس لوگوں کو نوکری پر رکھ کر جھنجٹ پالنا اکیلے مصباح الحق ہی کو پاکستان کی کرکٹ کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیتے ہیں بندہ پڑھا لکھا بھی ہے ویسے بھی تنقید برداشت کرنے کا ماہر ہے اگر کوئی تنقید کرے گا تو خود سنبھال لے گا – مجال ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے خلاف ایک لفظ بھی کھبی بولا ہو جب اتنی ساری قابلیت ایک بندے میں موجود ہو تو پھر اس سے بہتر انتخاب کوئی نہیں ہو سکتا مگر شاید مصباح الحق کو منتخب کرنے والے اس بات کو بھول گئے تھے کہ یہ پاکستان کی کرکٹ ہے کوئی جنرل اسٹور نہیں جس میں ایک ہی بندے سے ہر طرح کا کام کروایا جا سکتا ہے دوسری طرف اگر ایک بندے کو پاکستان کی کرکٹ کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا جائے اور ساتھ مہینے کا تیس لاکھ( کم و بیش ) پاکستانی روپیہ تنخواہ بھی ملے تو کیا وہ انکار کرے گا ؟ لہذا مصباح الحق پر تنقید کیسی اس نے تو وہ ہی کیا جو صاحب بہادر نے کہا اور اب وہی کرے گا جو صاحب بہادر چاہیں گے اور صاحب بہادر تو صاحب بہادر ہیں ان سے کبھی کوئی پوچھ سکتا ہے کیا کہ اس بندے کو کس بنیاد پر لائے؟
اگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی اس سریز میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور ان دنوں پاکستان کی ٹیم کے سیاہ و سفید کے مالک مصباح الحق کو الٹا لینے کے دینے پڑ گئے ہیں جس انداز میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو پاکستان کرکٹ کے سیاہ و سفید کا مالک بنایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اگر کوئی بھی شخص ہمارے پاس نوکری کے لیے آتا ہے تو ہم سب سے پہلے اس کا تجربہ دیکھتے ہیں اور اس تجربے کی بنیاد پر اس کا انتخاب کرتے ہیں اگر اس نوکری کے لیے اسی شخص کا انتخاب ہماری ضد ہو تو کچھ عرصہ ہم اس کو کسی سینئر یا تجربہ رکھنے والے شخص کے ساتھ کام کرنے کو کہتے ہیں اور جب شخص مطلوبہ تجربہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کو وہ ذمہ داری دی جاتی ہے مگر بغیر تجربہ حاصل کیے اس کو کسی بھی کمپنی کے سیاہ و سفید کا مالک نہیں بنایا جاتا جبکہ میرے نزدیک مصباح الحق جیسا کھلاڑی جس نے کسی انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم کی تو کیا کسی کلب کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ بھی نا کی ہو وہ ہیڈ کوچ کی ذمہ داری ہو ، بیٹنگ کوچ کے لیے تقرری ہو ، یا پھر چیف سلیکٹر بنایا جانا وہ کسی بھی لحاظ سے کسی بھی تقرری کے لیے مناسب انتخاب نہیں تھے اور پھر جس بھونڈے انداز میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس تقرری کا دفاع کیا اس سے پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنا مذاق خود بنوایا
مصباح الحق کا پہلا امتحان سری لنکا کے خلاف پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی تقریبا دس سال بعد پاکستان میں ہونے والی سریز تھی اور مصباح الحق نے جس انداز میں ٹیم کا انتخاب کیا اس سے ایسے لگ رہا تھا جیسے بہت سے کھلاڑیوں کو سری لنکا کی کمزور ٹیم کے خلاف اپنا کیرئیر بچانے کا موقع دیا گیا ہے تا کہ وہ سری لنکا کی کمزور ٹیم کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد ایک بار پھر ٹیم میں اپنی جگہ پکی کر سکیں اس میں سب سے حیران کن بات عمر اکمل اور احمد شہزاد کی ٹیم میں شمولیت تھی کیونکہ بحیثیت کپتان مصباح الحق نے ہمیشہ ان دونوں کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے سے گریز کیا مگر جیسے ہی ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر بنے سب سے پہلے ان دونوں کھلاڑیوں کو ٹیم میں منتخب کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے پاکستان کی کرکٹ آگے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہی ہے
ولڈکپ کے اختتام پذیر ہوتے ہی بہت سے دوسرے ممالک کی کرکٹ ٹیموں میں ان کے سنیئر کھلاڑیوں کو آرام دے کر نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا جا رہا ہے تا کہ مستبقل کے لیے ان پاس ایسے کھلاڑی تیار ہوسکیں جو ان ٹیموں کے لیے لمبے عرصے تک کھیل سکیں مگر نا جانے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ان دنوں سیاہ و سفید کے مالک مصباح الحق کے دماغ میں کیا بات آئی انہوں نے بجائے ان کھلاڑیوں کو موقع دینے کے جنہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ان کھلاڑیوں کو موقع فراہم کیا جو مسلسل ناکامی کا سبب بن رہے ہیں ۔ مصباح الحق نے آصف علی جیسے کھلاڑی کو کارکردگی کم اور یاری دوستی کی بنیاد پر زیادہ ٹیم میں شامل کیا۔ سری لنکا کی کمزور ٹیم کے خلاف سرفراز احمد اور شاداب خان کو آرام کی بجائے دوبارہ موقع دیا گیا تا کہ وہ اس کم تجربہ کار ٹیم کے خلاف کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد اپنے ناقدین کا منہ بند کر سکیں مگر ایسا نا ہو سکا اور بجائے ان کی کارکردگی اچھی ہونے کے مزید خراب رہی۔
میرے خیال میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ دونوں عہدے دے کر بہت بڑا رسک لیا ہے جو آنے والے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے مہنگا ثابت ہو گا چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کی ذمہ داری ایک شخص کے لیے نبھانا بہت مشکل ہے ایک اچھا چیف سلیکٹر کھلاڑیوں کی کارکردگی کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیتاہےاس کے ساتھ ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ کے میچز کو خود جا کر غور سے دیکھتا ہے کیونکہ کئی دفعہ جو کارکردگی کاغذوں میں نظر آتی ہے اس میں اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے مثال کے طور پر ایک کھلاڑی بہت اچھی بالنگ کا مظاہرہ کرتا ہے مگر اس کی گیند پر کیچز چھوٹنے کی وجہ سے وہ کم وکٹیں لیتا ہے تو اسکور کارڈ میں اس بات کا ذکر نہیں ہو گا کہ اس کی گیندوں پر اتنے کیچڑ بھی چھوتے جبکہ دوسری طرف ایک کھلاڑی کے بیٹنگ کے دوران چار سے پانچ کیچ چھوڑے جاتے ہیں اور وہ کھلاڑی ستر یا اسی سکور کر لیتا ہے تو اسکور کارڈ میں اس بات کا ذکر نہیں ہو گا کہ اس کے اتنے کیچ چھوڑے گئے جبکہ دوسری طرف ہیڈ کوچ کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں جا کر کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا بہت مشکل ہے اور اگر اس کے ساتھ ساتھ جب سلیکشن کمیٹی میں سوائے چیف سلیکٹر کے کوئی خاص ممبر شامل نا ہو تو میرے خیال میں مستقبل میں ٹیم کا انتخاب صرف اور صرف کاغذی کارگردگی پر ہی ہو گا کوچ اور کھلاڑیوں کے درمیان ایک استاد شاگرد کا رشتہ ہوتا ہے جس سے اس کے شاگرد اپنے مشکلات کا حل پوچھتے ہیں مگر وہ ہی کوچ اگر چیف سلیکٹر بھی ہو تو کیا کھلاڑی اس سے اپنی مشکلات کا ذکر کر سکیں گے یہ ایک بہت سوالیہ نشان ہے میرا پاکستان کرکٹ بورڈ کے باہر سے امپورٹڈ کیے گئے ایم ڈی کو مشورہ ہے کہ ابھی بھی وقت ہے پاکستان کی کرکٹ پر تھوڑا رحم فرمائیں اور کوچ اور چیف سلیکٹر دو الگ الگ بندوں کو بنایا جائے ویسے بھی ایم ڈی صاحب تو کچھ عرصے بعد واپس اپنے وطن لوٹ جائیں گے مگر اس وقت تک پاکستان کی کرکٹ کا بیڑہ غرق ہو چکا ہو گا۔ کیونکہ سری لنکا کے لگائے چھوٹے چھوٹے زخم آسٹریلیا بہت بڑے کر دے گی اور مصباح الحق پر گولہ باری عروج پر پہنچ جائے گی
اپنی رائے کا اظہار کریں